عصر حاضر میں میڈیا کا کردار اورعلما کی ذمہ داریاں


\"abulhasan-razi-m-aminn-tahir\"اگر ہم مغربی میڈیا کا اسلام کے حوالے سے اجمالی جائزہ لیں تو اسلام کے بارے میں ایک منفی ردِّ عمل سامنے آتا ہے۔ مغرب میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں اورمغربی معاشرے میں ہرشخص کا یہ قانونی حق ہے کہ وہ جس طرح چا ہے زندگی گزارے۔ مثال کے طور پر لندن میں ننگے انسانوں کا جلوس نکلتا ہے جس میں مردو زن بلا تخصیص شریک ہوتے ہیں اور کوئی حکومتی رکاوٹ اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ ایک \”مہذب معاشرہ \” ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔ مغربی میڈیا پر اسلام مخالف پروپیگنڈا کو Justify کرنے کے لئے اسی بنیادی حقوق والے ہتھکنڈے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ گستاخانہ خاکے ہوں یا ٹیری جونز کی جسارت، اس قسم کی تمام کاروائیاں اسی اوٹ میں کی جاتی ہیں۔ جہاں تک ہمارے ملکی ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو یہاں بھی ایک ایسی ہی روش کی طرف سفر شروع ہو چکا ہے. ہمارے میڈیا کے بارے میں درج زیل حقائق اب اظہر من الشمس ہوتے جا رہے ہیں.

.1 میڈیا پر روز بہ روز بے حیائی ، عریانی اور فحاشی بڑھتی جا رہی ہے۔
.2 معاشرے کے تاریک پہلوؤں کو دستاویزی فلموں ،ڈراموں،ٹاک شوز اور نیوز کے طور پر دکھانے کا رواج بڑھ رہا ہے
.3 ان موضوعات کو زیرِ بحث لایا جانے لگا ہےاس سے قبل جن پر پروگرام کرنے کا رواج نہیں تھا۔ مثال کے طور پر نظریہ پاکستان کی اساس ،قائدِ اعظم بطور ایک لبرل، اسلامی نظر یاتی کونسل پر نکتہ چینی، تعدد ازدواج پر تنقید وغیرہ وغیرہ
.4 مکالمے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ٹاک شوز میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے مابین بحث و مبا حثہ ایک معمول بن چکا ہے اور بسا اوقات مختلف نظریات اور فکر رکھنے والے طبقات و مکاتب بھی اپنے اپنے مؤقف، نظریہ اور بیانیے کا باہم تبادلہ خیال کرتے دکھائی دیتے ہیں
.5 پروگراموں میں بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت یا دھڑے یا کسی خاص نظریہ کے حامل نمائندہ کو ٹاک شو میں سولو فلائٹ کا موقع دیا جا تا ہےاور مخصوص سیاسی یا نظریاتی سوچ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ دین کے معاملے میں امتیازی سلوک برتا جا تا ہے
.6 مذہبی جماعتوں کی ان کے پروگراموں کو کوریج نہ دینے کی شکایت عام ہے
.7 دینی شخصیات کو غلط انداز میں پیش کیا جا نا اکثر پروگراموں کا معمول بن چکا ہے
.8 دینی موضوعات پر کرائے جانے والے پروگراموں کو کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے اور ان موضوعات کی تشریح کے لئےایسے بہروپیے ہیں جن پر گویا مصنوعی نور نچھاور کیا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دین کی تشریح نہیں بلکہ اداکاری سے آگے بڑھ کر کچھ دکھا رہے ہیں۔
.9 استخارہ مافیا اور دیگر ما فیاز معرضِ وجود میں آ چکی ہیں اور یوں کمر شل مولویز کی بھرمار نے اسلام کی حقیقی روح کو تڑپا کے رکھ دیا ہے۔
میڈیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملکی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے پروگرامز سے یہ اندازہ لگایا جا تا ہے کہ جو کچھ دکھا یا جا رہا ہے وہ سب اس معاشرے میں وقوع پذیر ہو رہا ہے. باالفاظ ِ دیگر یہ پروگرام معاشرے کے رہن سہن ، بودو باش ،تمدّن و تہذیب ،رسم و رواج ، طور طریقے ، خوشی غمی گو معاشرت کے ہر پہلو کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا حقائق پر نظر ڈالی جائے تو جہاں میڈیا نئی جہتوں کو اپناتے ہوئے معاشرے کے پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھا رہا ہے اور صحافت کی روایات کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو کسی حد تک آزادی سے پورا کرنے پر کار بند ہے وہاں بہتری کی بہت سی گنجائش اب بھی باقی ہے

ان کا مشن دین کے حوالے سے سب کے سامنے ہے. شائد ان کو زعم ہے کہ اس طرح وہ ملا اور مولوی کے تشخص کو پامال کر پائیں گے. سچ تو یہ ہے کہ یہ زعم حقیقت سے اتنا دور بھی نہیں کیونکہ ملا کا و ہ قد باقی نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔

پر یاد رکھیں کہ ملا کے کردار کی نفی ناممکن ہے۔ جب تک دین اسلام باقی ہے انشااللہ علمائے کرام اور ان کی اصل یعنی مدارسِ دینیہ بھی اپنی پوری حقیقت کے ساتھ باقی رہیں گے ۔ الحمد للہ مجھے علمائے کرام سےمحبت بھی ہے اور تقرب و نسبت بھی حاصل ہے۔ لیکن مذکورہ بالا حالات کے پیش نظر سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ان تمام تر حالات کے پیشِ نظر علمائے کرام کو میری ناقص رائے کے مطابق درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:

§ چوں کہ میڈیا پر کسی نہ کسی حوالے سے بلاواسطہ یا بالواسطہ اسلام مخالف لابی کا گہرا اثرو رسوخ ہے اس لئے اپنی تمام تر دعوت و تبلیغ اور دینی سرگر میوں کے لئے صرف میڈیا ہی پر تکیہ نہ کیا جائے۔
§ جہاں تک ممکن ہو سکے میڈیا کے فورم کو بھر پور استعمال کیا جائے بلکہ انفرادی یا کسی بھی فورم سے اجتماعی کوششوں کو اس سلسلے میں بڑھایا جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہو سکیں۔ موجودہ حالات کے تقاضوں کے پیش ِ نظر اسلامی نیوز چینلز کا قیام نا گزیر ہے جو نہ صرف خبر بلکہ اسلامی فکر اور تہذیب کی بقا اور احیا کی ذمہ داری کو بھی نبھا سکے ۔
§ سوشل میڈیا پر باقاعدہ طور پر ایسے گروپ تشکیل دئیے جائیں جہاں علماءکرام اردو زبان کے علاوہ دیگر زبانوں بالخصوص انگلش میں اسلام مخالف ہر پرو پیگنڈے کا مدلل جواب دے سکیں۔
§ آج معاشرے میں دینی حلقوں اور روشن خیال / لبرل حلقوں کی تقسیم و امتیاز ہو چکی ہے۔ اگر اِدھر دینی حلقوں کے کچھ احباب نے روشن خیالی کو لادینیت و دہریت اور سبھی روشن خیالوں پر لادین ہونے کا فتوٰی لگا دیا ہے تو ادھر روشن خیال علمائے کرام کو گری ہوئی نظروں سے دیکھتےہوئے ملاں جیسے گھٹیا القابات سے نوازتے ہیں. کچھ لوگوں کا رویہ پوری جماعت کا ترجمان بن گیا ہے یوں دانستہ یا غیر دانستہ جزکو کل پر محمول کرنا ہماری بہت بڑی کمزوری بن چکی ہے۔اگر اس طرزِعمل کو ترک کر دیا جائے تو ہماری اپنی صفوں (تمام مسالک و مکاتب ِ فکر ) میں بھی اتحاد و یگانگت پیدا ہو گی اور تمام بیرونی حلقے بھی ہمارے قریب تر آ ئیں گے۔
§ ہمیں اپنے اصل حریف کو تلاش کرنا ہو گا اور ہر اس سطحی مدِّمقابل پر سے توجہ ہٹانا ہوگی جس کا نتیجہ محض مذہبی منافرت ہی ہے۔اپنی تمام تر توانائیاں امتِ مسلمہ کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دین سے جوڑنے پر صرف کرنا ہوں گی۔
§ دراصل کفر و الحاد کے تمام ہتھکنڈے اور بالخصوص مستشرقین ہمارا حقیقی حریف ہیں لیکن اب طور طریقے بدل چکے ہیں نفرت اور عدم برداشت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظاہری تصادم سے اجتناب برتتے ہوئے حسنِ تدبیر سے ان کی ہر چال کا ٹھوس جواب دینا ہو گا۔

§ درس ِنظامی کے نصاب کی ترتیب و ترویج الہامی نہیں کہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کی جا سکے۔اسلام نے اپنے اندر اجتہاد اور قیاس کی وسعتوں کو سمیٹا ہوا ہے تو درس نظامی کے نصاب میں تبدیلی خارج از امکان کیو ں ہے؟ عالم اسلام کے گرد نظریاتی جنگ کا دائرہ سیع تر کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں نت نئے فتنے برپا ہیں جن کے تعاقب میں علماء اور محققین کو بند گلی میں گھسا دیا گیا ہے۔ ان حالات میں امت کے مجتہد، محقق اور فقہائے کرام ان موضوعات کا ادراک کریں جہاں بہتری کی گنجائش باقی ہے یا تبدیلی نا گزیر ہے تاکہ جدید فقہی مسائل اور اسلام مخالف مہم سے پیدا شدہ خلفشار سے نمٹا جا سکے اور حقیقی مسائل اور اہداف کا تعین کر کے ان کے لئے ایک طویل المعیاد ، منظم حکمت عملی وضع ہو سکے۔
o عصری تعلیم کو اس کی اہمیت و افادیت کے پیشِ نظر دینی تعلیم میں سمو لیا جائے تاکہ جدید فقہی مسائل کے استنباط و استخراج اور تشریح میں معاونت ہو سکے، عصر ِحاضر کی اہم ضرورت یعنی سیاسی، اقتصادی و دیگر میدانوں میں درکار پیشہ ورانہ مہارتوں سے لیس تربیت یافتہ عملہ کو پورا کیا جا سکے اور نظریاتی سرحدوں کی ہر فورم پر حفاظت کے لئے یہ عملہ کثیر تعداد میں مہیا ہو سکے۔

§ ایک ایسے خود مختا رادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو درج ذیل اقدامات عمل میں لا سکے:
o تربیت کا منظم نظام جو علمائے کرام کو ہر میدان میں عصری تعلیم و تحقیق اور مہارتوں کے حصول کے لئے پلیٹ فارم مہیا کر سکے۔
o تربیت یافتہ اس عملہ کے لئے عملی جدوجہد کی نئی راہیں اور جہتیں متعین کرے۔اپنا مؤقف بیان کرنے کے لئے ان محقق علماءکو ہر فورم تک رسائی اور مواقع مہیا کرے۔
o مستشرقین نے دین اسلام کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے نا قابلِ تلافی نقصان کیا گیا ہے بالخصوص نظریہ جہاد کو سبوتاژ کیا جا رہا ہےاور مسلمان ، مسلم عورت اور علماء کے تشخص و تقدس کو حد درجہ مجروح و پامال کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ اسلام مخالف مہم کے مضمرات کا بخوبی جائزہ لے ا وراسلام کے شرعی اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے قومی و بین الاقوامی زبانوں میں ایسی دستاویزی فلمیں بنانے کا مستقل بنیادوں پر اہتمام کرے جو حقائق کو آشکار کر دیں۔
o اسلامی نیوز چینلز کا قیام عمل میں لائے اور دینی مسالک و مکاتب ِ فکر کے مابین باہمی مکالمے کو فروغ دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments