دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا


\"masoom-rizvi\"

ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو عباسی فرمانروا معتصم باللہ کے دربار میں علماء کے درمیان زور و شور سے مذہبی بحث کا سلسلہ جاری تھا۔ چلیں آپ کو اعتراض ہو تو اسے تاریخ نہ سمجھیں، حکایت سمجھ لیں۔ بہرحال ۱۲۵۸ میں پیش آنے والے اس سانحے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سقوطِ بغداد کے بعد مسلمان کہیں کے نہ رہے۔ تاتاری افواج نے بغداد کی گلیاں خون سے بھر دیں۔ تمام کتب خانے جلا ڈالے۔ تہذیب و تمدن، فن و ثقافت اور علم کے تمام چراغ بجھا دیئے گئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عالم اسلام آج تک اس سانحے کے بعد سنبھل نہ سکا۔ اگر آپ اسے حکایت بھی سمجھیں تو سبق یہ ہے کہ قوم چاہے کتنی ہی طاقتور، پرجوش اور بڑی کیوں نہ ہو، اگر دشمن کے سامنے بروقت متحد نہ ہوا جائے تو مقدر تباہی اور بربادی ہے۔

اب ذرا اطراف کا جائزہ لیں تو صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کیلئے کسی حد تک جانے پر تیار ہے، خواہ سرجیکل اسٹرائیک کا معاملہ ہو یا سرحدوں پر گولہ باری، پاکستان کی جوہری صلاحیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہو یا بیرونی مالی امداد، سفارتی محاذ، کھیل یا فنکار، مودی سرکار پاکستان کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منظم اور مربوط طریقے پر کارروائی کو وسیع کرتی جا رہی ہے۔ بھارت جھوٹ سچ کے تمام ہتھیار استعمال کر کے دنیا کو مجبور کر رہا ہے کہ پاکستان پر دبائو بڑھایا جائے یعنی پٹھانکوٹ، اڑی حملہ، سرجیکل اسٹرائیک اور نجانے کیا کچھ۔ بی جے پی حکومت الزام تراشی میں اتنا آگے نکل گئی کہ بھارت کی سیاسی جماعتیں، میڈیا اور دانشور بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ مودی سرکار نے بھارت کے سیکولر عوام کو بھی اسلام اور پاکستان دشمنی کے جنگی جنون میں مبتلا کر دیا ہے۔

دوسری جانب وطن عزیز میں مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس صورتحال کا بہترین عکاس ہے۔ تحریک انصاف تو ٹھہری اپوزیشن جماعت جس نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، مگر حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشاہد اللہ نے پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی بدہضمی سے فضا مکدر کر دی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے عمران خان کو تو برائے نام مگر پیپلز پارٹی کو جی بھر کے ذلیل کیا۔ اسی پیپلز پارٹی کو جسے عمران خان ن لیگ کا ساتھی قرار دیتے ہیں۔ اب معلوم نہیں یہ مشاہد اللہ کا ذاتی فعل تھا یا کسی اسکرپٹ کا حصہ۔ حالانکہ اس سے پہلے مشاہد اللہ آئی ایس آئی چیف کے بارے میں متنازعہ انٹرویو پر خاصہ عرصہ سیاسی آسیب کا شکار رہ چکے ہیں اور اس متنازعہ بیان کو ذاتی فعل بھی قرار دے چکے ہیں۔ بہرحال یہ معاملہ ضرور معمہ بنا ہوا ہے کہ بھارتی جارحیت اور کشمیریوں پر مظالم کے خلاف قومی اتحاد کے مظہر مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس میں سینیٹر مشاہد اللہ نے سیاسی الزامات کا پنڈورا کیوں کھولا۔

تحریک انصاف کا مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی عقل وفہم سے بالاتر ہے۔ اگر وزیر اعظم کو جائز نہیں مانتے تو وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کیوں کر کی؟  بہرطور ان کے اعتراضات کو درست مان بھی لیا جائے تو بھارتی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا معاملہ کیا ایسا نہیں تھا کہ تمام اختلافات کو پس پشت ڈال کر دنیا کو اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا جاتا؟ خیر عمران خان سے غلط وقت پر درست اور درست وقت پر غلط فیصلوں کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اب انہوں نے تیس اکتوبر کو اسلام آباد میں کاروبارِ حکومت بند کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اسی سانس میں پیپلز پارٹی کو مائنس ون کا مشورہ دیتے ہوئے ایک اور ممکنہ حلیف سے محروم بھی ہو گئے۔ عمران خان کے غیر منافقانہ سیاست کے دعوے اپنی جگہ مگر اب تحریک انصاف کی سیاسی تنہائی عوام پر بھی واضح ہوتی جا رہی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سیاسی بساط پر پیپلز پارٹی اور آصف زرداری پر عمراں خان کے براہ راست حملے کا سارا فائدہ بہرحال ن لیگ کو ہی پہنچے گا۔

ایک طرف بھارت کی بھرپور تیاریاں ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں پانامہ لیکس، سی پیک پر اعتراضات، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، پنجاب میں رینجرز اختیارات، آپریشن ضرب عضب، مسالک، مساجد، مدارس کے معاملات پر زور دار بحث جاری ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ بھارت صرف سرحدوں پر نہیں بلکہ سفارتی اور معاشی محاذوں پر بھی پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ چکا ہے۔ بھڑکیلے بیانات اور چمکیلے اعلانات کے علاوہ یہ کہیں نہیں دکھائی دیتا کہ وطن عزیر کو کوئی مشکل مرحلہ درپیش ہے۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں، مذھبی قیادت مسالک، مدارس اور مساجد کے جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے۔ ن لیگ کے علاوہ شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جس پر خارجہ پالیسی کی ناکامی واضح نہ ہو۔ ن لیگ جس طرح پانامہ لیکس کے معاملے پر روایتی حربوں سے کام لے رہی ہے اسی طرح سارک کانفرنس کی منسوخی کے باوجود خارجہ پالیسی کو کامیاب قرار دینے پر تلی ہوئی ہے اور کیوں نہ دے کیونکہ یہ عہدہ کسی اور کے پاس نہیں بلکہ وزیر اعظم نواز شریف کی تحویل میں ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت نے کبھی بھی تقسیم کو قبول ہی نہیں کیا، حکومت کانگریس کی ہو، بھارتیہ جنتا پارٹی کی یا پھر کوئی اور، بھارت ماتا کی تقسیم ہندو انتہاپسندوں کیلئے ناسور ہے اور آج بھی اکھنڈ بھارت کا خواب مقبول۔ فرق صرف یہ ہے کہ کانگریس ذرا مہذبانہ رویہ رکھتی ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی شمشیر بکف سوچ کی اسیر ہے۔ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے بھی خوفزدہ ہیں، جس کا بین ثبوت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں ہیں۔ ہندوستان کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب بھارت میں مسلمان اکثریت میں ہونگے۔ یہ خیال ہندووں کیلئے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں اور یہ سوچ بھی نئی نہیں بلکہ تقسیم کے پہلے سے ہی موجود ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی آزادی سے پہلے کی بات ہے، کانگریس کے رہنما پنڈت مدن موہن مالویہ ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ دیگر رہنمائوں کے ساتھ اسٹیج پر مولانا ابوالکلام آزاد بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ پنڈت مدن موہن مالویہ ہندو انتہا پسند پس منظر لے کر سے کانگریس میں آئے تھے۔ پنڈت مالویہ کی تقریر کا تمام تر لب لباب یہ تھا کہ مسلمانوں کی آبادی نہایت تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہ ہندوئوں کو ڈرا رہے تھے کہ اگر ایسا ہی رہا تو جلد ہندو ہندوستان میں اقلیت بن جائینگے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اسی دوران مائیک پر آئے اور پنڈت جی سے چند جملے بولنے کی اجازت طلب کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا کہ پنڈت جی درست کہہ رہے ہیں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، پنڈت جی یہ عرض کریں کہ ہم مسلمان اس ضمن میں ہندو بھائیوں کی کیا مدد کر سکتے ہیں، جلسہ زعفران زار ہو گیا۔

آپ سقوط بغداد کی تاریخ کو داستان مان بھی لیں، سقوط مشرقی پاکستان سے تو آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ اس وقت بھی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جنگ کے لئے تین سال بھرپور تیاری کی تھی۔ نہ صرف مشرقی پاکستان کے اندر بلکہ تمام عالمی قوتوں کو بھی قائل کیا تھا۔ میرے منہ میں خاک مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود کو نہ بدلنا چاہتی ہو۔ کیا ہر چیز کو یہود و ہنود کی سازش قرار دینے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا ہم نے ماضی سے کچھ سبق سیکھا ہے؟ کیا ہم سرحدی، سفارت کاری اور معاشی محاذوں پر مسلط کردہ جنگ کا عملی جواب دینے کیلئے تیار ہیں؟

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments