کلابہ ٹوٹنےکی دیر ہے
کلابہ ٹوٹنےکی دیر ہے
ابھی تکلے پہ دھاگہ گھومتا ہے
ابھی کر لے سَکھی باتیں
طلسمِ خواب کی گھاتیں
ابھی دوچار ہی راتوں کا قصہ ہیں
دیے کی ٹمٹماتی لَو میں کوئی آنکھ
چہرے پڑھ رہی ہے
زندگی کی سمت
مرگِ ناگہانی بڑھ رہی ہے
ریشمی کپڑے لپیٹے جا چکے ہیں
آسماں کا سر خمیدہ ہے
کلابہ ٹوٹنے کی دیر ہے
چرخہ رکے گا
زور سے گھومے گا
پھر تاریخ کا پہیہ
زمیں پوشاک بدلے گی
نئی تقویم لکھنے کے لئے کاتب
سیاہی میں ستارے گھولتا ہے!
Latest posts by نصیر احمد ناصر (see all)
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).