شام غریباں، پولکا ڈاٹس اور دلیم کا برقعہ


قصہ ہے کچھ گئے دنوں، بیتی یادوں کا۔ بیتی یادیں؟ اجی یادیں بیتتی ہی ہیں۔ یہ تو بیتے دنوں کی یادیں ہیں۔ بیتے دن بھی کیا کہئے۔ بس کیلنڈر کے ہندسوں کا ہیر پھیر ہے۔ دنیا کی تیس بہاریں اور خزائیں دیکھنے کے بعد بچپن کا رخ کروں تو وہ زمانہ قدیم لگتا ہے۔ دماغ کی اسکرین پر چلنے والی فلم کچھ دھندلی سی دکھتی ہے۔ وہ جیسے پرانی فلموں کے بوسیدہ پرنٹ ہوا کرتے تھے۔ تھرتھراتے، لڑکھڑاتے ہوئے۔ یوں تو ایسی بھی کیا پڑی ہے ان گرد آلود شکستہ یادوں کو چھاننے کی۔ لیکن کیا کہئے کہ یادیں تو منانے کے لیے ہوتی ہیں، نہ کہ مٹانے کے لیے۔

اگر آپ کا جی چاہے تو آپ بھی ہمارے ساتھ اس سفر پر چلے چلئے۔ کیا کہا؟ چلیں گے؟ اچھا سوچا۔ ایک سے بھلے دو۔ تو قبلہ یہ ہے کم سے کم دو دہایئوں پہلے بیتی ایک رات۔ ہوا میں میں کچھ تپش سی تھی۔ کشمیر کی وادی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ صبح کا سورج سوا نیزے سے ٹس سے مس نہ ہو رہا ہو۔ عجیب شام تھی۔ خون، گرد اور آنسوؤں میں اٹا ہوا۔ اس شہر کا نام میرپور ہے۔ کتنا افسانوی اور رومانوی سنائی دیتا ہے نا؟ سچ جانئے تو اگر جنّت میں بجلی کی تاروں اور سڑکوں کا جال بچھا ہو تو بخدا بالکل میرپور ہی دکھے۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی بل کھاتی سڑکیں اور کسی دیو مالائی کہانی کی طرح انہیں سڑکوں پر بنے اونچے نیچے پکّے مکان۔۔۔ تذکرہ دلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ۔

پہاڑ کے وسط میں بنا ہوا یہ ڈبل اسٹوری پتھر کا بنا ہرا بھرا بنگلہ یقیناً آپ کو انگلستان کے کنٹری ہاؤس کی یاد دلا رہا ہو گا۔ رات کی تاریکی اور حدت دونوں ہی تھمنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ جی صاحب، ہے تو کشمیر کی وادی لیکن یہ شام کچھ عجیب تھی۔ اس بنگلے میں مہمانوں کے لیے جو کمرہ مختص کیا گیا ہے اس کا دروازہ باہر کو کھلتا ہے تاکہ بی بی کا پردہ اور صاحب کا پندار دونوں سلامت رہیں۔ صاف ستھرا اور کشادہ، بالکل کسی قوی جوان کی پیشانی کی طرح۔ دیوار کے ساتھ قرینے سے لکڑی کے دو بھاری بھرکم پلنگ لگے ہیں جن پر کشمیری ٹانکے کی کڑھی چادر بچھی ہی ہے۔ اس کے بالکل سامنے ایک پرانے فیشن کا صوفہ اور لکڑی کی میز دھری ہے۔ باغیچے میں کھلنے والی کھڑکی اور عقبی دروازے کے بیچ جو ذرا سی جگہ بچی ہے وہاں ایک میز پر ٹیلی ویژن رکھا ہے۔ صوفے پر چالیس سے کچھ کم برس کا ایک آدمی اپنی سات، آٹھ سال کی بیٹی کے ساتھ بیٹھا ہے۔ آدمی کی شیو بڑھی ہوئی ہے اور دل گھٹا ہوا۔ کاٹن کا سفید شلوار قمیض کچھ ملجگا سا بھی ہے اور کچھ میلا بھی۔ بچی کے کالے سیاہ بال نہایت صفائی سے دو پونیوں میں بندھے ہیں۔ پولکا ڈاٹس والی فراک اور سیاہ بوٹوں میں یہ بچی کچھ اس انداز سے باپ کو دیکھ رہی ہے کہ لگتا ہے ابھی رو دے گی۔ آدمی کی آنکھوں سے بدستور آنسو رواں ہیں۔ ٹیلی ویژن پر علامہ طالب جوہری کی شام غریباں دیکھتے ہے اس شخص کا سینہ پھٹنے کو بیٹھا ہے۔ بی بی زینب کی کسمپرسی کا ذکر آتے ہی کبھی بچی کو اپنے سینے سے بھینچ لیتا ہے اور کبھی آسمان کی طرف دیکھ کر خاموش نظروں سے اپنے پیاروں کا نوحہ پڑھتا ہے۔ وہ پیارے جنہیں اس نے دیکھا تو کبھی نہیں لیکن محسوس ہر پل کیا ہے۔

بچی کا ننھا سا دل بجلی کی تیزی سے دھڑک رہا ہے۔ اپنے باپ کو اس اضطراب میں بس ایک ٹک دیکھے جا رہی ہے۔ لگتا ہے آج نہ تو علامہ صاحب کا نوحہ تھمے گا اور نہ ہی ابّا کے آنسو۔ مجلس کا رخ علی اصغر کی شہادت کے بیان کی طرف جاتا ہے تو اس بچی کی سیاہ آنکھوں سے قیمتی موتیوں جیسے آنسو کشمیری سیب جیسے گالوں پر لڑھک جاتے ہیں، بالکل بے ساختہ، بالکل بے آواز۔

چلیے اب کشمیر کے مرغزاروں سے عرب کے ریگزاروں کو۔۔۔ وقت ختم ہوا صاحب۔ ملاقات کا وقت تو اتنا ہی ہوا کرتا ہے نا۔ جب تک سرکار چاہے اور جتنا چاہے۔

پہنچ گئے دبئی؟ کہئے سفر میں زیادہ تکلیف تو نہیں ہی؟ فضا میں تپش ہے اور آسمان میں لالی۔ خیر آپ کہیں گے کہ یہ تو صحرا ٹھہرا۔ اب پھول تو اگلنے سے رہا۔ یہاں کا آسمان کس دن نیلا تھا؟ لیکن صاحب، یہ شام بھی عجیب ہے۔ آپ کی قسم

یہاں آپ کا دم تو گھٹے گا۔ یہ اپارٹمنٹس دیکھنے میں کشادہ ضرور ہیں لیکن دن رات بند رہتے ہیں کہ مبادا ریت گھروں میں گھس کر ان قیمتی میزوں اور سفید صوفوں پر جم جائے۔ اور اسی ڈر سے خود پر بھی ہوا بند کر دی۔ ذرا دیکھئے، فضا میں کچھ عجیب سا سوز بھی ہے نا؟ دل بیٹھا جاتا ہے۔ کوئی ڈور ہے جو بار بار پیچھے کھینچتی ہے کشمیر کے اسی ہرے بھرے بنگلے کی جانب۔ کوئی ایسی بے کلی ہے جو بار بار اسی ملگجے سفید شلوار قمیض پہنے باپ کے بہتے ہوئے آنسوؤں سے نظر ہٹنے ہی نہیں دیتی۔ جی چاہتا ہے کہ بھاگ کر اسی گیسٹ روم میں بیٹھے باپ کے آنسو پونچھ لوں۔ شامِ غریباں کی سب ہی تاریکیاں اپنی پولکا ڈاٹس والی سیاہ فراک میں سمیٹ لوں۔ عجیب ناتا ہے یہ فاصلوں کا، محبت کا، ملگجے کپڑوں میں ملبوس اس باپ اور سیاہ پونیوں والی بیٹی کا۔

گھر میں پڑی دالوں کو حلیم بنانے کے لئے بھگویا تو دل اسی سڑک پر پکنے والی دیگ کی طرف لوٹ گیا جس میں ابا خود بھی گھوٹا لگایا کرتے تھے۔ افسرانہ طبیعت کے باوجود ثواب کا یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ یاد پڑتا ہے کے دن دن تک نہ تو امی سرخی لگاتی تھیں اور نہ ہی ابّا خوشبو کے قریب جاتے تھے۔ کسی بھی قسم کا ہنسی مذاق تک ناپید ہو جایا کرتا تھا۔ 9 اور 10 محرم کو تو جانئے صف ماتم بچھ جاتی تھی۔ نیاز کا دور دورہ ہوتا تھا۔ سبیلیں لگتی تھیں۔ ارد گرد کے بچوں کو بلا کر ٹھنڈا دودھ پلایا جاتا تھا۔ مرثیے تو ہم سب ہی کو ازبر تھے۔ شام غریباں کا تو ذکر آپ سن ہی چکے ہیں۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کے یہ 90 کی دہائی کا ایک سنی گھرانہ تھا۔ جب محببتیں کثرت سے بانٹی جاتی تھیں۔ پورا دن گھوٹا جانے والا حلیم ابھی دلیم کا برقعہ نہی پہن پایا تھا۔ کوئی کافر نہیں تھا۔ حسین سب کے تھے۔ اہل بیت سنیوں کے دلوں کی بھی اتنی ہی دھڑکن تھے کے جتنے اہل تشیع کے۔

وقت بہت بدل گیا ہے۔ محبّت کی جگہ بدعت نے لے لی ہے۔ کچھ بھی تو پہلے جیسا نہی رہا۔ لیکن صحرا کی یہ شام بھی اتنی ہی عجیب ہے کے جتنی کشمیر کی وہ سیاہ رات۔ حسین آج بھی زندہ ہیں اور یزید آج بھی مردہ۔ ہم تو آج بھی حلیم بانٹیں گے۔ سبیلیں چڑھائیں گے۔ روئیں گے بھی اور رلائیں گے بھی۔ روایت کو زندہ بھی رکھیں گیں اور کفر کے فتوؤں سے ڈریں گے بھی نہیں۔

جیتے رہئے۔ اور ہو سکے تو ایک پلیٹ حلیم ہمارے گھر بھی بھجوا دیجئے گا لیکن شام سے پہلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments