سی پیک منصوبہ: یہ ہاتھی کس کروٹ بیٹھے گا؟


بات چین کے (OBOR) سے شروع ہوئی تھی اور گوادر تک پہنچ گئی۔ اب دیکھتے ہیں کہ سی پیک(CPEC) کی بذات خود کیا تفصیل ہے۔سی پیک کی بنیاد مئی 2013 میںچینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کے ساتھ پڑی تھی۔اس وقت پاکستان میں میر ہزار خان کھوسو کی نگران حکومت تھی جبکہ آصف علی زرداری صدر تھے۔23 مئی 2013 کو مفاہمت کی یاداشتوں(MOUs) پر دستخط ہوئے تھے جس میں(long-term Economic Corridor plan, maritime cooperation and satellite navigation) کے منصوبے شامل تھے۔ باقی منصوبوں کے علاوہ سی پیک کی ابتدائی یاداشت کی مفاہمت ( long-term plan on China-Pakistan Economic Corridor) پر ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری اور چینی وزیراعظم(Li Keqiang) کی موجودگی میں پاکستان کی طرف سیکریٹری خارجہ پاکستان جلیل عباس جیلانی اور چین کی طرف سے چینی وزیر خارجہ (Wang Yi ) نے دستخط کئے تھے۔اس یاداشت میں طے پایا تھا کہ پاکستان کی طرف اس منصوبے کو منسٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ (MPD)اور چین کی طرف سے نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈریفارمز کمیشن (NDRC)دیکھے گا(جدول نمبر1)۔ادھر گوادر پورٹ کو جنوری 2013 میںپیپلز پارٹی کی اس وقت حکومت نے کابینہ کے مشترکہ فیصلے سے سنگاپور سے واپس لے کر چین کے حوالے کیا تھا۔ گوادر کو چین کے حوالے کر نے پر اس وقت کے ہندوستانی وزیر خارجہ(A. K. Antony) نے شدیدتحفظات کا اظہار کیا تھا۔ یاد رہے کہ گوادر پورٹ کو2007 میں پرویز مشرف کی حکومت نے چالیس سالہ (operating lease) پر سنگاپور کی ایک کمپنی(PSA International) کو دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف واشنگٹن کی ناراضی کے سبب گوادر کو چین کے حوالے کرنے سے ہچکچا رہے تھے ۔ حالانکہ یہ معلوم ہے کہ وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے۔

جون 2013 میں حلف لینے کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جولائی کے پہلے ہفتے میں چین کا پانچ روزہ دورہ کیا جس میں سی پیک کے حوالے سے کچھ اور مفاہمت کی یاداشتوں(MOUs) پر دستخط ہوئے۔اس وقت کی ابتدائی تفصیلات کچھ یوں تھیں کہ کل آٹھ منصوبوں کے ابتدائی خاکوںپر دستخط ہوئے تھے۔ جن میں2000 کلومیٹر گوادر کاشغر ریل اور روڈ کی تعمیر تھی۔لاہوور کراچی موٹروے منصوبہ تھا۔ چین سے اسلام آباد تک فائبر آپٹکس کنکٹیویٹی منصوبہ تھا۔وزیراعظم نواز شریف نے چین میں ہی پی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’ چاروں صوبے اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سرکاری دورے میں مفاہمت کی ایک ایسی یادداشت پر بھی دستخط ہوئے تھے جس کا ریاست پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مفاہمت کی یہ یاداشت کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور پاکستان مسلم لیگ نواز میں مستقبل کے تعاون اور تبادلے پر مبنی تھی۔

وزیراعظم کے اسی دورے میں یہ طے ہوا تھا کہ پاکستان کی طرف اس منصوبے کو منسٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ (MPD)اور چین کی طرف سے نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈریفارمز کمیشن (NDRC) کی ایک مشترکہ مفادات کونسل(JCC) بنائی جائے جو اس منصوبے کی تفصیلات باہمی رضامندی سے طے کرے گی۔اس لئے یہ جان لینا ضروری ہے کہ سی پیک کے حوالے سے اصل فورم یہی ہے۔ ان کے علاوہ سینیٹ کمیٹیاں، اسمبلی کمیٹیاں تجاویز وغیرہ تو دے سکتی ہیں مگر بااختیار فورم صرف جے سی سی ہے۔اسی جے سی سی نے سی پیک کے باقاعدہ معاہدے سے پہلے چار میٹنگز بالترتیب کیں۔پہلی 27 اگست 2013 اسلام آباد، دوسری 9 فروری 2014 بیجنگ، تیسری 27 اگست 2014 بیجنگ اور چوتھی 25 مارچ 2015 کو پھر بیجنگ میں ہوئی۔ ان اجلاسوں میں سی پیک کو کم و بیش ایک حتمی شکل دی گئی۔ اپریل 2015میں چینی صدر کے پاکستان آمد پر باقاعدہ سی پیک کے 46 بیلین ڈالر کے منصوبے پر دستخط ہوئے۔ اس کے بعد جے سی سی کی ایک اور میٹنگ 12نومبر 2015کو کراچی میں ہوئی ۔ جے سی سی چھٹی میٹنگ کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ اس سال نومبر کے آخری ہفتے میں ہو گی۔

سی پیک کے ابتدائی منصوبہ جات اور نقشوں کی جو تفصیل سامنے آئی تھی وہ کچھ یوں ہے۔ سی پیک ایک پندرہ سالہ منصوبہ ہے جس کے چار مراحل ہیں۔فوری منصوبے(2018 – Early Harvest)، مختصر المدتی منصوبے(2020 – Short Term) ، درمیانی مدت کے منصوبے(2025 – Medium Term) اور طویل المدتی منصوبے(2030 – Long Term)۔ ان میں توانائی، مواصلات، صنعتی زونز اور فائبر کنکٹیویٹی کے منصوبے شامل تھے۔ سی پیک کے بنیادی دو بڑے اجزاءہیں۔ ایک تو مواصلات کا نظام کاشغر سے گوادر تک( سڑکیں اور ریلوے لائنز) ہیں جبکہ دوسرا ان سڑکوں کے قریب صنعتی زونز کا قیام ہے جس میں توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ ابتداءمیںسی پیک 45.69 بلین ڈالر کا منصوبہ تھا۔ جس میں حال ہی میں 5.5 بیلین ڈالر کا مزید اضافہ ہوا ہے جو لاہور، کراچی ریلوے لائن کے لئے ہے۔ 33.79 بلین ڈالر توانائی کے لئے ہیں۔ 5.9 بلین ڈالر سڑکوں کے لئے ہیں۔ 3.69 بلین ڈالر ریلوے لائنزکے لئے ہیں۔ 66 ملین ڈالر گوادر پورٹ کے لئے ہیں۔ 4 ملین ڈالر فائر آپٹکس کے لئے ہیں۔1.6 بلین ڈالر لاہور ماس ٹرانزٹ کے لئے ہیں۔اس بحث سے اب آگے بڑھنا چاہیے جس میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ لاہور اورینج لائن منصوبہ سی پیک کا حصہ نہیں ہے۔یہ با ت بھی یاد رہے کہ چین کی یہ سرمایہ کاری کوئی مفت امداد نہیں ہے بلکہ کا بیشتر حصہ ( concessionary and commercial loans) ہیں۔

سی پیک میں توانائی کے منصوبوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔کم و بیش 13000 میگا واٹ کے توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔ یہ بالترتیب سندھ  میں آٹھ( پورٹ قاسم پاورپلانٹ 1320 میگا واٹ،تھر (۱) 1320 میگا واٹ، تھر(۲) کول مائن پلانٹ 1320 میگا واٹ۔، تھر اینگرو کول پاور660 میگا واٹ، UEP ونڈ فارم 100 میگا واٹ، داود ونڈ پاور50 میگا واٹ، سچل ونڈ فارم 50 میگا واٹ، سونک ونڈ فارم50 میگا واٹ)، پنجاب میں چار( ساہیوال کول پاور پراجیکٹ 1320 میگا واٹ، رحیم یار خان کول پاور پراجیکٹ 1320 میگا واٹ، قائد اعظم سولر پارک 1000 میگا واٹ، کیروٹ ہائیڈرو پراجیکٹ720 میگا واٹ(، خیبر پختونخوا میں ایک( سکی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 870 میگا واٹ) ، بلوچستان میں دو (حبکو کول پاور پراجیکٹ 660 میگا واٹ، گوادر کول پاور پراجیکٹ 300میگا واٹ) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 660کلوواٹ کی ایک ٹرانسمیشن لائن میٹاری سے فیصل آباد تک اور 660 کلوواٹ کی ہی دوسری ٹرانسمیشن لائن میٹاری سے لاہور شامل ہے۔توانائی کے دیگر منصوبوں میں بڑا منصوبہ گوادر نواب شاہ LNG پائپ لائن کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

جہاں تک صنعتی زونز کا تعلق ہے تو JCC کے پانچویں اجلاس کے بعد جناب احسن اقبال ، جو پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ کے وفاقی وزیر ہوتے ہوئے سی پیک روح رواں ہیں، نے میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ صنعتی زونز کی تفصیل یوں بیان کی۔ پنجاب میں 7، خیبر پختوا میں 8، سندھ میں 4 اور باقی بلوچستان اور گلگت بلتسان میں ہوں گے۔ اس ’باقی‘ کی تفصیل تلاش بسیار کے بعد ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ جن 19 صنعتی زونز کا انہوں نے ذکر کیا ان کی کیا تفصیلات ہیں۔ ریلوے لائن کے انفراسٹرکچر کے لئے الگ سے 5.5 بلین ڈالر کا اضافہ حال ہی میں ہوا ہے جس میں لاہور کراچی ریلوے لائن(ML-1) کی اپ گریڈیشن اور دو رویہ کرنا شامل ہے اس کے علاوہ حویلیاں ڈرائی پورٹ کا منصوبہ شامل ہے۔

گوادر کے اپنے پراجیکٹس میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر(Construction of Breakwaters،Dredging of Birth Areas & Channels ، Port City Master Plan) وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاہ گوادر ائرپورٹ، ایسٹ بے ایکسپریس وے، ایسٹ بے ایکسپریس وے ٹو، گوادر فری زون، Wastewater Treatment Plant اور پینے کے پانی کے منصوبے شامل ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ گوادر ہسپتال کی اپ گریڈیشن بھی کی جائے گی۔ ایک عدد ٹیکنیکل کالج بنایا جائے گا اور گوادر پرائمری سکول کا تو باقاعدہ افتتاح ہو چکا ہے۔

سی پیک روٹس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ بنیادی مقصد چین کے کاشغر کو گوادر سے ملانا ہے۔گوادر کو کاشغر سے ملانے کے لئے دو روٹ  طے ہوئے ۔ ایک کو مشرقی روٹ(Eastern Route) اوردوسرے کو مغربی روٹ (Western Route ) کہا جاتا ہے۔ مشرقی روٹ(Eastern Route) کی تفصیل یوں ہے کہ یہ خنجراب سے حویلیاں اور برہان تک آئے گا۔ برہان میں سے یہ اسلام آباد لاہور موٹروے میں شامل ہو گا جس کی اپ گریڈیشن سی پیک کے تحت ہی تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔لاہور سے ملتان اور ملتان سے سکھر تک موٹروے M5پر جائے گا ۔ اس میں ایک سیکشن فیصل آباد ملتان M4 کا ہے۔سکھرسے یہ روٹ تقسیم ہو گا۔ ایک جانب یہ روتو ڈیرو سے ہوتے M8 (رتوو ڈیرو،خضدار، بسیمہ، ہوشاب سے گوادر) پر ہوتے ہوئے گوادر پہنچے گا۔ جبکہ دوسری جانب یہ سکھر سے موٹروے M6 حیدر آباد کو ملائے گا اور حیدرآباد سے موٹروے M9پر کراچی پہنچے گا۔ مغربی روٹ (Western Route ) کی تفصیل یوں ہے کہ یہ برہان کے پاس ہکلا سے شروع ہو کر پنڈی گھیپ، اور ترپ سے ہوتے ہوئے میانوالی تک جائے گا۔میانوالی سے رحمانی خیل اور پھر یارک  ( ڈیرہ اسماعیل خان) تک جائے گا۔ڈیرہ سے ژوب، ژوب سے کوئٹہ، کوئٹہ سے سوراب، سوراب سے ہوشاب اور ہوشاب سے گوادر تک جائے گا۔اس کے علاوہ قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن شامل ہے ۔اب صورت حال یوں ہے کہ خنجراب سے حویلیاں تک کی سڑک دونوں مشرقی و مغربی کا حصہ ہے اور ہر حال میں بننی ہے۔ دوسری طرف گوادر سے بسیمہ تک کی سڑک بھی مشرقی و مغربی روٹس کا حصہ ہے جو لازمی بننی ہے۔حویلیاں سے برہان تک ہزارہ موٹروے(59 کلومیٹر) کا پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔

مشرقی روٹ کا برہان سے بسیمہ تک براستہ برہان سے لاہور(427)،لاہور سے ملتان (230)، ملتان سے سکھر(392)، سکھرسے رتو ڈیرو،خضدار(258) خضدار سے بسیمہ(110) تک فاصلہ 1417کلومیٹر بنتا ہے۔لاہور اسلام آباد موٹروے کی اپ گریڈیشن مکمل ہو چکی ہے۔ لاہور ملتان موٹر وے پر ملتان خانیوال سیکشن (45 کلومیٹر)پہلے ہی مکمل ہے۔فیصل آباد ،گوجرا(58 کلومیٹر) مکمل ہے۔خانیوال، شورکوٹ کا بھی افتتاح ہو چکا ہے۔ خانیوال پر ہی یہ کراچی، لاہور موٹروے سے مل جائے گا۔مئی میں وزیراعظم ملتان سکھر موٹروے(387 کلومیٹر) کا افتتاح کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس روٹ کو کراچی سے ملانے کے لئے اگست 2016 میں وزیراعظم سکھر حیدرآباد(296 کلومیٹر) موٹروے کی منظوری دے چکے ہیں۔حیدر آباد ،کراچی ( کلومیٹر136) مارچ 2015 سے زیر تعمیر ہے۔ دوسری طرف گوادر سے بسیمہ براستہ تربت ہوشاب (551کلومیٹر) تقریباََ مکمل ہے ۔ یہی وہ سیکشن ہے جس پر بسیمہ سے مشرقی اور مغربی روٹ الگ ہوں گے۔ادھر بسیمہ اس روٹ کو مشرقی رروٹ سے ملانے کے لئے بسیمہ سے خضدار (110کلومیٹر)تک سیکشن بھی تکمیل کے مراحل میںہے۔خضدار سے شہدادکوٹ (151 کلومیٹر)تک دو لین زیر تعمیر ہے۔ شہداد کوٹ سے رتو ڈیرو (38 کلومیٹر) کے دو لین سڑک کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔یہ سڑک رتوڈیرو سے سکھر پر ملتان سکھر موٹر وے میں شامل ہو جائے گی۔

دوسری طرف مغربی روٹ پر ہکلا سے بسیمہ تک کا فاصلہ کلومیٹر 1124 ہے۔ اس میں ہکلا، یارک (ڈیرہ اسماعیل خان) موٹروے (280 کلومیٹر)کا افتتاح ہو چکا ہے۔ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان سے مغل کوٹ (129 کلومیٹر)،مغل کوٹ سے ژوب (81 کلومیٹر اس کا افتتاح ہو چکا ہے لیکن تاحال کام شروع نہیں ہوا)، ژوب سے کوئٹہ (331 کلومیٹر)، کوئٹہ سے سوراب(213 کلومیٹر) اور سوراب سے بسیمہ (90 کلومیٹر) پر تاحال خاموشی کی چادر تنی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے مغربی روٹ مختصر ہے مگر مشرقی روٹ کو ترجیح دی گئی؟ سوال یہ بھی ہے کہ سی پیک کا بنیادی مقصد کاشغر سے گوادر کو مختصر ترین راستے ملانا اور جلد سے جلد گوادر پورٹ کو فعال بنانا تھا ۔ مشکل مگر یہ کہ ترجیحات کا نقشہ کچھ اور ہے۔ان ترجیحات سے کچھ کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ سچ، جھوٹ اور مفاد کی کچھ کہانیاں ہیں جو اس منصوبے کو متنازع بنا رہی ہیں۔


مکمل سیریز

سی پیک کیا ہے اور گریٹ گیم کیا ہے؟

گریٹ گیم میں گوادر کی اہمیت

سی پیک منصوبہ: یہ ہاتھی کس کروٹ بیٹھے گا؟

سی پیک کو کالاباغ کون بنا رہا ہے؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments