طارق فتح، ڈونلڈ ٹرمپ اور ہمارے سیاستدان


\"Mughees-Ali\"کمزور ذہنی توازن کے حامل افراد کے بارے میں آگہی کے لیے ہر سال 10اکتوبر کو ان کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف مینٹل ہیلتھ نے 1992 میں پہلی بار کمزور ذہنی صحت کے حامل افراد کے لیے یہ دن منایا۔ ذہنی طور پر بیمار افراد سے یکجہتی کے واسطے پوری دنیا کے لوگ اس دن باہر نکلتے ہیں اور اس حوالے سے مختلف تقریبات میں شرکت کر کے آگہی کی اس مہم میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

ذہنی توازن بگڑنے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو چھوٹے چھوٹے مسئلوں کی وجہ سے بھی انسان ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ یہ لوگ ہماری بھرپور توجہ کے مستحق ہوتے ہیں تاہم ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جو صرف قابلِ رحم ہے۔ لوگ انہیں بار بار باور کراتے ہیں کہ وہ کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں کہ اس کے بغیر ان کا درست ہونا مشکل ہے لیکن یہ ایسی تمام آراء کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ یہ اپنا فرمایا حرف آخر سمجھتے ہیں اور مخالف سوچ کو سراسر جہالت۔

ایسے ہی ایک صاحب ہیں جناب طارق فتح جو اس وقت انڈیا میں مقیم ہیں لیکن ان کے پاس کینیڈا کی شہریت ہے۔ یہ خود کو ہندوستانی کہتے ہیں لیکن پیدا کراچی میں ہوئے ۔ طارق فتح پاکستان میں قید بھی رہے لیکن پھر یہ پاکستان کو خیر باد کہہ کر سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں دس سال گزارنے کے بعد کینیڈا کا قصد کیا۔ اپنی شعلہ بیانی اور مسلم مخالف تقریروں کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔ موصوف پاکستان بننے کے شدید ترین مخالف ہیں۔ طارق فتح کے بقول قائد اعظم نے بلوچستان کے عوض اپنے جسم کا وزن کرایا اور سونا لے لیا اسی طرح وہ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ تو اکل و شرب میں محتاط نہیں تھے۔ قائد اعظم کی خانگی زندگی پر بھی طارق فتح کو اعتراضات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان بنا نہیں بلکہ انگریز وں نے پاکستان بنا کے دیا۔ یہ علامہ اقبال کے بھی بہت خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے کبھی پاکستان کا خواب نہیں دیکھا لیکن مسلمانوں کو بیوقوف بنا دیا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن یہ چاہتے ہیں کہ قرآن پاک کی ترتیب دوبارہ سے کی جائے یہ ترتیب ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان میں ان کے بیانات پر مکمل پابندی عائد ہے۔ انڈیا میں ذاکر نائیک بھی ان کے سخت مخالف ہیں۔

طارق فتح سے ہم لاکھ اختلاف کرنا چاہیں لیکن ایک جانب انہیں حق بھی ہے کہ وہ جو بھی کہنا اور سوچنا چاہیں سوچ سکتے ہیں۔ ہمیں اعتراض یہ ہے کہ طارق فتح اور طالبان کی سوچ میں کیا فرق ہے طار ق فتح اپنے آپ کو ایک مکمل انسان کہتے ہیں جبکہ طالبان بھی اپنی سوچ کو ٹھیک سمجھتے ہیں ۔ ہر شخص کو تنقید کا حق ہے لیکن تنقید اتنی کی جائے جتنی دوسرا برداشت کر سکے اور تنقید کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔ پوری دنیا کو آپ بیوقوف سمجھتے ہیں لیکن اپنی سوچ اور اپنے آپ کو ٹھیک سمجھتے ہیں۔ طارق فتح تنقید کی بجائے مسلمانوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو ہر جگہ پنجابی کہتے ہیں لیکن پاکستان میں موجود پنجابیوں خاص کر پنجابی جرنیلوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق طارق فتح کو\’ را\’ کا ایجنٹ بھی کہا گیا۔ یہا ں تک کہ انڈین اپوزیشن لیڈر طارق فتح کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ \’\’فسادی \’\’ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی انڈین سیاستدان انہیں تعصب زدہ اور بیمار ذہنیت کا حامل انسان سمجھتے ہیں ۔ تاہم ایسے لوگ بھی وہاں پائے جاتے ہیں جو ان کے بیانا ت پر خوب تالیاں بجاتے ہیں۔ جس طرح ہمارے پا س بھی کچھ افراد ایسے ہی ہیں جو روزانہ رات کو ٹی وی پر آکر غیر مہذب زبان کا استعمال کرتے ہیں لیکن عوام پھر بھی انہیں سنتے ہیں اور ان کی تقلید کرتے ہیں۔

طارق فتح کا دائرہ اثر برصغیر تک محدود ہے پر ان ہی جیسے ایک اور صاحب بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔ یہ موصوف دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے صدارتی امیدوار ہیں لیکن اپنی سو چ میں اتنا تضاد رکھتے ہیں کہ ہربار انہیں اپنے کہے الفاظ پر معافی مانگنا پڑتی ہے مثلاً انہوں نے کا کہ \’\’مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کردینا چاہیے \”۔

\’\’یورپی ممالک اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کو اپنے ملکوں سے نکال دیں \’\’

ان جملوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنے کئے پرنہ صرف شرمندہ ہوئے بلکہ انہوں نے کہا کہ میں نے صرف جنگجو مسلمانوں کیلئے یہ بات کہی تھی۔ یہی نہیں یہ سیاہ فاموں کے بارے میں الٹے سیدھے بیان دے چکے ہیں اور امریکی خواتین کی بھی تذلیل کر چکے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ بات معلوم بھی ہے کہ امریکی صدارتی امیدوار کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ مشرقی وسطیٰ اور مسلم ممالک کیلئے نرم گوشہ رکھے اندرونی طور پر چاہے وہ جتنی مخالفت کریں لیکن بیرونی طور پر ایسا امیدوار لایا جاتا ہے جسے مسلم ممالک قبول کریں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح باراک اوباما کے صدر بننے پر مسلمان ممالک میں یہ تاثر تھا کہ یہ مسلم ہے اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ رکھے گا لیکن امریکی پالیسیوں سے ثابت ہوا کہ وہ اپنی بالادستی قائم رکھنے، گرم پانیوں پر قبضہ اور اسلحے کے کاروبار کو تقویت دینے کیلئے جنگی پالیسیاں تبدیل نہیں کر سکتے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور طارق فتح جیسے شخص جب متشدد سوچ اپناتے ہیں تو پھر لوگ انہیں کسی طرح بھی قبول نہیں کر سکتے۔ ایسی سوچ کے حامل افراد شرمناک باتیں کرکے دنیا کو تشدد زدہ بنا نا چاہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور طارق فتح کے دماغی توازن کا علاج کرایا جائے۔

پاکستان میں بھی بڑے پائے کے سیاستدان موجود ہیں جن کے دماغ کا علاج ہونا ضروری ہے مثال کے طور پرکوئی یہاں کہتا ہے کہ پاکستان ایک ناسور ہے اور پاکستان مردہ باد وغیرہ لیکن بعد میں وہ معافی کے طلب گار ہو جاتے ہیں۔ کوئی یہا ں امیر المومنین بننے کے خواب دیکھتا ہے اور پھر بعد میں سیکو لر پاکستان بنانے کا نعرہ لگاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دیا جائے اور ملک لوٹنے والوں کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام میرا نام نہیں۔ بعد میں موصوف خود ملک لوٹنے والوں کا استقبال کرنے کیلئے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی یہاں کہتا ہے کہ قربانی سے پہلے قربانی ہوگی اور روزانہ نئی تاریخیں سننے کو ملتی ہیں کہ حکومت جانے والی ہے۔ یہ موصوف کسی کو پہلے معمولی کپتان کہتے ہیں لیکن بعد میں یہ ان کے گن گاتے ہیں اور جس کی وفاداری کرنے کا حلف لیتے ہیں اس کے سخت حریف بن جاتے ہیں ۔ کوئی یہاں کہتا ہے کہ میں تمہیں اپنا چپڑاسی نہ رکھوں لیکن بعد میں اسی کے بغیر کوئی قدم اٹھانا پسند نہیں کرتے اور جب تک اپنے جلسے میں ان کی تقریر نہ کروا لیں، اپنی تقریر نہیں کرتے۔ کوئی یہاں اسلامی نظام کے نفاذ کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے لیکن جب اسلامی نظام نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو سیکولر پاکستان بنانے والوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ کوئی یہاں کہتا ہے کہ اگر امریکہ ہمارے کتے کومارے گا تو میں اسے بھی شہید کہوں گا لیکن بعد میں امریکی سفیر سے ملاقات کا وقت مانگتے رہتے ہیں۔ کوئی یہاں فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کر تا ہے تو بعد میں انہی کی مدد کیلئے امریکی سینیٹرز کو خط لکھتا ہے کہ امداد بحال کی جائے۔ کوئی یہاں کہتا ہے میں کمانڈو ہوں ،کسی سے ڈرتا وڑتا نہیں لیکن پاکستان سے باہر جانے کیلئے بھرپور تگ و دو کرتا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے ۔ کوئی یہاں کہتا ہے کہ میں پاکستانی آئین کو نہیں مانتا لیکن اسی قانون کے تحت پاکستان کی پارلیمنٹ میں حلف اٹھاتا ہے۔ کوئی یہاں انقلاب لانے کیلئے سات سمندر کا سفر کرکے آتا ہے لیکن انقلاب ادھورا چھوڑ کر دوبارہ سات سمند ر پار چلا جاتا ہے۔ لیکن کیا کریں صاحب یہاں ان سب کو سیاست کا نا م دیا جاتا ہے اور کوئی اس طرف توجہ نہیں دیتا کہ ان کا دماغی علاج ہی کرا دے۔

(عزیز بھائی مغیث علی، صرف یہ فرما دیں کہ سیکولر کسے کہتے ہیں۔ خاکسار تو سیکولر ہے لیکن یہ واضح نہیں ہو پایا کہ آپ سیکولر کہتے کسے ہیں اور آپ کا اعتراض کیا ہے۔)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments