آٹھ اکتوبر 2005 کا زلزلہ: ایک طالبعلم کے ذاتی تجربے کی کہانی


میں اسی کھلے میدان میں نوحہ و فریاد کے طوفان کے بیچ گھوم رہا تھا کہ میری نظر اپنے والد صاحب پر پڑی۔ تب ایسا محسوس ہوا جیسے فضاوں میں اڑتے ہوئے کسی شخص کے پاوں زمین کو جا لگے ہوں۔ لہو آشنا رشتے وقعتاً بے نظیر ہوتے ہیں۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ گھر کے سبھی زندہ ہیں تو میں والد صاحب کے ہمراہ گاؤں میں واقع اپنے آبائی گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں ہو کا عالم تھا۔ ماٹی کے بنے ہوئے دیسی ساختہ سب کے سب گھر گر چکے تھے اور ان کے مکیں مکاں بُرد ہو چکے تھے۔ کہیں کہیں اِکا دُکا کوئی زندہ شخص نظر آ رہا تھا جو بے بسی کہ تصویر بنے اپنے پیاروں کو ماٹی کے ڈھیروں سے نکالنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔

گاؤں پہنچنے پر مجھے پہلی مرتبہ موت کی حقیقت اور خوف کا احساس ہوا۔ خاندان کے چالیس کے قریب فرد جن میں طفل و جواں سبھی شامل تھے موت کے دیوتا کی بھوک کا شکار ہو چکے تھے۔ جن میں بہت قریبی رشتے بھی شامل تھے۔ خیر اس میں کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہر شخص کی یہی کہانی تھی۔ مگر ایک واقعہ میری یاداشت میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔

گھر کے صحن میں آلو بخاروں کے درخت تھے ان درختوں کے نیچے قریبا دس بارہ نو عمر بچوں کے اسکول کی وردی میں ملبوس سالم لاشے دھرے تھے۔ جن کی تعداد میں ہر نئی نکلنے والی لاش کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا تھا۔ ان بچوں میں میری چچا زاد بہنوں کے علاوہ اکلوتا چچا زاد بھائی بھی تھا۔ اس نو خیز نے ابھی ابھی اسکول کی راہ دیکھی تھی۔ ان کا اسکول شہتیروں پر پڑے گارے کی چھت سے بنا ہوا تھا۔ شومئی قسمت یہ کہ زلزلہ ہوتے ہی سب بچے باہر کو بھاگے۔

اس نے فوراً اپنا نیا بستہ پہنا اور ان کے ساتھ باہر کو دوڑا۔ اتنے میں چھت آن گری۔ بھاگتے ہوئے اس کم سن کے سر پر ایک طاقتور شہتیر کی زبردست چوٹ لگی۔ اس معصوم کی کھوپڑی چِٹخ گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کا بے جان جسم ایک بڑے سے ہموار پتھر پر رکھا ہوا تھا۔ شہتیر لگنے سے اس کا بھیجا کچے انڈے کی سفیدی کی طرح اس کے کاسہ ِسر سے رِس رِس کر باہر کو بہہ رہا تھا جبکہ نیا بستہ ابھی تک اس کے کاندھے پر بندھا ہوا تھا۔

اس رات بڑی زوروں کی بارش ہوئی۔ منوں غبار اڑا چھاجوں مینہ برسا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے گھٹاوں کا ضبط ٹوٹ کر بکھر گیا ہو۔ ٹھنڈ کی شدت میں زبردست اضافہ ہوا۔ نعشوں کو (جن کہ تعداد بیس سے اوپر ہو چکی تھی) اٹھا کر ایک ادھ کھڑے سائبان کے نیچے رکھ دیا گیا تاکہ وہ بھیگنے سے محفوظ رہیں۔ باقی مانندہ لوگ ننگے فلک تلے بیٹھے کانپتے رہے۔ سردی کی شدت میری برداشت سے باہر ہو گئی میں چپکے سے اٹھا اور سائبان کے نیچے لیٹی نعشوں کی بیچ لیٹ گیا۔ سماجیت انسان کی خمیر میں واقع ہوئی ہے۔ ہم حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے نفوس بشریہ کے مردہ حالت کے ساتھ کو بھی سہارا سمجھتے ہیں۔

اگلے صبح بھرپور اور نکھری ہوئی تھی مگر اس کو دیکھنے والوں کی اکثریت چل بسی تھی اور جو باقی تھی ان کے لیے یہ سحر شب تار سے کم نہیں تھی۔ کہیں سے ایک دو کدالوں کو ڈھونڈ لایا گیا اور مُردوں کو دابنے کا کام شروع کیا گیا۔ بیشتر جوان تو مر چکے تھے لہذا گڑھے کھودنے کا کام ادھیڑ عمر مردوں سمیت بچوں نے سر انجام دیا۔ اجتماعی نماز جنازہ ادا کی جاتی، نعشوں کو سفید کپڑے (جو کے بہت کم جگہوں پر دستیاب ہوا) میں لپیٹا جاتا اور انھیں گڑھے میں لٹا کر اوپر کچی پکی مٹی بکھیر کر گڑھا بند کر دیا جاتا۔ ایسے ’خوش نصیب‘ بہت کم تھے جنہیں سفید کپڑا یا الگ گڑھا نصیب ہوا وگرنہ ہزاروں بے کفن لاشیں اپنی موت کی اصل حالت میں ہی زیر بھوم جا بسیں۔

اس کے بعد کا کچھ عرصہ بڑی بد حالی میں گزرا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ لوگ بھوکوں سحر کرتے اور فاقوں افطار۔ چھت جیسی سہولت شاذ شاذ ہی میسر تھی۔ میرے لیے یہ بڑی بے خیالی کے دن تھے۔ موت کے تلخ ترین تجربے کے اتنا قریب سے مشاہدے نے مجھے بے حس اور باغی بنا دیا تھا۔ میں دن بھر بے دلی سے یہاں وہاں گھومتا رہتا۔ غیر ملکی امدادی جہازوں کی اڑانیں گنتا، مشینوں کی ملبے کی صفائی کے دوران نعشوں کی تلاش کے شغل کو دیکھتا اور پتھرائے ہوئے لوگوں کی حالت دیکھنے خیموں اور جھونپڑوں کے گردا گرد گھوما کرتا۔

میرے اندر ایک عجیب سی خوشی کا سانپ لہرا کر یک دم جوان ہو گیا تھا کہ زلزلہ جو ہوا سو ہوا اب اسکول کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا ہے۔ مجھے اسکول کے بندھے ہوئے معمول اور اس کے نتیجے میں ملنے والے کام سے شدید کوفت ہوتی تھی۔ اسکول کی دائمی بربادی کا سوچ کر مجھے ویسا ہی شدید سرور طاری ہوجاتا جو شاید مجاوروں کو حال کھیلتے ہوئے طاری ہوتا ہو۔

لا پرواہی کے یہ دن ہوں ہی گزر رہے تھے کہ ایک دن خبر ملی کہ اسکول کے پرنسپل صاحب نے سب بچوں اور ان کے والدین کو بلایا ہے۔ میری امیدوں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ چاروناچار اسکول جانا پڑا۔ بچوں اور والدین کا ایک بڑا مجمع جمع تھا۔ پرنسپل غلام حسین وانی جو بذات خود شدید صدمے سے دوچار تھے نے تاریخ ساز تقریر کی۔ یہ بڑا انقلابی گیان تھا۔ وہ گویا ہوئے

” باغ اس وقت تک باغ کہلاتا ہے جب اس میں پھولوں کا ڈیرہ ہو۔ ہمارا باغ اجڑ گیا ہے مگر ہم نے ہی اسے سنوارنا ہے۔ کوئی شخص کسی غیبی امداد کی توقع کرے نہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ ان کی دوبارہ تعمیر کریں یا غاریں کھود کر ان میں رہیں مگر امدادی کیمپوں میں کوئی نہ رہے۔ کیمپوں میں رہنے والوں کی نہ کوئی تاریخ ہوتی ہے نہ ان کی نسل کا یقین ہوتا ہے۔ ہم حوصلے سے کام لیں گے محنت کریں گے اور ایک بار پھر سے اپنے پاوں پر کھڑے ہوں گے۔ ہمارے بچے پڑھیں گے اور ہم ان کو پڑھائیں گے“

انکے الفاظ نے لوگوں کی قوت ارادی پر زبردست اثر کیا۔ یہ بڑی پُر تاثیر گفتگو تھی۔ لوگ اپنے شکستہ گھروں کو لوٹے اور رفتہ رفتہ زندگیاں تعمیر ہونے لگیں۔ ہم بھرپور جذبے سے اسکول جانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے باغ پھر سے پھلنا پھولنا شروع ہو گیا۔ آج کا باغ پہلے سے کہیں زیادہ شاداب اور ترقی یافتہ ہے مگر کمی ہے تو ان آبیاروں کی کہ جن کے جسموں کو اس مٹی نے بطور کھاد استعمال کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2