سندھ میں اقلیتوں کی عزا داری


سندھ مذہبی ہم آھنگی میں ملک کے باقی صوبوں سے الگ شناخت رکھتا ہے۔ وہ عدم برداشت کے اس بڑھتے ہوئے طوفاں کے باوجود اپنی  پرانی ثقافتی روایتوں کے آثار بچائے رکھے ہوئے ہے۔

سندھ کی کل آبادی کا 6۔6 فیصد ہندو ہیں۔ جبکہ ضلع تھرپارکر میں 35 فیصد اور ضلع عمرکوٹ میں تقریباً آدھی آبادی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ تھرپارکر میں مسلمان گائے اس لیے ذبح نہیں کرتے کہ دوسرے ہندو بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پھنچے۔ جبکہ ہندو روزے رکھ کے دوسرے مذہب کے احترام کا ثبوت دیتے ہیں۔

وہ سندھ جہاں درگاہ شہید شاہ عنایت کے مرید مسلمان ہیں تو ہندو بھی ہیں۔ جو خود کو ”ستاری” کہلاتے ہیں۔

وہ سندھ جہاں جھولے لال کا پرچم آج بھی لہرا رہا ہے۔

اسی سندھ میں آج بھی محرم الحرام کے دوران ہندو برادری کے لوگ شادی بیاہ نہیں کرتے، اس دوران اگر کوئی غمی بھی ہو جائے تو دس محرم الحرام تک کئی رسمیں ادا نہیں کی جاتیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ سندھ میں آج بھی کئی ہندو محرم الحرام میں کالا لباس پہنتے ہیں۔ نیاز لنگر اور عزاداری کرتے ہیں۔

سندھ کے دوسری بڑی شہر حیدرآباد میں ہندوئوں کے کئی ایسے گھر ہیں جن پر علم پاک لگے ہوئے ہیں۔

حیدرآباد شہر میں محرم الحرام کے دوراں ایک سو سے زائد ماتمی جلوس نکلتے ہیں، جن میں سے ایک جلوس ایسا ہے جو ہندو برادری کے جانب سے نکالا جاتا ہے۔ یہ جلوس 9 محرم الحرام کو شہر کے شیخ محلے سے نکلتا ہے۔ جس میں ساٹھ فیصد سے زائد ہندو برادری کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔

سوچی بستی کے رہائشی کندن لال سوچی باقاعدگی سے اس ماتمی جلوس میں شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پچھلے 15 سال سے نياز لنگر اور عزاداری کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امام حسین کی یہ عظیم قربانی صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی لیے تھی، اس لیے ہمیں بھی اتنا ہی دکھ ہے جتنا ہمارے مسلمان بھائیوں کو ہے۔

حیدرآباد کے علاوہ ٹنڈو محمد خان، میرپورخاص، ٹنڈوالھیار، سانگھڑ، عمرکوٹ، تھرپارکر، بدین، ٹھٹہ، دادو سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں ہندو برادری کے لوگ صدیوں سے عزاداری کرتے اور سبیلیں لگاتے آر رہے ہیں۔ تھرپارکر اور عمرکوٹ میں کئی ایسے ہندو ہیں جو خود کو ”حسینی ہندو” کہلاتے ہیں۔

شیعہ عالم اور عزادار رابطہ کمیٹی کے آرگنائیزر زوار عبدالستار درس نے بتایا کہ برصغير ميں اقلیتوں کی عزاداری کی تاریخ سانحہ کربلا کے بعد شروع ہوتی ہے۔ ایک روایت ہے کہ جب ہند کے راجا چندر گپت موریا کو سانحہ کربلا کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنی فوج وہاں بھیجی تھی۔ جبکہ ہند میں سب سے پہلے چندر گپت موریا نے سرکاری طور پر یوم عاشور منانے کا اعلان کیا تھا۔

بات صرف عزاداری تک محدود نہیں ہے، سندھ میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں اقلیتی لوگوں کے نام سے پڑ بھی منسوب ہیں۔ حیدرآباد کے پشوری (پشاوری) محلے میں تقریباً ایک صدی پرانا چمن کا پڑ واقع ہے۔ یہ پڑ 1925 میں قائم کیا گیا تھا۔ جہاں سے پہلی محرم الحرام کو ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے۔

ایک روایت ہے کہ چمن لال بنیا ایک دکاندار تھا، جس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ کسی نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ذوالجناح پر منت باسیں اور انہوں نے ایسا کیا، ایک سال کے بعد قدرت نے ان کو بیٹے کی اولاد عطا کی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک علم پاک لگا کر پڑ قائم کیا جو ابھی تک قائم ہے۔ جسے اب فہیم پشوری اور غفار بھائی سنبھالتے ہیں۔

صرف ہندو ہی نہیں بلکہ سندھ میں رہنے والے کئی مسیحی بھی ایسے ہیں جو امام حسین کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں۔ حیدرآباد میں مسیحی برادری کے کئی ایسے گھر ہیں جن پر علم پاک لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بھی نیاز لنگر کرتے اور سبیلیں لگاتے ہیں۔

لطیف آباد کے رہائشی سلیم مسیحی سے میں نے پوچھا کہ آپ نے کیا سوچ کر گھر پر علم پاک لگایا ہے؟

ان کا جواب تھا: امام حسین کے ساتھ محبت میں۔

حیدرآباد شہر میں ایک مسیحی شخص کے نام سے منسوب ایک پڑ بھی ہے، جسے ایلیکاٹ کا پڑ کہا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ برٹش دور میں یہاں ایک انگریز خاتون رہتی تھیں۔ جن کے ڈرائیور تھے عبدالغفور چانڈیو جو درگاہ اشرف شاہ بخاری (پکا قلعہ) کے متولی تھے۔ وہ ان کے ساتھ اس درگاہ پر جاتیں، نیاز لنگر کرتیں اور سبیل بھی لگاتیں تھیں۔

ان کے بیٹے ایلیکاٹ برطانیہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ وہ بھی درگاہ پر جایا کرتے اور نیاز لنگر کرتے تھے۔ انہوں نے 1938 میں اپنے نام سے پڑ قائم کروایا تھا، جو ابھی تک قائم ہے۔ انہوں نے جو تعزیہ، سیج اور جھولے بنوائے وہ بھی تک وہاں رکھے ہوئے ہیں۔

زوار عبدالستار کا کہنا تھا کہ ایلیکاٹ مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو گئے تھے، ان کا نام شیخ علی گوہر رکھا گیا تھا۔ جبکہ انہیں اسی ہی درگاہ پر دفنایا گیا ہے۔

آج بھی وہاں ہر مذہب کے لوگ اپنی منتیں لے کر جاتے ہیں۔

سندھ کے نامور ادیب، شاعر اور محقق کلال کا کہنا تھا کہ سندھ میں کبھی مذھبی تعصب رہا ہی نہیں ہے۔ یہ ہے وجہ ہے کہ سندھ میں سنی فرقے کے مسلمان اور ہندو بھی ماتم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں ہندوئوں اور مسلمانوں پر ایک دوسرے کی تقافت اور روایتوں کا اثر رہا ہے، یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماتم کا مقصد ہے ایک ظلم کے خلاف احتجاج کرنا۔ اس لیے مسلمان بھی احتجاج کرتے ہیں تو ہندو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments