تاری خاں ۔ ایک ستارہ جو گہنا گیا!


\"muhammadطبلہ پرنس تاری خاں ہمارے دوست ہیں 26برس سے۔ ہم ان کے طبلے کے بہت بڑے پرستار ہیںپر ’چمچہ‘ ٹائپ نہیں۔ ہم ان پر ان کے سامنے کئی بار تنقید بھی کر چکے ہیں۔ تاری کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں خوماشد بےحد پسند ہے اور اسی وجہ سے ان کا فن بہتے دریا سے کھڑا پانی بن گیا۔ ان کے چیلے چانٹے انہیں ایسے گھیرے میں لئے ہوتے ہیں جیسے یہ کوئی حافظ سعید یا مسعود اظہر قسم کی چیز ہیں۔ ان چیلے چانٹوں کی گفتگو کچھ اس طرح ہوتی ہے: ’ذاکر (استاد ذاکر حسین) کچھ وی نہیں! کی وجاندا اے! اللہ رکھا (استاد ذاکر حسین کے والد) نو تے کچھ وی نہیں آندا! اے سارے گھٹل نے) یہ باتیں سن کر تاری بھی بے قابو ہو جائے گا اور پھر بھانڈوں کی طرح ذاکر اور اللہ رکھا کی نقلیں اتارنا شروع ہو جائے گا۔ ذاکر بھائی نے اپنے والد کے ساتھ کئی باکمال جگل بندیاں کیں۔ ان کے بارے میں تاری کا کہنا ہے: ’اللہ رکھا اب طبلے کی یونیورسٹی ہیں۔ بیٹا تو زوردار طبلہ بجاتا ہے اور باپ کمزور۔ اصل میں بیٹا باپ کو سٹیج پر ذلیل کر رہاہے، یونیورسٹی کو چاہیے کہ آرام کرے مگر یونیورسٹی خود ہی طبلہ بجانا شروع ہو جاتی ہے!‘

تاری کو ایسے ہی خوشامدی لے ڈوبے جو اسے ہر لمحے یہ احساس دلاتے کہ وہ ذاکر سے کئی درجے بہتر طبلہ نواز ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ذاکر ایک آفتاب ہے اور تاری معمولی سا ذرہ۔ تاری کے پاس سوائے کہروے کے کچھ بھی نہیں۔ باکمال کہروا ہے جسے وہ گیت، غزل اور نیم کلاسیکل موسیقی میں خوبصورتی سے استعمال کر تا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے غلام علی کی وہ غزلیں سنیں جن میں سنگت تاری نے کی۔ اس کے بعد غلام علی کو سنیں ذاکر بھائی اور آنندو چٹر جی کے ساتھ۔ آپ کو ذاکر اور آنندو جی کی سنگت بالکل پسند نہیں آئے گی بلکہ سر پیر ہی نہیں ملے گا۔ لائٹ موسیقی کی سنگت میں تاری اپنی ذات میں بلاشبہ ایک گھرانہ ہے مگر کلاسیکل سنگت، سولو طبلہ، کتھک سنگت وغیرہ تاری کے بس کی بات نہیں۔ ان چیزوں میں یہ ایسا ہی ہے جیسے غزل سنگت میں ذاکر بھائی یا آنندو چٹر جی۔

معتبر صحافی آلِ عدنان شوکت صاحب سے کئی برس طبلہ سیکھتے رہے۔ شوکت صاحب کی بہت خدمت بھی کی۔ آجکل ٹیکساس، امریکہ میں رہتے ہیں۔ جب ہم نے انہیں یہ بتایا کہ ہمارا اگلا مضمون تاری کے بارے میں ہو گا تو کہنے لگے ہماری یہ رائے شامل کیجئے گا:

 ’تاری کے پروگرام میں چار چیزیں لازمی ہوتی ہیں۔ اول، یہ بہت تاخیر سے آتا ہے۔ دوئم، ساﺅنڈ انجینئر سے اسکی تو تو میں میں ہوتی ہے۔ سوئم یہ طبلے کے بجائے گانا گانے پر اصرار کرتا ہے۔ چہارم اسکا طبلہ انتہائی سریلا اور پراثر ہوتا ہے مگر پہلی تین باتیں آخری بات کا مزہ ختم کر دیتی ہیں۔ ایک وقت تھا یہ بہت ہونہار طبلہ نواز ہوا کرتا تھا اور اس کے طبلے جیسی آواز اپنی مثال آپ تھی۔ اور یہ ذاکر اور آنندو بھائی کے لیول کا طبلیہ بن سکتا تھا مگراسے غیبت، سستی سیاست،غیر پیشہ ورانہ رویہ لے ڈوبا۔ اور اس طرح یہ اپنے آپ کو عامیانہ سطح کے آرٹسٹ پر لے آیا۔ اسکے چند خود ساختہ قسم کے شاگرد ہیں امریکہ میں جو اس کے چھوٹے موٹے پروگرام اپنے گھروں میں کراتے ہیں اور لوگوں سے چندہ لے کر اسے دیتے ہیں۔ اسے سال میں چھ سے بھی کم بڑے کنسرٹ ملتے ہیں۔‘

تاری کے ساتھ ہمارا تجربہ بھی آلِ سے مختلف نہیں۔ معلوم نہیں تاری کو یہ کیا بیماری ہے کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھا کراپنے آپ کو اوپر \"tari1\"ثابت کرتا پھرتا ہے۔ مثلاً جب اسے یہ معلوم ہوا کہ ہم استاد شاہد پرویز کے ستار کے پرستار ہیں اور ان کے دوست بھی ہیں تو بھری محفل میں شاہد بھائی کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ ایک دفعہ امریکہ میں انہیں بے تال کر دیا۔ جو لوگ موسیقی میں لے کو سمجھتے ہیں وہ تو یہی کہیں گے کہ تاری آسمان پر مت تھوک پلٹ کر واپس آئیگا۔ ہم نے یہ بات اپنے ایک ستار نواز دوست فرید نظامی کو بتائی۔ نظامی اسوقت شاہد بھائی کاباگیشری سن رہا تھا اور طبلے پر تھے پنڈت آنندو چٹر جی۔ نظامی بولا: ’شاہد بھائی نے اسوقت آنندو چٹر جی کی کھوپڑی گھمائی ہوئی ہے۔ ایسی خطرناک جگہ سم رکھا ہے کہ یہ وہی سنبھال سکتے ہیں۔ تاری کی بات مضحکہ خیز ہے۔ شاہد پرویز جب چاہیں کسی بھی طبلے والے کا طبلہ بند کر دیں۔ ‘

جب ہم نے یہ بات شاہد بھائی کو بتائی تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ تاری تو میری منتیں کر تا پھرتا ہے کہ خاں صاحب کبھی ہمیں بھی ساتھ رکھیں۔ پھر شاہد بھائی نے کہا کہ آپ تاری کو کہہ دیں کی دنیا میں کسی بھی جگہ میرے ساتھ بیٹھ جائے اور میری گت کا اگر سم ہی بتا دے تو میں ساری عمر ستار نہیں بجاﺅں گا۔ سنگت تو دور کی بات صرف اتنا بتا دے کہ سم کہاں ہے! اگر تاری کو یہ پیغام نہیں پہنچا تو اب پڑھ لے۔ شاہد بھائی بھی آج کل امریکہ میں ہیں۔

تاری کی ایک پیشہ ورانہ بددیانتی یہ ہے کہ وہ ہر ایک کو بے تال کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس فعل کو جائز سمجھتا ہے۔ طبلے والے کا کام صرف اور صرف ٹھیکہ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ گانے یا بجانے والے کی مرضی کہ وہ طبلے والے کو کتنا ٹائم دیتا ہے ۔ تاری کو اپنے استاد شوکت حسین صاحب پر بہت فخر ہے۔ سوال یہ ہے کہ تاری نے شوکت صاحب سے کیا سیکھا؟ ہمیں تو لگتا ہے کہ طبلہ تک نہیں سیکھا کیونکہ شوکت صاحب تو جسکے ساتھ بھی سنگت کرتے تھے اسکے مزاج اور ضرورت کے مطابق بجاتے تھے۔ شوکت صاحب عجز و انکسار کا پتلا تھے۔ انتہائی کم گو، سنجیدہ اور شرمیلے انسان۔ اگر شوکت صاحب کو سمجھنا ہو تو آلِ عدنان کا یہ مضمون پڑھیے :

http://www.thefridaytimes.com/tft/the-ustad-of-ustaads/

ایک جگہ آلِ لکھتے ہیں کہ ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کو صرف سیدھا سیدھا ٹھیکہ پسند تھا۔ شوکت صاحب ایسا ہی بجاتے تھے ان کے ساتھ۔ جبکہ سلامت علی خاں دھواں دار طبلہ چاہتے تھے اور شوکت صاحب خطرناک تہائیاں بجاتے تھے ان کے ساتھ۔ ہم نے کئی بار نفیس اور اسد قزلباش کو تاری کے ساتھ سنا۔ ان دونوں نے جو کچھ الاپ میں کر دیا وہ ستار اور سرود اور گت کے بعد سب طبلہ ہی طبلہ! ایسا لگتا تھا کہ دونوں نے صرف لہرا رکھا ہوا ہے اور تاری سولو بجا رہا ہے۔ بہت کوفت ہوا کرتی تھی ۔ راگ کا مزہ خرا ب ہو جاتا تھا۔ ایک دفعہ رضا کاظم صاحب نے بھارت سے ولایت خان صاحب کے بیٹے شجاعت کو بلایا۔ تاری نے خوبصورت سنگت کی۔ اتنی میٹھی اور سریلی کہ بس پوچھیں نہ۔ ہم نے یہ ریکارڈنگ تاری کے استاد بھائی اور اپنے دوست اجمل کو سنائی اسد قزلباش (سرود نواز) کے گھر۔ جان بوجھ کر نہیں بتایا کہ طبلے پر کون ہے۔ اجمل بولا ذاکر بھائی ہیں۔ اسے ےقین نہیں آیا کہ تاری ہے۔ کہنے لگا یہ تو بالکل ذاکر کا سٹائل بجا رہا ہے۔ ان باتوں سے بہت کچھ پتہ چلتا ہے۔ تاری ذاکر کو نہیں مانتا پر نقل اس کی کرتا ہے۔ بالوں کا سٹائل بھی ذاکر کی طرح۔ ذاکر بھائی تو سینئر ہیں۔ تو پھر یہ منافقت کیوں؟

اور شجاعت کے ساتھ میٹھا یوں بجایا کہ شجاعت دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی تاری کو ساتھ رکھتا ہے۔ اسکے ساتھ ’پنگا‘ کرنے کا مطلب یہی تھا کہ روزی روٹی کوجان بوجھ کر لات مارنا! رضا کے گھر شجاعت سے پہلے ہمارے پیارے دوست اشرف شریف خاں جسے ہم پیار سے ٹونی کہتے ہیں بجایا تھا۔ اس کو بے تال کرنے میں تاری نے ایڑی چوٹی کو زور لگایا مگر منہ کی کھائی۔ ہوا یہ کہ باگیشری کا گت میں مزہ خراب ہوا۔ شجاعت نے سمپورن مالکونس بجایا تھا۔ تاری کی سنگت کی مٹھاس آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ کاش تاری ہر ایک کے ساتھ ایسا ہی بجاتا۔

ہمارے گرو پروفیسر شہباز بتلاتے ہیں کہ آج سے تیس برس پہلے انہیں محفوظ کھوکھر کے گھر تاری کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے غزل گائی۔ تاری کو ٹھیکہ نہیں بتایا بس باجے کے کورڈ سے جھول بتا دیا۔ تاری نے بالکل وہی جھول دیا جو شہباز بھائی چاہتے تھے۔ بقول ان کے آج تک کسی اور طبلے والے نے ان کے ساتھ ایسی خوبصورت سنگت نہیں کی۔ غلام علی کی غزل تاری کے بغیر پھیکی لگتی ہے۔ غلام علی اور تاری کی جوڑی کیسے ٹوٹی؟ اس بات کو جواب آپکو آلِ کے مضمون ، جسکا لنک اوپر دیا ہوا ہے، تفصیل سے ملے گا۔ مختصراً یہ کہ غلام علی کو شکایت تھی کہ تاری تاخیر سے آتا ہے، لمبی لمبی ٹھاہ دونیاں کرتا ہے بلاوجہ اور غلا م علی کو ان کی مرضی کے مطابق ٹھیکہ نہیں دیتا۔ غلام علی نے یہ شکایت تاری کے استاد سے کی تھی۔ استاد نے سمجھایا مگر تاری نے سنی ان سنی کر دی۔ یہ اسی بے مرادی کا نتیجہ ہے کہ آج تاری کو کوئی پوچھتا تک نہیں باوجود اس کے کہ دنیا اسکے کام کو غزل اور گیت میں کاپی کر رہی ہے۔

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments