اومارسکا کی اسٹرابیری


محافظ سلام کی خون میں لت پت حالت دیکھ کر آپس میں یہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے کہ کچھ دیر بعد واپس آئیں گے تاکہ اس قیدی کو اچھی طرح ہوش آجائے۔ دروازہ ایک زور دار آواز کے ساتھ بند ہو ا۔ سلام رینگتے ہوئے اس گلاس کی طرف گیا جس میں سے وزنی افسر نے وسکی پی تھی۔ اس میں ابھی ایک آدھ گھونٹ باقی تھا۔ اس نے وسکی کا گھونٹ اندر انڈیلا اور آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سلام کی

طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ اب وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے عذرا کے لئے زندہ رہنا تھا۔ وہ یہ سوچ کر کانپ گیا کہ عذرا کی کس طرح عصمت دری ہوتی ہو گی۔

اس شدید اذیت کے بعد سلام کی کبھی تفتیش نہیں ہوئی۔ شاید سرب افسر کو پتہ لگ گیا تھا کہ اس کے پاس بتانے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ ہلکے ہلکے بخار سے اس کا جسم ٹوٹتا رہتا۔ سارے ہی قیدی بیمار تھے لیکن اپنی بیماری کو چھپا رہے تھے۔ کئی قیدی یہاں سالوں سے بند تھے اور محض ہڈّیوں کے پنجرے بن گئے تھے۔ سلام کو تو ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے اور اس کی حالت قدرے بہتر تھی۔ لیکن بھوک کی شدّت اور قیدیوں کی چیخ و پکار اس کی برداشت سے باہر تھی۔

سلام عذرا کے بارے میں سوچتا رہتا۔ اسے ہر صورت میں عذرا کے لئے زندہ رہنا تھا۔ شاید کسی طرح وہ اور عذرا رہا ہو جائیں۔ کسی طرح دوبارہ مل جائیں۔ ایک دوسرے کو سہارا دے کر اپنی ٹوٹی ہوئی زندگیوں کو دوبارہ جوڑیں۔

کچھ عرصہ بعد سربوں اور بوسنیوں میں معاہدہ ہو گیا۔ قیدیوں کی رہائی شروع ہو گئی۔ ریڈ کراس کے لوگ آکر قیدیوں کو ایک کیمپ میں لے گئے جہاں خوراک اور طبّی سہولتوں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ لیکن سلام کو کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں سب طرف عذرا کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ اورآخرکار اگلی صبح اس نے عذرا کو پہچان لیا۔ لیکن وہ عذرا نہیں تھی۔ وہ ایک سانس لیتا ہوا ڈھانچہ تھی جیسے ڈراونی فلموں میں قبر سے نکلی ہوئی زندہ لاش۔

بالکل پیلی رنگت، آنکھوں کے گرد گہرے حلقے، گالوں پر انتہائی بھدّے نشانات۔ سلام کو دیکھ کر عذرا بالکل ساکت تھی جیسے وہ اس کو نہیں جانتی تھی۔ پھر دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور نہ جانے کتنی دیر سسکیوں کے ساتھ آنسوں کا سیلاب جاری رہا۔ دونوں میں سے کسی میں نہ کچھ کہنے کی ہمّت تھی اور نہ کچھ سننے کی۔

*****

سلام اور عذرا اپنے شہر واپس چلے گئے۔ کچھ دنوں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو تلاش کرتے رہے۔ ان میں سے چند کو جنگ نے نگل لیا تھا۔ باقی کچھ زخمی تھے یا لاپتہ تھے۔ یہ دونوں بھی انتہائی اذیّتوں سے گزر کر ذہنی طور پر کافی مفلوج تھے۔ عذرا کے بڑے بھائی نے جو قدرے مالدار تھا، یہ فیصلہ کیا کہ ان کو جلد از جلد مصروف کر دیا جائے۔ اس نے پھلوں اور سبزیوں کا ایک چھوٹا اسٹور انہیں کھول کر دے دیا۔ عذرا اور سلام دونوں اسٹور چلانے میں مصروف ہو گئے لیکن فرصت کے لمحات میں قیدیوں کی خوفناک چیخیں اور محافظوں کے قہقہے ان کے کانوں میں گونجنے لگتے۔ اور جسمانی تشدّد کے بھیانک خواب ان کو چین کی نیند نہ سونے دیتے۔

ایک دن جب سلام کیش رجسٹر پر بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی اسٹرابیری کا ڈبّہ اٹھا کر لایا۔ یہ آدمی نشہ میں تھا۔ اس نے کاونٹر پر ہی اسٹرابیری کھانا شروع کر دیں اس کا چہرا اسٹرابیری کھانے سے گندا ہو گیا تھا۔ سلام نے اس کو پہچان لیا، کندھے بے حد چوڑے، آنکھوں میں لال ڈورے، چہرہ پر دوزخ کے دروغہ کی سختی۔ یہ تو وہی محافظ تھا جس نے سلام کے منہ سے بہتے ہوئے خون کا مذاق اڑایا تھا! سلام اپنے حواس کھو بیٹھا۔

’دیکھو! بچّے نے اسٹرابیری کھا کر منہ لال کر لیا ہے‘ اور قہقہے لگانے لگ گیا۔

محافظ نے یہ سنا تو اس نے اسٹور سے باہر نکل کر بھاگنا شروع کر دیا۔ سلام اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ عذرا کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ سلام کیوں ایک گاہک کا تعاقب کر رہا تھا۔ اس نے پریشانی اور تجسّس کے عالم میں سلام کو پکارتے ہوئے اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دور اسٹرابیری کا کھیت تھا۔ محافظ اس کھیت میں گھس گیا۔ وہ نشہ کی حالت میں تھا اس لئے تیز نہیں بھاگ سکتا تھا۔ اس کو ٹھوکر لگی اور وہ منہ کے بل اسٹرابیری کے پودوں پر گر گیا۔ سلام نے قریبی درخت کے پاس پڑا ہوا بیلچہ اٹھا لیا تھا۔ جب محافظ نے سر اٹھایا تو اس کے سامنے سلام بیلچہ لئے ہوئے کھڑا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا۔

’دیکھو! بچّے نے اسٹرابیری کھا کر منہ لال کر لیا ہے۔ ‘

سلام نے سوچا کہ محافظ کو یوں ہی چھوڑ کر واپس چلا جائے۔ لیکن پھر اسے عذراکے ساتھ ہونے والے جنسی تشدّد کا خیال آیا۔ سلام نے پوری قوّت کے ساتھ بیلچے سے محافظ کی گردن پر وار کرناچاہا لیکن عذرا کی اونچی آواز پراس کے ہاتھوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس نے محافظ کی طرف دیکھے بغیر اسٹور کی سمت تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ عذرا سلام کے ساتھ چل رہی تھی اور ماجرہ جاننا چاہتی تھی۔ لیکن سلام نے جواب نہیں دیا بلکہ وہ عذرا کے سوالات کو سن ہی نہیں رہا تھا۔ وہ ہانپتا کانپتا واپس اسٹور پہنچا تو پھر اسے اسٹرابیری کے ڈبّے نظر آئے۔ اس کا پورا جسم کانپ اٹھا۔
’مجھے یہاں سے دور لے جاو ورنہ میں اسٹرابیری کھا کر بچّوں کی طرح منہ لال کر لیتا ہوں۔ ‘ یہ کہہ کر سلام قہقہے لگانے لگ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2