آسیہ بی بی کو انصاف کب ملے گا؟


\"asia-bibi-2\"پاکستان کے حوالے سے دنیا بھر میں آج جو خبر گردش کررہی ہے اور پڑھی جارہی ہے ، وہ ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کا ملتوی ہو نا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں ڈان کی خبر اور اس پر حکومت کا ردعمل اور فوج اور حکومت کے ممکنہ اختلافات، سی پیک کی حمایت یا مخالفت، بھارت کے ساتھ جنگ کے امکانات، پاکستانی اداکاروں کے خلاف بھارتی انتہا پسندوں کی مہم جوئی اور مقبوضہ کشمیر میں جاری عوام کی جد وجہد اہم ترین موضوعات ہیں۔ کسی ملک کے حوالے سے دنیا میں پڑھی جانے والی خبروں سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک کی کون سی شبیہہ زیادہ قابل توجہ ہے۔ آسیہ بی بی کے حوالے سے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ سپریم کورٹ میں اس اپیل کے التوا کے بعد یہ تاثر قوی ہؤا ہے۔

سپریم کورٹ میں اس اہم اور ضروری مقدمہ کی سماعت مؤخر کرنے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ سماعت کرنے والے بینچ میں ایک ایسے جج شامل تھے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر سابق گورنر سلمان تاثیر کے مقدمہ قتل کی سماعت کرچکے تھے ۔ اس لئے انہوں نے آسیہ بی بی کی اپیل کرنے والے بینچ میں شامل ہونے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ یہ ایک معقول وجہ ہو سکتی ہے۔ لیکن عدالت عظمی کے نظام کی پیچیدگیوں کو نہ جاننے والا عام شہری ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہو گا کہ کیا متعلقہ فاضل جج کو وقت سے پہلے اس بات کا علم نہیں تھا۔ یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مقدمہ کی سماعت سے پہلے جج حضرات معاملہ کی دستاویزات پڑھ کر اور معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی سماعت کا آغاز کرتے ہوں گے۔ کیا یہ فاضل جج اس موقع پر عدالت کے رجسٹرار یا چیف جسٹس کو اس بارے میں مطلع نہیں کر سکتے تھے۔ اور اگر ایسا نہیں ہؤا تھا تو مختلف بینچوں میں ججوں کا تعین کرنے والا انتظامی عملہ بھی، کیا اس قدر بے خبر تھا کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کون سا جج اس معاملہ کی سماعت نہیں کر سکے گا۔

سات برس سے آسیہ بی بی ایک ایسے الزام میں قید ہے اور اسے موت کی سزا سنائی گئی ہے، وہ جس سے انکار کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ توہین رسالت کی مرتکب نہیں ہوئی تھی۔ اس کے خلاف مقدمہ میں حقائق کو نظر اندز کیا گیا اور کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر سزا سنا دی گئی تھی۔ اس التوا کے بعد آسیہ بی بی کو نہ جانے اب مزید کتنا عرصہ مزید حتمی فیصلہ کا انتظار کرنا پڑے۔ اس دوران دنیا بھر میں پاکستان کے عدالتی نظام ، ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مظالم اورمعاشرے میں انتہا پسند مذہبی گروہوں کی طاقت کے بارے میں مباحث ہوتے رہیں گے۔

2010 میں ضلع ننکانہ کی ایک عدالت نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا دی تھی۔ گزشتہ برس لاہور ہائی کورٹ نے اس کے خلاف اپیل کو مسترد کردیا تھا۔ آسیہ بی بی کی طرف سے گزشتہ برس جولائی میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی۔ پندرہ ماہ انتظار کے بعد اس کی سماعت ہونا تھی لیکن اسے عین سماعت کے روز ملتوی کردیا گیا۔ اس مقدمہ کی اہمیت اس لئے بھی دو چند ہے کہ سپریم کورٹ پہلی بار توہین مذہب کی شق 295 سی کے تحت دی گئی سزا پر غور کرے گی۔ یہ شق 25 برس قبل قانون کا حصہ بنائی گئی تھی اور اس کے تحت توہین مذہب پر موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ تاہم پاکستان میں اس قانون پر عمل درآمد سے زیادہ اس بات پر تشویش موجود ہے کہ متعدد معاملات میں ذاتی جھگڑے نمٹانے کے لئے توہین مذہب کا جھوٹا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ لیکن عدالتیں مذہبی گروہوں کے دباؤ کی وجہ سے قانون کے تقاضے پورے کرنے اور حقیقی معنوں میں انصاف فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہیں اور انہیں گروہی مطالبے کے مطابق ہی فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔

سابق گورنر سلمان تاثیر کی وجہ سے بھی آسیہ بی بی کے معاملہ کو شہرت حاصل ہوئی ہے۔ مرحوم گورنر نے توہین مذہب کے قانون کے غلط نفاذ پر احتجاج کرتے ہوئے آسیہ بی بی کو انصاف دلوانے کی بات کی تھی۔ ان کے اس بیان پر مشتعل ہو کر ان کے ایک گارڈ ممتاز قادری نے جنوری 2011 میں انہیں قتل کردیا تھا۔ مذہبی جماعتوں کے پر زور احتجاج کے باوجود قادری کو اس سال کے شروع میں پھانسی کی سزا دے دی گئی تھی۔

ملک کے نظام عدل کے حوالے سے اکثر بات ہوتی رہتی ہے۔ معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح عدالتی نظام پر بھی سوالیہ نشان ہیں اور عام طور سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ ملک کی عدالتوں سے صرف دولتمند ہی ’انصاف‘ حاصل کرسکتے ہیں۔ عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ سے اس نظام میں دوررس اصلاحات کی توقع کی جارہی تھی، جو پوری نہیں ہو سکی۔ تاہم یہ امید تو کی جا سکتی ہے کہ سپریم کورٹ ایسے معاملات پر سرعت سے غور کرتے ہوئے جلد فیصلے سنائے جن میں کوئی فرد ملوث ہو یا کسی انسان کی زندگی اور موت کا معاملہ ہو۔ گزشتہ دنوں ایک خبر کا چرچا رہا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ نے ایک ایسے شخص کو 19 برس بعد موت کے الزام سے بری کیا تھا ، جو دو برس قبل انصاف کا انتظار کرتے کرتے جیل ہی میں انتقال کرگیا تھا۔

آسیہ بی بی کا معاملہ سپریم کورٹ کا اہم امتحان ہے۔ پوری دنیا کی آنکھیں اس مقدمہ پر لگی ہوئی ہیں۔ عدالت کو ایک ایسی شق کی تشریح کرنا ہو گی جس کے متنازع استعمال سے متعدد لوگ ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کو جلد از جلد فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ پانی پینے پلانے کے معمولی جھگڑے کا معاملہ ہے یا توہین رسالت اصل میں سرزد ہوئی ہے۔ دونوں صورتوں میں آسیہ بی بی کو اس کے جرم کے مطابق فیصلہ کر کے جلد از جلد انصاف کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments