​خاندانِ تخلصاں


(عبدالحفیظ)

\"abdul-hafeez\"ہمارے خاندان میں تخلص رکھنے کا رواج ہے۔ ہمارے والد محترم ایک مشہور سیاسی جماعت کے سرگرم کارکن تھے۔ کوئی جلسہ، کوئی الیکشن اُن کے فلک شگاف نعروں کے بغیر نا مکمل تھا۔ گو وہ تمام عمر خود کو ایک سیاسی جماعت کا بانی کارکن کہتے اور کہلواتے رہے مگر قوم سے ”بانیوں“ کے ساتھ ناروا سلوک کا رونا بھی روتے رہے۔ وہ سیاست سے اپنے عشق کا برملا اظہار کرتے تھے لیکن ساری عمر ہجر کے نالے ہی گاتے رہے کیونکہ وصل کی کونسلری جتنی مدت بھی کبھی نہ ملی۔ ”درویش“ ان کا تخلص تھا.

ہم چار بھائی ہیں۔ والدہ صاحبہ، والد صاحب کے عشقِ سیاست سے سخت دلبرداشتہ تھیں۔ اُن کا ہمارے مستقبل کے بارے ایک ہی ارادہ تھا کہ ہم ”سیاسی کارکن“ نہیں بنیں گے اور چاہے جو مرضی بن جائیں۔

سب سے بڑا بھائی بچپن ہی سے سیاہ کو سفید اور سفید کو سرخ ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ اسکول کا کام نہ کرنے پر ماسٹر صاحب جب اُس کی دُرگت بنانے کا ارادہ فرماتے تو ڈرنے کی بجائے کام نہ کر سکنے کی وجوہات بتانا شروع کر دیتا۔ یہ علیحدہ بات کہ کام نہ کرنے کی بجائے زیادہ مار اُسے اپنے دلائل کی وجہ سے پڑتی۔ کئی دفعہ اِسی وجہ سے وہ والد صاحب سے اپنی وہ ”خدمت ” کرواتا جو والد صاحب کی مارشل لاء دور میں جیل میں ہوتی تھی۔ اُس کی انہی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ماسٹر صاحب نے پیش گوئی کی کہ وہ بڑا ہو کر وکیل بنے گا۔ بی۔ اے کرنے کے ساتھ ہی اُس نے لاء میں داخلہ لے لیا اور کچہری میں آمدورفت شروع کر دی۔ جب اُسے وکالت کی اجازت ملی تو اُس نے اپنا تخلص ”صدیق“ رکھ لیا.

اُس سے چھوٹے کو بچپن ہی سے تفتیش کرنے اور دھونس جمانے کی عادت تھی ۔ اُس کے پاس ہم سب بھائیوں کے ”راز“ ہوتے جن کی وجہ سے ہمیں بلیک میل کر کے ہم سے اپنے کام کرواتا اور اکثر ہماری چیزوں پر قبضہ بھی کر لیتا۔ بچپن میں جب کبھی میں اور مجھ سے بڑا بھائی اپنا کوئی جھگڑا لے کر اُس کے پاس جاتے تو وہ ہمیشہ غلط فیصلہ کرتا۔ اگر فیصلہ میرے خلاف ہوتا اور میں احتجاج کرتا تو میری پٹائی بھی کر ڈالتا۔ ایف۔ اے میں بمشکل پاس ہونے کے بعد وہ سکہ رائج الوقت کی بدولت پنجاب پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہو گیا۔ ٹریننگ کے بعد تھانے میں پوسٹنگ ہوتے ہی اُس نے اپنا تخلص ”عادل“ رکھ لیا۔

اب باری تھی تیسرے اور مجھ سے بڑے بھائی کی۔ وہ ہمارا ”بنیا“ تھا۔ جب ہم بھائیوں کے پاس جیب خرچ نہ ہوتا اور کوئی لنگر پارٹی کرنے کا شوق چُراتا تو اُس کے پاس سے رقم نکل ہی آتی تھی۔ جب ہم پارٹی کر چکتے تو لازمی اگلے دن والد صاحب یا والدہ محترمہ صندوق میں سے کچھ رقم نہ ملنے کی بات کر رہے ہوتے تھے، لیکن اُس وقت تک مجھے اپنی پارٹی اور رقم کے غائب ہونے کا تعلق سمجھ نہیں آتا تھا۔ یہ بھائی بچپن سے ہی کلرک بادشاہ تھا۔ جب حساب کی مشقیں کرنی ہوتیں تو والد صاحب کی عینک ناک پر ٹکا کر منشی بن جاتا اور دو جمع دو بھی کیلکولیٹر پر کرتا۔ میٹرک کرتے ہی اُس نے اعلان کر دیا کہ اُس کی اعلٰی تعلیم کی چوٹی سر ہو چکی ہے اور اب وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے لائق ہو چکا ہے۔ اُس کی حساب کتاب کی عادت کو دیکھتے ہوئے، مناسب مال دے کر اُسے محکمہ مال میں بھرتی کروا دیا گیا۔ اُس نے اپنی پہلی حاضری رپورٹ میں اپنے نام کے ساتھ ”امین“ کے تخلص کا اضافہ کر دیا۔

اب باری ہے اِس خاکسار کی۔ مجھے ادب سے لگاؤ ہے۔ بچپن میں اخبار ”دیکھنے“ کا شوق تھا۔ پھر بچوں کی کہانیوں سے ہوتا ہوا دورِ حاضر کے لکھاریوں کی تصانیف تک پہنچا ہوں ۔ ابھی صرف پسندیدہ مصنفین کی خاص اور مشہور کتب پر ہی گزارا ہے کیونکہ کتب بینی کا شوق ضرور ہے مگر خبط نہیں۔ شاعری، نثر نگاری، کالم نگاری، افسانہ، ڈرامہ، ناول، اِن سب سے ہٹ کر ادب میں کچھ نیا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ خاکسار ”ادیب“ تخلص کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments