کوئی ذرا ڈان کو صحافت تو سکھا دے


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"ڈان نے اپنے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور مشہور کالم نگار سیرل المیڈا کی خبر لگائی کہ ایک سرکاری خفیہ اجلاس میں کچھ کھٹ پٹ ہوئی ہے۔ حکومت نے اس پر سخت ری ایکشن دیا اور سیرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا۔ اس پر صحافیوں کی تنظیموں، اور تقریباً تمام صحافیوں نے کھل کر سیرل المیڈا کا ساتھ دیا۔ حتی کہ انصار عباسی صاحب تک نے سیرل المیڈا کی خبر پر سوال اٹھانے کو جائز قرار دینے کے باوجود، ان کی حمایت کی۔

ہاں اردو پریس کے بعض افراد نے یہ انکشاف کیا کہ سیرل المیڈا اور ڈان سستی شہرت کے متلاشی دکھائی دیتے ہیں، ورنہ ایسی خبر نہیں لگائی جا سکتی ہے جس کی تصدیق کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو اور خبر دینے والا ذریعہ عدالت میں یا سرِعام اس کی تصدیق نہ کرے۔ وہ حکومت سے بھی متفق دکھائی دے رہے تھے جس نے یہ بیان دیا تھا کہ ڈان نے ”عالمی صحافی اخلاقیات“ کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان افراد کی رائے میں نہ تو سیرل المیڈا کو صحافت کی الف بے آتی ہے اور نہ ہی ڈان کا ادارتی عملہ یہ جانتا ہے کہ صحافت کس چڑیا کا نام ہے۔

حالانکہ یہ معترضین خود بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس نوعیت کی خبر رپورٹر سے ہو کر ایڈیٹر، چیف ایڈیٹر، حتی کہ مالکان سے کلئیر ہونے کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ یعنی ان معترضین کی رائے میں صحافت کا یہ سو دو سو سال کا تجربہ ایک طرف ہے، اور ان معترضین کی حتمی اور ”برحق“ رائے ایک طرف ہے۔

خیر ”عالمی صحافتی اخلاقیات“ پر تو معاصر ”دی نیشن“ نے ایک جارحانہ اداریہ لکھ کر حکومت کو بتا دیا تھا کہ وہ کس درجے کی غلط فہمی کا شکار ہے، لیکن پہلے ڈان کی خبر اور اس کے ایڈیٹر کے موقف کے چند چیدہ پوائنٹس پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ ان معترضین کی ”حمایت“ میں لکھے گئے اپنے اس کالم میں ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ڈان کے ادارتی عملے کو صحافت کی وہ الف بے سکھا سکیں جس سے وہ ناواقف ہیں۔

معترضین کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ خبر کی ان ذرائع کی طرف سے تصدیق نہیں کی گئی ہے جن کا ذکر خبر میں کیا گیا ہے اور تمام فریقین کا موقف نہیں لیا گیا۔

\"cyril-almeida-600x400\"

سیرل لکھتے ہیں کہ ”یہ خبر ڈان کی ان افراد سے گفتگو کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے جو کہ میٹنگ میں موجود تھے۔ ان تمام افراد نے ریکارڈ پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ جن افراد کا نام خبر میں دیا گیا ہے، انہوں نے (خبر میں دیے گئے) اپنے کلمات کی تصدیق نہیں کی ہے (یعنی تردید بھی نہیں کی ہے، کیا معترضین کو ہر شے سمجھانی ہو گی؟)۔ لیکن ڈان سے شیئر کیے گئے بیانات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی اور سویلین آفیشلز کے درمیان تلخی کی فضا دیکھنے میں نہیں آئی ہے“۔ اس کے بعد کئی سرکاری افسران کی رائے بھی درج کی گئی ہے جو انہوں نے ڈان کو بتائی ہے۔ ڈان کو ایک افسر نے تو یہ بھی بتایا ہے کہ ”یہ وہ ہے جس کے لئے ہم ساری زندگی دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ واقعی ہوتا بھی ہے یا نہیں“۔ ایک دوسرے افسر نے نومبر تک انتظار کرنے کے لئے کہا ہے تاکہ پتہ چلے کہ کوئی ایکشن لیا بھی جائے گا یا نہیں۔

خبر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”عسکری حکام نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے“۔

ان سطور سے صاف ظاہر ہے کہ میٹنگ میں موجود بعض سول اور سرکاری عہدیداران سے بات کی گئی ہے، خبر میں جن کا ذکر ہے (غالباً اعزاز چودھری، شہباز شریف اور جنرل رضوان اختر صاحبان کی طرف اشارہ ہے)، ان سے رابطہ کیا گیا تھا مگر انہوں نے تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا ہے لیکن میٹنگ میں موجود بعض دوسرے افراد نے نام نہ دینے کی شرط پر اس کی تصدیق کی ہے۔

خبر پر حکومت کی تردیدیں آنے اور سیرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جانے کے بعد ڈان کے ایڈیٹر نے خبر کی مکمل ذمہ داری خود پر لیتے ہوئے کہ ہے کہ ”ڈان اخبار سمجھتا ہے کہ اس نے خبر پر پیشہ ورانہ انداز میں کام کیا اور ایک سے زائد ذرائع سے تصدیق کے بعد ہی خبر کی اشاعت ہوئی۔ مصدقہ، جانچ پڑتال کے بعد اور حقائق کی تصدیق سے سامنے آنے والی اس خبر کے محافظ کے طور پر اخبار کے ایڈیٹر اس کی تنہا ذمہ داری اٹھاتے ہیں“۔

\"dawn-2\"

اگر خبر اور ڈان کے اداریے میں موجود ان واضح ترین الفاظ کے باوجود کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ڈان نے خبر کو تصدیق کیے بغیر اور خبر میں موجود افراد کا موقف لئے بغیر لگایا ہے، تو اس شخص کو نہایت غور سے اس خبر اور اداریے کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

ایک اعتراض یہ ہے کہ ”جن افراد سے یہ خبر منسوب کی جا رہی ہے، ان کا نام کیوں نہیں دیا گیا۔ اگر کل کو عدالت میں جانا پڑے تو کیا ڈان اس خبر کی تصدیق میں ثبوت دے سکتا ہے؟“

میدان صحافت میں کام کرنے والے ان افراد کو اگر ”صحافی کے سورس کے تحفظ“ جیسی بنیادی چیز کا ہی علم نہیں ہے، تو ہم ان پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔

پہلے ایک بنیادی بین الاقوامی معاہدے کی ایک شق پڑھتے ہیں۔ سولہ دسمبر سنہ 1966 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ”عالمی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق“ منظور کیا۔ اس پر پاکستان نے سترہ اپریل 2008 کو دستخط کیے۔ اس کی منظوری تئیس جون 2010 کو دی گئی۔ اور اسے تئیس ستمبر 2010 سے پاکستان میں نافذ العمل کر دیا گیا۔ یہ انسانی حقوق کے عالمی بل کا ایک حصہ ہے۔ اس کا آرٹیکل نمبر 19، آزادی اظہار کو یقینی بناتا ہے۔ آزادی اظہار کا ایک جزو پریس کی آزادی بھی ہے۔

پریس کی آزادی کی ایک اہم شق، ”خبر کے ذرائع“ کے تحفظ کو بتایا گیا ہے۔ پریس اپنی خبروں کے حصول کے لئے عام افراد پر ایک بڑی حد تک انحصار کرتا ہے۔ یہ افراد عام طور پر اپنا نام دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ایسی معلومات دیتے ہیں جو کہ خفیہ یا حساس نوعیت کی ہوتی ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ایسی اطلاعات، خاص طور پر کرپشن، حکومتی نااہلی، جرائم پیشہ مافیا وغیرہ کے متعلق معلومات، عوام کے سامنے لائی جانی چاہئیں۔ ان افراد کے لئے ذاتی تحفظ پہلی شرط ہوتا ہے جو کہ انہیں گمنامی سے ہی مل سکتا ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سورس کے نام سے خبر دینا بہتر ہے۔ اگر خبر کے ماخذ کا علم ہو تو پڑھنے والا اس کی کریڈیبلٹی، مقصد اور خاص طور پر اس کے وجود کی بنیاد پر خبر کے قابل اعتبار ہونے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ لیکن گمنام ذرائع کی اہمیت کو جانتے ہوئے بین الاقوامی قانون ساز اداروں اور عدلیہ نے ان کے تحفظ کے لئے قوانین تشکیل دیے ہیں تاکہ وہ خبریں بھی عوام تک پہنچ سکیں جو کہ دوسری صورت میں ان ذرائع کی ذات کو پہنچنے والے خطرے کی بنا پر دفن کر دی جائیں گی۔ یہ پہلو ”پروٹیکشن آف سورس (ذرائع کا تحفظ)“ کو آزادی اظہار کے ایک جزو کے طور پر لئے جانے کا باعث بنا ہے۔

اس معاملے میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں پیش کئے جانے والے مقدمے، گڈون بمقابلہ برطانیہ کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا جاتا ہے۔ یورپی کورٹ نے قرار دیا کہ کسی صحافی سے اس کے ذریعے کو ظاہر کرنے کا مطالبہ، اس کے معلومات حاصل کرنے اور فراہم کرنے، اور اس وجہ سے آزادی اظہار کا حق ختم کرنے کا باعث ہو گا۔ کورٹ کے مطابق یہ جمہوریت کے لئے ضرر رساں ثابت ہو گا، اور اسی وجہ سے یہ بہت ہی خاص مواقع پر استعمال کیا جانا چاہیے۔

سورس کو تحفظ دینے کا حق، یورپی پارلیمان اور دوسرے یورپی ادارے، انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اور بیشتر جمہوری ممالک تسلیم کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ بین الاقوامی قوامین میں یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ صحافی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خبر کے ذرائع کو چھپا سکے۔

بعض خاص ترین حالات میں اعلی ترین عدالتی حکم پر صحافی کو اس حق سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ دستبرداری کا عدالتی حق، بہت ہی خاص حالات میں انسانی جان کو بچانے، کسی بہت بڑے جرم کو سرزد ہونے سے پہلے روکنے، یا کسی ایسے شخص کے دفاع کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس پر کسی بہت سنگین جرم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہو۔ اس حق کا مطالبہ صرف ان اداروں کی طرف سے کیا جا سکتا ہے جو کہ دوسرے تمام ذرائع سے خبر کا ذریعہ معلوم کرنے میں ناکام ہو چکے ہوں۔

لیکن ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جب کسی صحافی نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزادی صحافت کی خاطر اپنے سورس کا نام بتانے سے انکار کر کے خود سزا قبول کی ہو اور ایسے صحافیوں کو ان کی برادری میں بہت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

پاکستان نے عالمی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اس مقصد کے لئے قانون سازی کی کوشش کی ہے۔ پہلی مرتبہ ”جرنلسٹ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر ایکٹ 2011“ پیش کیا گیا۔ اس کی ایک اہم شق کچھ یوں ہے کہ ”صحافیوں کو اپنی خبر کے ذرائع بتانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو کہ قومی سلامتی کے متعلق ہوں تو اور ذرائع بتانے کا مطالبہ کیا جائے، تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس یہ حق ہو گا کہ وہ ذرائع کے بارے میں معلوم کر سکے لیکن اسے عام نہیں کیا جائے گا“۔

دوسری مرتبہ ”پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ 2014“ پیش کیا گیا۔ شق تین کی سرخی ہے ”صحافیوں کا اپنے ذرائع بتانے سے بچانے کا تحفظ“۔ آگے لکھا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کے امور کے سوا صحافیوں کو ان کی خبر کا سورس بتانے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس (ہی) یہ اختیار ہو گا کہ وہ ان ذرائع کے بارے میں معلوم کر سکے“۔

یہ قانون پارلیمان میں اسی وجہ سے لٹکا ہوا ہے کہ صحافی کے سورس کو جاننے کے لئے صرف سپریم کورٹ کو یہ اختیار دینے کو کوئی حکومت تیار نہیں ہے۔ عدالت کو یہ اختیار دینے سے انتظامیہ کی زور زبردستی کی صلاحیت کند ہو جاتی ہے۔

حکمرانوں کو اس صحافتی حق سے کیا تکلیف پہنچتی ہے؟ آئیے چلتے ہیں امریکہ کے ایک بااختیار اور تاریخ کے ایک اہم ترین صدر کے قصے کی طرف۔ قصہ طویل ہے مگر مختصراً بیان کرتے ہیں۔

\"richard-nixon\"

سترہ جون 1972 کو پانچ افراد کو حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی گورننگ باڈی کی واٹر گیٹ نامی عمارت میں نقب زنی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ تحقیقات شروع ہوئیں۔ ان کو روکنے کی صدر رچرڈ نکسن کے وہائٹ ہاؤس کی طرف سے کوششیں کی جاتی رہیں۔

آخر واشنگٹن پوسٹ کے باب وڈورڈ اور کارل برنسٹین نامی دو صحافیوں کو ایک ایسا خفیہ ذریعہ ملا جسے انہوں نے ڈیپ تھروٹ کا نام دیا۔ اس نے ان کو تحقیقات اور ان کو روکنے کے متعلق خفیہ معلومات کی فراہمی جاری رکھی۔

آخر کار یہ بات ثابت ہونے لگی کہ صدر نکسن اور ان کے مشیر ان کے دوبارہ الیکشن کی خاطر مخالف پارٹی کی الیکشن مہم کی آگاہی چاہتے تھے اور صدر کی الیکشن مہم کے فنڈز سے ان نقب زنوں کو ادائیگی کی جاتی رہی۔

باب وڈورڈ اور کارل برنسٹین ، ڈیپ تھروٹ اور دیگر خفیہ صحافتی ذرائع کی مدد سے ثبوت سامنے آتے رہے۔ بالآخر چھے فروری 1974 کو ایوان نمائندگان نے صدر کے مواخذے کی کارروائی شروع کر دی۔ صدر کا موقف یہ تھا کہ وہ اس معاملے سے بے خبر تھے۔ لیکن پھر پانچ اگست 1974 کو ایک ٹیپ سامنے آ گئی جس سے علم ہوا کہ وہ اس معاملے کی جون 1972 سے خبر رکھتے تھے اور اس کو دبانے کی کوششوں میں شامل تھے۔

صدر نکسن سینیٹ میں اپنے حامی کھو بیٹھے اور ان کا مواخذہ یقینی ہو گیا۔ انہوں نے استعفی دے دیا۔ انہوں نے آٹھ اگست 1974 کو استعفی دیتے ہوئے کہا کہ ”اپنی عوامی زندگی میں میں نے جو بھی فیصلے کیے، میں نے کوشش کی کہ وہ بہترین قومی مفاد میں ہوں۔ واٹر گیٹ سکینڈل کے طویل اور مشکل ترین دور میں میرا یہ احساس رہا کہ یہ میرا فرض ہے کہ ڈٹا رہوں اور اپنی وہ ٹرم پوری کروں جس کے لئے آپ نے مجھے منتخب کیا تھا۔ لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ امریکہ کو اس اندرونی اور بیرونی مشکلات کے دور میں میں ایک فل ٹائم کانگریس اور صدر کی ضرورت ہے۔ مجھے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے درکار وقت میں صدر اور کانگریس دونوں کا قیمتی وقت اور توجہ درکار ہو گی۔ اس لئے میں صدارت سے استعفی دے رہا ہوں جو کہ کل دوپہر سے نافذ العمل ہو گا۔ اس وقت نائب صدر فورڈ صدارت اس کمرے میں صدارت کا حلف اٹھا لیں گے“۔

فورڈ صدر بن گئے۔ انہوں نے نکسن کو صدارتی معافی دے دی تاکہ ان کو کوئی سزا نہ ہو سکے۔

صحافیوں باب وڈورڈ اور کارل برنسٹین کا خفیہ ذریعہ ”ڈیپ تھروٹ“ اس سکینڈل کے تقریباً تیس سال بعد سنہ 2005 میں ظاہر ہوا۔ وہ اس دور کا ایف بی آئی کا ڈپٹی ڈائریکٹر ولیم مارک فیلٹ تھا۔

اس سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ پریس کو نظامِ جمہوریت کا چوتھا ستون کیوں کہا جاتا ہے اور باقی تین ستونوں، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کو یہ کس طرح عوام کے سامنے جوابدہ بناتا ہے۔

آپ کو اس بات کا بھی علم ہو گیا ہو گا کہ بین الاقوامی عدالتیں اور ادارے یہ کیوں کہتے ہیں کہ ذرائع کو خفیہ رکھنے کا حق صحافیوں سے چھِیننا جمہوریت کے لئے ضرر رساں ہے۔

امید ہے اب آپ کو اس بات کا علم بھی ہو گیا ہو گا کہ ملک کے سینئیر اور معتبر ترین صحافیوں پر مشتمل ڈان کے ادارتی بورڈ نے یہ خبر کیوں دی تھی، اور اس کا موقف کیوں درست ہے کہ یہ صحافی اخلاقیات کے عین مطابق ہے۔

معترضین کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ڈان کو صحافت سکھانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ان کو خود صحافت سیکھنے کی ضرورت ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments