یوم عاشور کی پکار


امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن صبر، استقامت، حوصلہ مندی، اصول پرستی، ایثار، تشدد سے گریز اور سخت ترین حالات میں بھی کلمہ حق کہنے کے نام سے عبارت ہے۔ 10 محرم 61 ہجری کو نواسہ رسول نے کربلا کے مقام پر ایک ایسی تاریخ رقم کی تھی جو تاابد مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ کل عالم کے لئے راستی اور رہنمائی کا نشان بنی رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے سانحہ کربلا کو آنسو بہا کر اور ماتم کرکے یاد رکھا ہے۔ وہ حسین کو حق کی علامت اور یزید کو برائی اور گمراہی کا نشان سمجھتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی بدنصیبی کی بات ہے کہ مسلمانوں کی ساڑھے تیرہ سو برس پر پھیلی تاریخ میں اس پیغام پر عمل کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں جو شہید کربلا نے امت رسول کے لئے چھوڑا تھا۔ حضرت امام حسین کربلا میں کسی مالی منفعت یا کسی عہدے کے لالچ میں یزید کی شیطانی فوج کے سامنے سینہ سپر نہیں ہوئے تھے۔ وہ اس بات کا اعلان کر رہے تھے کہ بہرطور انہیں اپنی صوابدید کے مطابق سچ کو تسلیم کرنے اور جھوٹ کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔ یزید کی اطاعت کا اقرار انہیں زندگی اور دنیاوی سرفرازی عطا کر سکتا تھا لیکن ایک نااہل حکمران کی بیعت سے انکار کرکے قیامت تک کے لئے حق انتخاب کا اصول طے کر دیا گیا۔ یہ اصول آج بھی مسلمانوں کو زوال سے عروج کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔

کربلا میں آمنے سامنے گروہوں کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ امام حسین اور ان کے ساتھی جنگ کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے سفر کرتے ہوئے وہاں تک نہیں پہنچے تھے۔ لیکن جب فاسق حکمران کی اطاعت یا جنگ کے درمیان انتخاب ٹھہرا تو انہوں نے پوری استقامت سے اس حق کے لئے اپنی جان قربان کر دی جو آج بنی نوع انسان کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔ یعنی اپنی رائے رکھنے اور اس پر قائم رہنے کا حق۔ جو سچ ہو اسے قبول کرنے اور اس راستے پر چلتے ہوئے جان کی قربانی دینے کا حوصلہ۔ اپنے موقف کا اعلان کرنے کے باوجود تشدد اور جنگ سے گریز کا راستہ۔ حسین نے بتایا اور کر دکھایا کہ کس طرح اصولوں کے لئے جیا جاتا ہے اور کس طرح ان کی حفاظت کے لئے جان قربان کر دی جاتی ہے۔ حضرت امام حسین اپنے عہد کے دہشت گردوں کے سامنے کلمہ حق بلند کر رہے تھے کہ طاقت اور ظلم کے سہارے دوسروں کو ان کے حق انتخاب سے محروم کرنے والوں پر انکاراور اقرار کا فرق واضح کیا جا سکے۔ انہوں نے تاقیامت اپنے حق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی تائید میں آواز بلند کی تھی اور آج بھی حسین مزاحمت اور حق پرستی کی علامت کے طور پر ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔

یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ واقعہ کربلا مسلح تصادم کی بھیانک مثال ہے۔ یہ سانحہ طاقت کے نشے میں چور حکمران اور اپنے حق پر مصر ایک فرد کے درمیان معرکہ تھا۔ اس روز سچ کا خون بہانے اور اچھائی کو ختم کرنے کا قصد کیا گیا تھا۔ کربلا کے میدان کو امام سمیت ان کے 72 ساتھیوں کے خون سے لال کر دیا گیا لیکن ان شہید سروں کو نیزوں پر اچھالنے والے روسیاہی کے اس سفر پر روانہ ہو رہے تھے جو مشیت ایزدی نے ان کا مقدر بنا دیا تھا۔ اس دن شہیدوں نے اپنی زندگیاں قربان کرکے اسلام کے پیغام حق پرستی کو حیات جاوداں عطا کی تھی۔ اس روز ظلم، جبر اور دہشت و بربریت کی بدترین مثال قائم کی گئی تھی لیکن امام حسین کی استقامت اور قربانی نے اس دن کو مظلوموں کی فتح اور کامیابی کا نشان بنا دیا۔ آج جب ہم یوم عاشورہ کا ذکر کرتے ہیں، کربلا کے شہیدوں کے قصے پڑھتے اور سنتے ہیں یا گریہ زاری اور عزا داری میں شریک ہوتے ہیں تو ہم ظلم و دہشت کو مسترد کرتے ہیں۔ جبر کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور وہی حق مانگتے ہیں جو امام حسین نے 61 ہجری میں کربلا کے میدان میں یزید کی فوج سے مانگا تھا۔ کہ ہمیں اس راستے پر چلنے کی آزادی ہے جسے ہم اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے جائز سمجھتے ہیں۔

اس لئے حسین کے ہر عزا دار پر لازم ہے کہ وہ اس بات سے آشنا رہے کہ اس کے آنسو اس کی کمزوری نہیں ہیں۔ بلکہ یہ وہ طاقت ہے جو حضرت امام حسین کی سنت پر عمل کرتے ہوئے طاغوتی قوتوں کا سامنا کرنے، ناانصافی کو مسترد کرنے، ظلم سے مفاہمت نہ کرنے اور تشدد سے انکار کرنے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ یوم عاشورہ مسلمانوں کو حوصلہ مندی اور اصول پرستی کا سبق سکھاتا ہے۔ لیکن یہ جنگ پر آمادہ نہیں کرتا۔ یہ لاتعلق رہنے کا درس بھی نہیں دیتا۔ اس دن رونما ہونے والے واقعات ایک سادہ مگر بنیادی مقصد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ تھے۔ حسین کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس صبر و حوصلہ اور حق پرستی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ کربلا کو جنگ اور خوں ریزی کا پیغام سمجھ کر معاشرے میں انتشار اور بدامنی پھیلانے والے امام کے پیغام عافیت کو سمجھنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس گمراہی سے بچنے کے لئے ہمیں یوم عاشورہ کے واقعات اور اپنے طرز عمل کا تقابلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم حسین کے پیروکار ہونے کے باوجود یزید کے پیغام جبر و دہشت پر عمل کرنے والے بن گئے تو روز قیامت حسین کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

عہد حاضر کے مسلمانوں کی حالت پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے بھیس میں یزیدی قوتیں کیسے اور کیوں کر انسانوں کا خون بہانے اور اپنی فتح کا اعلان کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر ہم ان عناصر کی شرپسندی سے متاثر ہو گئے تو یوم عاشورہ کا مقصد پورا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ راستہ گمراہی کا راستہ ہو گا۔ یہ حق لینے کا نہیں دوسروں کا حق مسترد کرنے کا طریقہ ہوگا۔ حضرت امام حسین نے اپنا حق لینے کے لئے شہادت قبول کی تھی۔ وہ کسی کو اس کے حق انتخاب سے محروم کرنے کے مشن پر کربلا تک نہیں پہنچے تھے۔ ہمیں آج اس فرق کو صاف اور واضح طور سے سمجھنا ہوگا۔ اگر ہم یہ فرق دیکھ سکیں اور اگر ہم اس حوصلہ اور صبر کا عشر عشیر بھی اپنے مزاج اور رویہ کا حصہ بنا سکیں، جس کا مظاہرہ حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں نے کیا تھا تو ہم اس دنیا کو سب کے لئے جنت نظیر بنا سکتے ہیں۔ ہم دوست دشمن سب پر واضح کر سکتے ہیں کہ تلوار اٹھانا، خون بہانا، انسانوں کو ہلاک کرنا، حکمرانی کے دعوے کرنا، ظلم کو نافذ کرنا، استبداد کو طریق حکومت بنانا، یزید کا طریقہ ہے جس کے خلاف حسین سینہ سپر ہوئے تھے۔ یہ تصویر بہت واضح ہے۔ فیصلہ کرنا بے حد آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ کیوںکہ شہدائے کربلا نے ثابت کیا ہے کہ جان دینے میں سرفرازی ہے۔ جو لوگ مارنے اور قتل کرنے کا قصد کرتے ہیں، جو دوسروں کو محروم کرنے اور خود کو مسند نشین کرنے کا عزم رکھتے ہیں، قیامت تک کے لئے روسیاہی اور ہلاکت ان کا مقدر بنا دی گئی ہے۔

یہ فیصلہ حلب میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے مسلمانوں کو بھی کرنا ہے اور یمن کے معصوم شہریوں پر بم برسانے والوں کو بھی طے کرنا ہے کہ دور حاضر کے آتشیں بم برسا کر وہ کون سا پیغام عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ توپ اور بندوق کے سہارے حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنے والے طالبان ہوں یا داعش کے جنگجو، وہ القاعدہ سے وابستہ ہوں یا کسی مدرس کے بہکاوے میں آ کر خوں ریزی پر آمادہ مٹھی بھر لوگ۔ ان کو جان لینا چاہئے کہ وہ یوم عاشور کی بے حرمتی کا سبب بنتے ہیں۔ وہ اس روز دی گئی قربانی سے انکار کرتے ہیں کیوںکہ وہ ظلم کے اس علم کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جسے یزید کی فوجوں نے سربلند رکھنے کے لئے حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون بہایا تھا۔ اگر وہ یہ جان لینے کے بعد بھی بندوق اٹھانے، جسم سے بم باندھ کر انسانوں کو مارنے، دھماکے کرنے، بستیوں پر قہر نازل کرنے کا حوصلہ کر سکتے ہیں تو تاریخ کا پیغام بھی بہت واضح ہے۔ جب بھی یزید کا پرچم بلند ہو گا اس پر ہلاکت مسلط کر دی جائے گی۔

اور وہ جو عقیدہ کا نعرہ لگاتے ہوئے کسی ہندو، کسی عیسائی، کسی یہودی کو حق زندگی سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ وہ جو دوسروں کے مسلک کو گمراہی قرار دے کر گردنیں کاٹ دیتے ہیں۔ وہ جو بسوں کو روک کر لوگوں کی شناخت کرنے کے بعد انہیں گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ کیا یہ سارے لوگ سرفراز ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ نواسہ رسول نے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی گردن کٹوا لی تھی۔ یہ کیسے امتی ہیں جو دوسروں کے اس حق انتخاب سے انکار کرتے ہیں جسے حاصل کرنے کے لئے حسین نے یزید کی فوج کو للکارا تھا۔ یہ قافلہ حسینی میں شامل نہیں ہو سکتے۔ مارنے والے، انکار کرنے والے اور محروم کرنے والے یوم عاشورہ کے پیغام کے باغی ہیں۔ وہ اسلام کی سربلندی کے لئے نہیں اپنی جاہ پسندی اور سربلندی کے لئے برسرجنگ ہیں۔ ان قوتوں کی سرکوبی پیغام کربلا کی ترویج کے لئے کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ ظلم کی ان علامتوں کو مسترد کرنا ضروری ہے۔ ان کے قول و فعل سے انکار کرنا ہی یوم عاشور کے پیغام کو زندہ کرنا ہے۔

یوم عاشور نواسہ رسول کے لہو سے روشن ایک ایسا استعارہ ہے جو ایک کسوٹی کی مانند حق اور کفر، غلط و درست، راستی اور گمراہی میں فرق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ مسلمان حق پرستی کی اس طاقتور علامت کے باوجود جب ایثار کی بجائے جبر اور استقامت کی بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو وہ خود اپنی منزل کھوٹی کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ عہد حاضر میں نائیجیریا سے افغانستان اور یمن سے انڈونیشیا تک مسلمانوں کو جن مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے، وہ سانحہ کربلا سے مناسب اور درست سبق نہ سیکھنے کا شاخسانہ ہے۔ حالانکہ جس قوم کے پاس کھرے کھوٹے کی پہچان کرنے والا ایسا پیمانہ موجود ہو، اس کے لئے راستے سے بھٹکنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ آج کے مسلمانوں کے لئے یہی یوم عاشور کا پیغام اور یہی اس کی پکار ہے۔ اس سے راست گوئی کا سبق سیکھنا اور اس پر پوری دلجمعی سے قائم ہونا ہی امام حسین کی قربانی کو بہترین خراج عقیدت ہے۔ لیکن سنت حسین کا داعی ہو کر یزیدیت کے ہتھکنڈے اختیار کرنا ایک ایسا ظلم ہے جو دین و دنیا دونوں میں خسارہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے بہت سے مظاہر ہمارے سامنے ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

تشدد اور دہشت گردی کے علاوہ مسلمانوں کو آج کے عہد میں شخصی آزادی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ مختلف نقطہ ہائے نظر سے دین اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی وجہ سے اس حوالے سے بہت سی الجھنیں اور غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ ہمارے اردگرد ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جو فرد کی آزادی کو اسلام کے پیغام کے برعکس قرار دیتے ہیں اور جمہوریت کو مذہب سے متصادم سمجھتے ہیں۔ جس طرح بہت سے طبقہ ہائے فکر نے وسیع المشربی اور لااکراہ فی الدین کو سیکولرازم قرار دینے کی بجائے، مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کے تصور کو لادینیت اور عقیدہ سے گمراہی قرار دیا ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ ان تصورات کو طاقت کے زور پر نافذ کرنے اور اتفاق نہ کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا چلن عام ہوا۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے اکثر مسلمان معاشرے بالعموم اور پاکستانی معاشرہ بالخصوص انتشار، فساد اور بے چینی کا شکار ہیں۔

اس صورت حال کو اگر حضرت امام حسین کی حیات طیبہ، ان کے سفرکوفہ اور کربلا میں یزیدی فوج سے مقابل ہونے پر اختیار کئے گئے موقف سے جانچنے کی کوشش کریں تو آسانی سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ امام حسین نے جبر کو مسترد کرنے اور حق پر قائم رہنے کی روشن روایت قائم کی تھی۔ انہوں نے کسی کو للکارا نہیں تھا، صرف یہ کہا تھا وہ یزید کی بیعت کو حق پرستی کے اصولوں سے متصادم سمجھتے ہیں، اس لئے اسے قبول نہیں کر سکتے۔ اس کے جواب میں واپسی کے راستے بند کرتے ہوئے انہیں بیعت یزید کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انکار کرنے پر قافلہ حسین کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ حسین کا پیغام کیا ہے۔ یہ عافیت، محبت، قبولیت اور احترام کا پیغام ہے۔ یہ عزت نفس اور اپنے فیصلے پر پرعزم طریقے سے قائم رہنے کا اعلان نامہ ہے۔ یہ ایسے عالمگیر اصول ہیں جو اپنا لئے جائیں تو مسلمان روسیاہی اور زوال کے دور سے ترقی اور نیک نامی کی منزل کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں کہ:

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments