یوم کپور اور عاشورہ… تاریخیں پھر ایک ہوتی ہیں


اور سات کاہن صندوق کے آگے آگے مینڈھوں کے سینگوں کے سات نرسنگے لئے ہوئے چلیں اور ساتویں دن تم شہر کی چاروں طرف سات \"husnainبار گھومنا اور کاہن نرسنگے پھونکیں ۔ اور یوں ہو گا کہ جب وہ مینڈھے کے سینگ کو زور سے پھونکیں اور تم نرسنگے کی آواز سُنو تو سب لوگ نہایت زور سے للکاریں ۔ تب شہر کی دیوار بِالکل گر جائیگی اور لوگ اپنے اپنے سامنے سِیدھے چڑھ جائیں ۔(یشوع 5-6:4)

دنیا بھر میں یہودی آج یوم کیپور منا رہے ہیں۔ اسے آپ نجات اور استغفار کا دن بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہودی بھی مسلمانوں کی طرح چاند کے مطابق تقویم کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔ تشری، یہ نام ان کے کیلینڈر میں ساتویں مہینے کا ہے۔ یہودی مذہبی روایات کے مطابق خدا نے اسی مہینے میں انسان تخلیق کیے تھے۔ اس ساتویں مہینے کے پہلے دس دن توبہ، دعا اور صدقات کے لیے مخصوص ہیں۔ یہ عشرہ یامیم نورائیم کہلاتا ہے۔ ان دس دنوں میں جو بھی ہفتے کا دن ہوتا ہے وہ خاص طور پر مغفرت کے لیے بڑا دن مانا جاتا ہے۔ یہودی عقیدے کے حامل افراد یامیم عشرے کا آغاز اپنی عبادت گاہوں میں بگل بجا کر اور نرسنگھے پھونکنے سے کرتے ہیں۔ نرسنگھا سمجھ لیجیے کہ ایک بڑا سا سینگ ہوتا ہے جو اکثر ہمارے ملنگوں کے پاس بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اگر کبھی بجانے کا اتفاق ہو تو آپ محسوس کریں گے کہ ایک عام پھیپھڑوں والا آدمی مشکل سے ہی اسے بجا پاتا ہے۔ وہ نہ ہو تو کسی بھی عام باجے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی دن یہ لوگ دوپہر کو ایک رسم ادا کرتے ہیں جسے تشلخ کہتے ہیں۔ (چوں کہ ہم عام طور سے ان معاملات کے بارے میں زیادہ جان کاری نہیں رکھتے، اس لیے تشلخ ایسے مشکل الفاظ بھی ہضم کرنے پڑیں گے)۔ اس رسم میں \"yom-kippur-01\"بہتے پانی کے سامنے جا کر خدا سے دعا کی جاتی ہے اور علامتی طور پر عبادت گزار اپنے سارے گناہ پانی میں بہا کر واپس آ جاتے ہیں۔ تو یہ جو تشری مہینے کا پہلا دن ہوتا ہے اور اس کی رسومات ہوتی ہیں یہ سب ایک تیوہار کی شکل اختیار کر کے روش ہشنا کہلاتا ہے۔ روش ہشنا، یہودی روایت  کے مطابق، حضرت آدم اور اماں حوا کی سالگرہ منانے کا تیوہار ہے اور اگلے دن شام کو یہ ختم ہو جاتا ہے۔ تو اس تیوہار کو مناتے ہوئے انہیں 5776 برس گزر چکے ہیں۔ یہودیوں کا کیلینڈر ہم سے اچھا خاصا پرانا ہے۔ یہ لوگ جنوری فروری والے کیلینڈر (گریگورین/شمسی) سے مطابقت رکھنے کے لیے ہر دو یا تین سال بعد ایک مہینہ اپنے کیلینڈر میں بڑھا دیتے ہیں اور یوں ان کے تیوہار دس بارہ دن کے فرق سے ہر سال ایک جیسی تاریخوں میں آ رہے ہوتے ہیں۔ تو اس طرح ان کے ایک سال میں اکثر تیرہ مہینے بھی پائے جاتے ہیں۔ ساتویں مہینے سے نیا سال اس لیے شروع کیا جاتا ہے کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی تخلیق اسی ماہ ہوئی تھی۔

یوم کپور، جسے آپ اہل یہود کا یوم استغفار بھی کہہ سکتے ہیں،  اس مہینے کی دس تاریخ کو آتا ہے۔ اس سال یہ دن 11 اکتوبر یعنی کل شام سے شروع ہوا اور آج شام تک رہے گا۔ اس دن یہودی عورتیں اور مرد اپنے گناہوں کے کفارے میں تقریباً پچیس گھنٹے کا روزہ بھی رکھتے ہیں۔ کھانا پینا تو دور کی بات ہے یہ لوگ چمڑے کے جوتے نہیں پہن سکتے، منہ ہاتھ نہیں دھوتے، غسل نہیں کرتے، پچیس گھنٹے بس ایسے ہی گھومتے ہیں۔ یہاں تک کہ خوشبو لگانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ مسلمانوں میں شب برات ہی کی طرح وہ لوگ کپور کی رات کو تقدیر سازی کی رات سمجھا جاتا ہے۔ اس رات کو عموماً وہ لوگ گریے اور توبہ استغفار میں گزارتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ مقدر اچھے بنا دئیے جائیں۔ یوم کپور پر اجتماعی توبہ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، قومی یا ملکی سطح پر اگر کوئی گناہ نظر آتے ہیں تو ان کی توبہ بھی کی جاتی ہے، پھر بھی اکثر روش ہشنا کے موقع پر فلسطین والوں کے لیے بیت المقدس اور مسجد اقصی کے دروازے بند ملتے ہیں۔

قبل از اسلام عربوں کے کیلینڈر کا بھی یہی معاملہ تھا۔ وہ لوگ ہر تیسرے سال میں ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے۔ وہ سال 12 کی بجائے 13 ماہ کا \"yom-kippur\"ہوتا تھا۔ چوں کہ قمری سال کے حساب میں ہر برس 10 دن کم ہوتے ہیں اس لیے ہر تین برس کے تیس دن کا فرق وہ تیسرے سال میں پورا کر دیتے تھے۔ یہ ان کا کھاتہ بھول چوک تھا اور عربی میں اسے نسئی کہا جاتا تھا۔ اس طریقے کی وجہ سے تجارت، زراعت اور موسم کے حساب کتاب ٹھیک رہتے تھے۔

یہ بالکل ایسے تھا جیسے ہم لوگ اپنے دیسی مہینوں کو دیکھتے ہیں۔ ساون کا مہینہ ہر برس ایک ہی موسم میں آتا ہے، بھادوں ہر سال بھادوں ہی ہوتا ہے اور بیساکھی کا میلہ فصل کٹتے ہی منایا جاتا ہے۔ ہمارا دیسی مہینوں کا حساب بکرمی تقویم کہلاتا ہے اور یہ انگریزی مہینوں کی طرح سورج کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔

محرم کا مہینہ ہمیشہ سے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ اس مہینے میں جنگ کی ممانعت تھی۔ یہی معاملہ رجب، ذیقعد اور ذوالحج کا تھا۔ اس وقت کبھی کبھار یہ ہوتا کہ محرم اور تشری کے مہینے عین برابر آ جاتے۔ تیس دنوں کا حساب یہودی اور غیر یہودیوں کا ایک جیسا ہو جاتا اور دس محرم کے روز یوم کیپور بھی ہوتا، تب بھی تمام لوگ ان دنوں کو اپنے اپنے عقائد کی روشنی میں منا لیتے۔ یہ معاملہ غالباً دس ہجری تک چلا، اس کے بعد نسئی کی یعنی تیس دن بڑھانے کی ممانعت آ گئی۔

\"ashura-00040\"

اس بار یوم کیپور اور دس محرم الحرام ایک ہی تاریخ پر آئے تو نظر تاریخ کے ان گوشوں تک چلی گئی جو ہم اب بھلا چکے ہیں۔ اگر ہم بہت پیچھے جا کر دیکھیں تو واپس آ کر شاید ہماری نفرتیں اتنی شدید نہ رہیں، لیکن اتنا وقت نکالنا اب بہت مشکل ہے۔ اب قومیں اپنے جھنڈوں اور اپنی سرحدوں اور اپنے عقیدوں اور اپنے رنگوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تاہم ایک دوسرے کے بارے مین جاننا ہمیشہ بہتر افہام و تفہیم میں مدد دیتا ہے۔ تعصب کی بدترین صورت یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ہم کس بات سے اختلاف رکھتے ہیں اور کیوں؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments