چچا تارڑ کے نام پہلا خط


\"nadeem-anjum\"چچا جان ۔۔ السلام علیکم

چند دہائیاں قبل منٹو نے چچا سام کے نام ڈھیر سارے خط لکھے تھے… بعد ازاں آپ نے اپنے منٹو چچا کو خطوط لکھ کر ثوابِ دارین حاصل کیا… آج آپ کے تتبع میں آپ کا برخوردار بھتیجا آپ کو مخاطب کر رہا ہے…

مکافاتِ عمل اسی کا نام ہے۔۔۔

آپ اپنے اس بھتیجے کو نہیں جانتے کہ یہ کروڑوں پاکستانیوں کی طرح گمنام اور ایک بے وجہ زندگی گزار رہا ہے… میں یہ خط کیوں لکھ رہا ہوں؟ اس کی وجہ میں بعد میں بتاؤں گا…

شنید ہے آپ کو لفظ چچا سے چڑ ہے… کیا واقعی؟ آپ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ چچا کہلوائے جانے سے بزرگی کا تاثر آتا ہے؟ مہ رخوں سے بہر ملاقات، نازک معاملات کے پیش رفت میں میں مشکلات پیدا ہونے کے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں؟ کسی نے آخرِ دم قسم دے رکھی ہے؟ ہے کیا کہ جس کی پردہ داری ہے؟

برائے مہربانی وجہ بتا کر اپنے اس معصوم بھتیجے کو طرح طرح کی بد گمانیوں کے گناہ سے بچا لیجئے\"tarrar\"..

مہ رخوں کی بات سے یاد آیا .. آپ یقینی طور پر یہ قصہ بھول بھال گئے ہوں گے.. اسلام آباد لٹریچر فیسٹول کے پہلے دن آپ کا یہ ہونہار بھتیجا شرفِ ملاقات حاصل کرنے حاضر ہو گیا تھا… آپ نے آٹو گراف دیا… پھر سگریٹ سلگا کر بے اعتنائی سے دوسری سمت میں جہاں ہال کا دروازہ تھا، دیکھنے لگے… میری ہر بات کے جواب میں ایک مبہم ہوں اور بس!

یکبارگی ایک دلنواز مسکراہٹ کا پرندہ آپ کے چہرے پر اترا اور آپ اپنی نشست سے اُٹھ کر پاس آنے والی اُس دلربا لڑکی سے حال احوال پوچھنے لگے… اتنی محبت سے آپ نے اسے آٹوگراف دیا کہ میں اپنی جگہ کھڑے کھڑے جل کر کباب ہو گیا… تب اُس لمحے مجھ پر القا ہوا کہ آپ نے تارڑ حضرات کی ٹھرک کی بابت جتنا بھی لکھا ہے، وہ کس قدر قرینِ حقیقت ہے..

آپ کا یہ ناہنجار بھتیجا دست بستہ عرض گزار ہے کہ اسے بھی وہی عمل سکھایا جائے کہ جس کے بل پر اتنے برسوں سے حسن پرستوں کے میرِ کارواں ہو کر بھی آپ چچی جان کے ہاتھوں شہادت کے رُتبہ بلند کے حقدار نہیں ٹھرے.. میں نے تو جب بھی آپ کی پیروی کرنی چاہی ہے، موت یعنی \’وہ\’ رُو برو آ کھڑی ہوئی ہے..

چچا جان ۔۔ حیرانی کی بات ہے کہ منٹو پر فحاشی کے الزام میں چار مقدمے چلے۔۔ آپ پر ایک بھی نہیں.. کیوں؟

میں اوریا مقبول جان نہیں، پھر بھی بیسیوں مثالیں آپ کی تحریروں سے دے سکتا ہوں جہاں آپ منٹو سے کوسوں آگے ہیں.. بتانے میں حجاب \"Mustansar_Hussain_Tarar\"آتا ہے کہ آخر آپ میرے چچا محترم ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ میری بے شمار صبحیں، شامیں اور راتیں آپ کی تحریروں کی حدت سے قطرہ قطرہ پگھل کر ذہن کے سرد خانے میں ہمیشہ کے لئے حنوط ہو گئی ہیں..

آگہی کے موسموں سے بے وقت آشنائی نے ایک عمر لذتِ آزار میں مبتلا رکھا ہے..

چچا جان.. آپ کی تحریروں کی بات چلی ہے تو ایک شکایت مجھے یہ بھی ہے کہ آپ نے سفرنامے لکھ لکھ کر بہت سوں کے دماغ میں خلل ڈال دیا ہے.. ایک آدھ سفرنامہ پڑھا نہیں اور بھائی صاحب نکل پڑے تارڑ بننے.. کوئی دکان دھندا کرتے، ابا جی (اپنے) کا ہاتھ بٹاتے، ڈھنگ کا پڑھ جاتے لیکن نہیں..

اچھا یہ بھی سنئے.. چند ایک میری طرح پھر روداد بھی لکھ ڈالتے ہیں.. پرسوں کی بات ہے.. میرا ایک قریبی دوست سودا سلف لینے گیا.. گھر واپسی پر چھوٹی سی سفر نامی لکھ لی جہاں ہر دوسری سطر میں حافظ بر خوردار کا سندوریا ہاتھی جھوم رہا تھا.. اُس پر بلھے شاہ، میاں محمد بخش، بابا فرید اور دیگر صوفی شعرا براجمان، ضرب المثل شعروں کی اشرفیاں دائیں بائیں پھینکتے جاتے تھے.. عجیب و غریب تجلیات اور تصرفات کا تذکرہ تھا.. ہر تیسرے قدم پر رنگا رنگ کیفیات اُس پر طاری ہو جاتی تھیں..

میں نے پوچھا.. \”یہ کیا ہے؟\” اشارہ اُس کی \”سفر نامی\” کی طرف تھا..

\”یہ وہ ہے.. جس کی تمہیں خبر نہیں\”، کہہ کر اس نے سدھارتھ مسکراہٹ سے مجھے نوازا اور آنکھیں بند کرکے ان تین سفرناموں کے ناموں کا ورد ہل ہل کے کرنے لگا جو اُس نے کُل پڑھے ہیں۔۔۔

میرا یہ دوست مکمل تارڑیایہ ہوا ہے۔۔۔\"tarr-2\"

چچا جان۔۔۔ آپ سے بھی دوست احباب کتاب مانگ کے پھر کبھی واپس نہیں کرتے یا یہ کرم فقط آپ کے اس بیچارے بھتیجے پر ہوتا ہے؟

برائے مہربانی یہ خط ملتے ہی اپنی ہر کتاب کے دو دو نسخے روانہ کر دیجئے گا.. ایک میں اپنے لئے مختص رکھوں گا جبکہ دوسرا نسخہ ان کے لئے جنہیں مانگ کر پڑھنے کی عادت ہے.. فُقرے کہیں کے!

سُنا ہے آپ اپنی کتابیں مفت بانٹنے میں بڑے کنجوس واقع ہوئے ہیں.. چلے ہیں بھی تو غیروں کے واسطے ہوں گے.. میں تو آپ کا بھتیجا ہوں.. میری تُلنا کتابوں سے تھوڑی ہو گی۔۔۔

چچا جان.. پچھلے چند برسوں میں ماشااللّہ سے آپ کی پذیرائی بڑھی ہے لیکن مرزا نوشہ نے کہا ہے ناں کہ حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا.. جی ہاں.. یہی بات ہے!

 عبداللہ حسین نے \”نادار لوگ\” اور \”باگھ\” جیسے شاہکار بعد ازاں لکھے، قرۃالعین حیدر نے \”آخر شب کے ہمسفر\” کی طرح مسخر کر دینے والا ناول سپردِ قلم کیا مگر ہمارے یہاں کے نقاد \”اداس نسلیں\” اور \”آگ کا دریا\” پر آ کر ہی اٹک جاتے ہیں.. کیوں؟

آپ کے ناولوں پر بات ہو تو بہت ہوا، \”بہاؤ\” کا تذکرہ کر دیا.. آپ کو بس سفرنامہ نگار گردانتے ہیں.. یہ ناقدینِ ادب اپنی کم علمی کے باعث یا بے وجہ بغض کے کارن ایسا کرتے ہیں؟ خیر اُن کے نہ ماننے سے فرق تو کوئی پڑتا نہیں..

پھر بھی، چھوٹا منہ، بڑی بات.. ان کم علموں کو رام کرنے کا مشورہ مفت حاضر باش ہے.. آپ انہیں اپنے یہاں بُلا کے ضیاالحق والی کر \"tarrar-5\"گزریں.. اپنے کچن کا نمک کھلا دیں.. خالی نمک نہیں کہ اس سے فشارِ خون میں مبتلا حضرات لڑھک جائیں گے بلکہ نمک چچی جان کے ہاتھوں سے بنے مزے مزے کے پکوانوں میں ہوں، پھر اثر دیکھئے گا.. اگلے دن آپ قطب الوقت کے درجہ پر فائز ہوں گے.. دوستو وسکی آپ کو مورچھل کر رہا ہوگا.. نمک کھلانے کا یہ عمل بلا ناغہ ہر دو ہفتے بعد دہراتے رہئیے گا..

اپنے اس تابع فرمان بھتیجے کو بوقتِ دعوت یاد رکھنے کے لئے پیشگی شکریہ..

یہ خط لکھنے کی وجہ میں آپ کو اگلے خط میں بتاؤں گا..

فی الوقت مجھے دہی لانے کا حکم ملا ہے جسے بر وقت بجا نہ لایا تو جان کے لالے پڑ سکتے ہیں..

آپ کے حراموش سفر کے لئے پُر جوش تمنائیں..

ہاں، میرے لئے وہاں سے سوغات لانا بھولئیے گا نہیں..

   آپ پر فدا، آپ کا بے ریا بھتیجا

   ندیم انجم

   ہاوس نمبر 130، آئی نائن ون، اسلام آباد

   مورخہ 31 جولائی 2016

یہ خط محمد علی ڈاکیے کے سپرد کر دیا گیا ہے. وہ حشوپی کے سیبوں کے باغوں سے آگے داسو جانے والی سڑک پر چچا تارڑ کو یہ خط حوالہ کریں گے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments