اخبار کی خبر، تاریخ کا جبر اور جمہوریت کی محبوس پری


\"mujahidوزیر اعظم ہاؤس نے چار روز بعد ملک کے مؤقر انگریزی روزنامہ ڈان کی طرف سے 6 اکتوبر کو شائع ہونے والی ایک خبر کی سختی سے تردید کی ہے اور یہ رپورٹ لکھنے والے صحافی سیرل المیڈا کانام ای سی ایل یعنی ان لوگوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے جنہیں ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے یہ تردید چار روز سوچ بچار کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کی وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ پنجاب کے علاوہ کابینہ کے اہم ترین ارکان سے ملاقات کے بعد جاری کی گئی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ خبر جھوٹ کا پلندہ ہے اور اس سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ اس خبر کو قومی سلامتی کے حوالے سے رپورٹنگ کے مسلمہ اصولوں کے متضاد قرار دیا گیا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ رپورٹنگ کے طریقہ کار اور متن کے بارے میں وزیر اعظم یا ملک کی اعلیٰ قیادت ہدایات جاری کرنے یا فریم ورک بنانے کی اہل نہیں ہے اور نہ ہی اسے یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اخبارات کے مدیران کو یہ مشورہ دے کہ کوئی خبر کس طرح لکھی یا پیش کی جانی چاہئے۔ یہ کام کسی بھی میڈیا ہاؤس یا اخبار کے مدیر کا ہے۔ ایک پروفیشنل کے طور پر وہ اپنا کام بخوبی کرنا جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ریکارڈ پر آنی چاہئے کہ قومی مفاد اور سلامتی صرف برسر اقتدار یااعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو ہی عزیز نہیں ہوتی، ملک کے صحافی اور عام شہری بھی اس ملک سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی محبت کوئی اعلیٰ عہدیدار کرتا ہو گا۔ اس لئے اپنے اپنے شعبے میں ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق قوم و ملک کے بہترین مفاد میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ خاص طور سے جب ملک کے ایک قابل اعتبار اور ذمہ دار اخبار کے عالمی شہرت یافتہ صحافی کے حوالے سے بات کی جائے تو سیاسی قیادت کو الفاظ کے چناؤ میں حد درجہ احتیاط ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے۔ اس حوالے سے رائے اور نقطہ نظر کا فرق ہو سکتا ہے لیکن کسی جمہوری حکومت کو اختلاف رائے کو ملکی مفاد کے خلاف اقدام قرار دے کر منفی اور غیر جمہوری روایت کی سرپرستی کرنا زیب نہیں دیتا۔ ملک کا میڈیا جمہوری روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اگر اسے کنٹرول کرنے اور سرکاری ترجمان بنانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ رویہ قومی مفاد ہی نہیں ملک میں جمہوریت اور آزادی اظہار کے لئے بھی بہت خطرناک ثابت ہو گا۔

جس طرح وزیر اعظم ہاؤس ڈان کی خبر کو قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے برعکس قرار دے رہا ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ\"edit\" وزیر اعظم ہاؤس کی تردید اور خاص طور سے خبر کی بنیاد پر انتقامی کارروائی کرنے کا اعلان، دراصل قومی مفاد کے لئے ذیادہ نقصان دہ ثابت ہو گا۔ کسی بھی ادارے کو کسی خبر کی تردید یا وضاحت کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ حق استعمال کرتے ہوئے خبر دینے والے صحافی پر بالواسطہ ہی سہی وطن دشمنی جیسا الزام عائد کرنا ، دراصل مسلمہ سیاسی اور جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے خبر کی تردید کے نام پر صحافیوں کے کام میں دخل اندازی اور قومی مفاد کے نام پر فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے کی کوشش قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔

ڈان کی خبر میں آئی ایس آئی کے سربراہ کے ساتھ وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اور وزارت خارجہ کے دیگر عہدیدیداروں کی ایک ملاقات کا ذکر کیا گیا تھا جس میں سیکرٹری خارجہ نے یہ واضح کیا تھا کہ انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کئے بغیر پاکستان دنیا میں تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ اجلاس میں شامل ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے شکایت کی کہ جب صوبائی حکومتیں مشکوک عناصر کو پکڑتی ہیں تو ایجنسیوں کے لوگ انہیں بچالیتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ نے اس صورت حال کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تاکہ دنیا میں پاکستان کی شہرت کو بحال کیا جا سکے اور وزیر اعظم کی ہدایت پر ڈی جی آئی ایس آئی قومی سلامتی امور کے مشیر کے ہمراہ تمام صوبائی دارالحکومتوں کا دورہ کرنے پر راضی ہو گئے تاکہ مقامی افسروں کو نئی پالیسی سے آگاہ کرسکیں۔

خبر کی اشاعت کے چار روز بعد اس خبر کو من گھڑت اور غلط معلومات پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ تردید کرتے ہوئے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ اس اجلاس میں کیا ہؤا تھا۔ اگر سیکرٹری خارجہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے منسوب باتیں غلط تھیں تو ان کی طرف سے براہ راست تردید کی صورت میں متعلقہ اخبار بخوشی یہ تردید شائع کردیتا۔ لیکن جس طرح وزیر اعظم ہاؤس سے اس کی تردید جاری ہوئی ہے تو یہ لازم ہے کہ کسی خبر کو جھوٹ کہتے ہوئے اصل خبر سے آگاہ کیا جائے۔ وگرنہ یہ تاثر پختہ ہوجائے گا کہ ڈان کی رپورٹ سو فیصد درست تھی ۔ تاہم حکومت نے مبینہ طور پر اپنے ذرائع کے ذریعے پہلے اس خبر کو ڈان کے رپورٹر تک پہنچایا اور اب فوج کی طرف سے رد عمل آنے کے بعد اس کا سامنا کرنے کی بجائے رپورٹر اور اخبار کو نشانہ بنانے کی بزدلانہ کوشش کی جارہی ہے۔ مفاد عامہ اور قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے یہ واضح ہو نا چاہئے کہ انتہا پسند گروہوں جن میں لشکر طیبہ اور جیش محمد شامل ہیں، کے بارے میں ملک کی حکومت کا کیا مؤقف ہے اور کیا متعلقہ اجلاس میں اس بارے سے کوئی بات کی گئی تھی۔ کیا حکومت ان گروہوں کو ملکی مفاد اور خارجہ پالیسی کے لئے چیلنج سمجھتی ہے یا اس کے خیال میں عالمی طور سے دہشت گرد سمجھے جانے والے لوگ اور گروہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ اس بارے میں واضح اور دو ٹوک مؤقف سامنے لائے بغیر ڈان کی خبر کی تردید کرنے اور صحافی کو ہراساں کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔

یہ بات بھی حیران کن ہے کہ فوج کے متحرک دفتر تعلقات عامہ کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ ایک ٹویٹ کے ذریعے جس خبر کو غلط قرار دے سکتے تھے، اس پر غور کرنے کے لئے سرکاری حلقوں میں چار روز تک کھچڑی کیوں پکائی گئی اور وزیر اعظم کو فوج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے سربراہ ، وزیر اعلی پنجاب ، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ کے ساتھ سر جوڑ کو کیوں بیٹھنا پڑا۔ ڈان کی خبر ملک کو درپیش مشکل حالات میں ایک خوشگوار جھونکے کی ماند تھی۔ کہ سیاسی قیادت ملک کو درپیش چیلنجز سے آگاہ ہے اور حوصلہ مندی سے ان کا سامنا کرتے ہوئے فوجی اداروں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم وزیر اعظم ہاؤس نے جن حالات میں اور جس طریقے سے اس خبر کی تردید کی ہے، اس سے حکومت کی لاچاری اور ریاست کی بے بسی کی افسوسناک تصویر سامنے آئی ہے۔ اس سے تو یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے جمہوری وزیر اعظم فوج کے سربراہ کے سامنے ڈٹ کر بات کرنے اور انتہا پسندی کے حوالے سے سیاسی قیادت کے مؤقف کو ماننے پر مجبور کرنے سے قاصر ہیں۔

اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ فوج کے مقبول اور باصلاحیت سربراہ جنرل راحیل شریف نے اپنے عہدے کے آخری ماہ میں سول حکومت کے مقابلے میں فوج کی واضح برتری ظاہر کروانا ضروری سمجھا ہے۔ پاکستان میں سیاست میں فوج کی مداخلت کے حامی لوگوں، گروہوں اور سیاسی جماعتوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن جنرل راحیل شریف نے تین برس کے دوران یہ واضح تاثر دیا ہے کہ فوج کے سیاسی عزائم نہیں ہیں اور وہ آئینی تقاضوں کے مطابق سیاسی قیادت کی نگرانی میں کام کررہی ہے۔ تاہم کل وزیر اعظم ہاؤس میں ایک خبر کے حوالے سے سول حکومت کو پسپا کرکے انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ فوج براہ راست اقتدار میں نہ بھی ہو ، تو بھی وہ معاملات اپنی مرضی اور صوابدید کے مطابق ہی طے کروانا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والی ایک خبر کی دھمکی نما تردید صرف سیاسی حکومت کی بے بسی اور کمزوری ہی ظاہر نہیں کرتی یہ سیاسی معاملات میں فوج کی جارحانہ بالا دستی کی مظہر بھی ہے۔ اس ملک میں جمہوریت کا خواب دیکھنے والوں کے لئے یہ ایک بری خبر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments