جوان بیٹے کی موت اور بوڑھے باپ کی کمر


\"khawar

دبیر میرا بچپن کا دوست تھا۔ آٹھویں جماعت شروع ہوئ تو سیکشن بنا دیئے گئے۔ میرا دوست برجیس دوسرے سیکشن میں چلا گیا۔ خرم، یاسر اور میں الگ سیکشن میں بھیج دیئے گئے۔ پہلے دن کلاس میں گیا تو دبیر کے ساتھ والی نشست ملی۔ سانولا سا لڑکا، عینک لگی ہوئ۔ مجھے بھی اسی سال نظر خراب ہونے پر عینک لگ چکی تھی چنانچہ سلام دعا کے بعد گفتگو یہیں سے شروع ہوئ کہ عینک کیسے لگی۔ اس نے بتایا کہ بچپن سے مسئلہ تھا اور میں نے وجہ بہت زیادہ ٹی وی دیکھنا بیان کی۔ پھر دوستی پکی ہوتی گئ۔ میٹرک کا نتیجہ آنے کے قریب ہم لوگ بھی اس کے گھر کے قریب شفٹ ہو گئے۔ گھروں میں آنا جانا تو پہلے ہی تھا اب زیادہ ہو گیا۔ ہوم ورک کرنا ہو یا ٹیسٹ کی تیاری، محرم کا عشرہ ہو یا شب قدر کا رتجگا، خاور دبیر حیدر کے گھر ہوتا یا دبیر خاور جمال کے گھر۔ منتوں مرادوں کا حاصل چار بہنوں کا اکلوتا بھائ، باپ نے بھی تقریبا ہر خواہش پوری کی۔ اس کے والد جعفر انکل، سٹیٹ بینک کے ریٹائرڈ افسر ہیں۔ نہایت کم گو اور خاموش طبع۔ ایک سوزوکی ایف ایکس ان کے پاس تھی۔ دبیر نے چلانا سیکھ لی۔ اسی پر ہم گھومتے پھرتے رہتے۔ پھر اس نے ضد کر کے ایک نیا ہونڈا ون ٹو فائیو لے لیا۔ اب اس کو دوڑاتے پھرتے۔ کالج بھی ایک ہی چنا ہم نے۔ کالج میں پہنچے تو پڑھائ سخت ہو گئ۔ ٹیوشن رکھی وہ بھی ایک ہی سنٹر میں رکھی۔

سیکنڈ ائیر میں پہنچے تو اسکی طبیعت خراب رہنے لگی۔ کافی ٹیسٹ کروانے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کو لیوکیمیا ہو گیا ہے۔ کینسر کی ایک قسم ہے جس میں جسم سے مدافعاتی خلیئے یعنی وائیٹ بلڈ سیلز ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ علاج شروع ہو گیا۔ دوائیوں کے انبار لگ گئے۔ کچھ کھانے سے پہلے، کچھ درمیان اور کچھ بعد میں لینی ہوتیں۔ دوست کم ہی رہ گئے تھے اس کے۔ وہ زیادہ میل جول رکنے لائق رہ بھی نہیں گیا تھا۔ بس میں تھا اور دبیر۔ ون ٹو فائیو بھی کھڑی چمکتی رہتی۔ ایک دن کالج سے گھر آیا تو امی نے بتایا کہ دبیر کی امی کا فون آیا تھا۔ اسے کراچی آغا خان اسپتال لے جا رہے ہیں، تم سے ملنا چاہتا ہے۔ امی ابو دونوں میری طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے انھیں کسی بات کا یقین ہو لیکن مجھے نہ بتانا چاہ رہے ہوں۔ کھانا لگا ہوا تھا، تھوڑا بہت زہر مار کیا اور دبیر کے گھر کی جانب موٹر سائیکل دوڑائ۔ اس کی والدہ نے کمرے میں ہی بلا لیا۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ کیمو تھراپی سر کے بال لے اڑی تھی اور بازووں پر بھاری ڈوز کے انجیکشن لگنے کی وجہ سے رگیں کالی دکھ رہی تھیں۔ بڑی ہی مشکل سے ضبط کیا، اسے دلاسہ دیا اور خدا حافظ کہہ کر گھر لوٹ آیا۔ واپس آ کر سب کو اس کا حال بتایا تو ابو کہنے لگے اسکے ساتھ چلے جاو کراچی اور کچھ دن بعد آ جانا۔ فورا فون کر کہ دبیر کو بتایا، وہ بھی بہت خوش ہو گیا۔

اکٹھے جہاز کا سفر کیا۔ کراچی پہنچ کر اسے جعفر انکل اسپتال لے گئے اور میں اپنی خالہ کے گھر آ گیا۔ ہفتہ دس دن وہاں رہا۔ ملاقاتی وقت میں اس کے پاس بیٹھا رہتا، جعفر انکل (اس کے ابو) بھی خوش تھے اور اب ہم سے کافی باتیں بھی کیا کرتے تھے۔ میں واپس آ گیا۔ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا۔ دبیر کا فون آتا رہتا تھا۔ حالت بہتر ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن خدا کا حکم کون ٹال سکتا ہے۔ انتیس رمضان، آخری روزہ، چاند رات کا اعلان ہو چکا تھا۔ صبح عید ہو گی۔ فون بجا اور امی نے اٹھایا۔ کسی نے ادھر سے پوچھا کہ خاور کا گھر ہے تو اطلاع ہے کہ دبیر حیدر کا انتقال ہو گیا ہے۔ امی کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا اور فون مجھے تھما دیا کہ سنو کون ہے اور یہ کیا کہہ رہا ہے۔ مجھے بھی یہی بات بتائ انھوں نے۔ گھر میں اس وقت میں اور امی ہی تھے۔ دونوں ہی رو رہے تھے اور حیران تھے کہ دو دن پہلے ہی تو حالت سنبھل گئ تھی۔ ابو آئے تو فورا میں، امی اور پھوپو دبیر کے گھر پہنچ گئے کیونکہ جعفر انکل تو کراچی میں تھے اور ایسے مواقع پر کافی انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ میں تو باہر بیٹھا تھا لیکن گھر کے اندر وہ کہرام تھا کہ خدا کی پناہ۔ اٹھارہ برس کے جوان بیٹے کی موت خدا کسی کو نہ دکھائے۔ محرم کی مجالس میں جب جناب علی اکبر کے مصائب پر گریہ کیا جاتا ہے تو ہم سب رو پڑتے ہیں مگر جوان بیٹے کا لاشہ اٹھانا، یہ دکھ کیا ہے، اسے کوئی نہیں جان سکتا، خدا دشمن کو بھی ایسا اندازہ نہ کروائے۔ روایات میں ہے کہ امام علیہ السلام کی کمر میں خم آ گیا تھا جب انہوں نے اٹھارہ سالہ علی اکبر کا جسم مبارک اٹھا کر کاندھے پر رکھا۔

پھر عید کی صبح دیکھی ملتان والوں نے، اور میں نے ایک باپ کی دوہری کمر۔ دبیر کفن میں لپٹا میرے سامنے لیٹا تھا اور جعفر انکل سے سیدھا کھڑا نہ ہوا جا رہا تھا۔ رو رو کر آنکھیں دھندلا گئ تھیں ان کی۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ ان کے پاس جاوں۔ ایک مرتبہ گیا تو وہ دیکھ نہ سکے میں واپس آ گیا۔ پھر گیا تو بے تابی سے میرے گلے لگ گئے۔ ہائے خاور دبیر چلا گیا، تمہارا دوست چلا گیا بیٹا، ہائے ہمیں اکیلا چھوڑ گیا بیٹا۔ میں کچھ نہ کہہ سکا بس ان کے گلے ہی لگا روتا رہا۔ کمر کیسے دوہری ہوتی ہے، اب مجھے معلوم ہو چلا تھا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments