بلوچ اہلِ دانش کے خلاف نئی چارج شیٹ


\"wahidپاکستان کے ایک معروف انگریزی روزنامہ نے سیکورٹی اہلکاروں کے حوالے سے 10 اکتوبر 2016 کو ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ کے مطابق کالعدم بلوچ تنظیموں نے پروپیگنڈے کے لیے کراچی اور بالخصوص لیاری کو اپنا مرکز بنایا ہوا ہے۔ اہلکاروں کے مطابق کراچی کے بعض بلوچ اس حوالے سے سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اخبار نے اہلکاروں کے نام ظاہر کیے ہیں، نہ ہی مذکورہ بلوچوں کے۔ اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ یہ رپورٹ ان تمام بلوچوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جو میڈیا سے منسلک ہیں اور مختلف مسائل پر اپنا مؤقف پیش کررہے ہیں یا پبلشنگ وغیرہ سے وابستہ ہیں۔

یہ رپورٹ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی مذکورہ اخبار کی صحافتی ذمہ داریوں کی مظہر ہے بلکہ اس کا کامریڈ واحد بلوچ کی جبری گمشدگی اور اس کے گرد ابھرنے والی تحریک سے براہِ راست تعلق ہے۔ بظاہر حکام کی فرمائش پر شائع کی گئی اس رپورٹ کا وسیع تناظر میں جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کو دو چیلنجز کا سامنا رہا۔ ایک مذہبی شدت پسندی کا اور دوسرا بلوچ قوم پرستی کا۔ شدت پسند مذہبی تنظیموں کے حوالے سے عسکری اسٹبلشمنٹ دو واضح حصوں میں منقسم تھی، یہ تقسیم کنٹرولڈ میڈیا پر بھی منعکس ہوئی، تقسیم اور انعکاس تاحال برقرار ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے حوالے سے عسکری اسٹیبلشمنٹ میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتیں اس لیے میڈیا کا غالب حصہ بھی اس موضوع پر متفق دکھائی دیتا ہے۔ بلوچ مسئلے کو اوائل سے ہی چند سرداروں کے ذاتی مفادات اور ان کے عالمی و علاقائی طاقتوں سے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ میڈیا پروپیگنڈے کے باعث پاکستانی عوام کی اکثریت اور بالخصوص عسکری اسٹیبلشمنٹ کی تشکیل میں مقداری و کیفیتی برتری رکھنے والے خطوں نے وہی بیانیہ مرتب کرلیا جو مقتدرہ مرتب کروانا چاہ رہی تھی۔

بلوچ دانش وروں و اہلِ علم نے اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کے لیے متبادل میڈیا کی تلاش شروع کردی۔ روزنامہ بلوچستان ایکسپریس، روزنامہ آزادی، اور روزنامہ انتخاب سے امیدیں باندھی گئیں مگر چوں کہ ان اخبارات کو اشتہاراتی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا اسلیے وہ کھل کر بلوچ بیانیے کی حمایت میں رائے عامہ ہموار کرنے سے قاصر رہے۔ یہاں سے ناامید ہوکر دیگر ذرائع پیدا کیے گئے۔

روزنامہ آساپ (مرکزی دفتر کوئٹہ)، روزنامہ استمان (مرکزی دفتر خضدار) اور روزنامہ توار (مرکزی دفتر کراچی) کا اجرا عمل میں لایا گیا۔ یہ تینوں ادارے سرکاری و ریاستی سرپرستی سے محروم تھے اور چوں کہ ان کا مطمح نظر کاروباری سے زیادہ مقصدی تھا اس لیے ان کو اشتہارات کے ضمن میں بلیک میل کرنا ممکن نہ تھا۔ روزنامہ استمان ، مالی مسائل کا شکار ہوکر چند برس بعد بند ہو گیا۔ توار اور آساپ مسلسل کام کرتے رہے۔

\"mama-jamal-wahid\"باقی ماندہ دونوں اداروں کو دھمکی آمیز پیغامات اور ان میں کام کرنے والے افراد کو ذہنی ٹارچر کرکے بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ روزنامہ آساپ تو متعدد روز تک محاصرے میں رہا۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد انتہائی قدم اٹھاکر روزنامہ آساپ کے ایڈیٹر ان چیف، بلوچی زبان کے قدآور ادیب اور ریٹائرڈ اعلی سرکاری افسر، جان محمد دشتی پر کوئٹہ میں قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں گوکہ ان کی جان بچ گئی مگر قاتل گولیوں نے ان کی ادارتی صلاحیت چھین لی نتیجتآ ان کی ادارت میں شائع ہونے والا روزنامہ آساپ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

روزنامہ توار کا دفتر کراچی کے مصروف ترین علاقہ، آئی آئی چندر ریگر روڈ کے عقب میں واقع تھا۔ پہلے دفتر کے دروازے پر موت کی دھمکی نقش کی گئی۔ جب کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو ایک دن چند افراد دفتر میں گھس آئے اور قتل کی دھمکیاں دے کر چلے گئے۔ خطرہ دیکھ کر دفتر لیاری کے علاقے چاکیواڑہ میں شفٹ کیا گیا۔

روزنامہ توار کے ادارتی پیج کے انچارج جاوید نصیر رند جوکہ کراچی سے متصل شہر حب کے رہائشی تھے، کو ان کے گھر کے قریب سے گرفتار کرکے لاپتا کیا گیا۔ چند مہینوں بعد خضدار شہر کے مضافات سے ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔ اس کے بعد اخبار کے سب ایڈیٹر حاجی رزاق بلوچ کو لیاری سے اغوا کیا گیا۔ ان کی لاش بھی چند مہینوں بعد انتہائی بری حالت میں کراچی کے مضافات سے برآمد ہوئی۔ علاوہ ازیں خضدار، مچھ، مستونگ وغیرہ کے رپورٹرز بھی یکے بعد دیگرے قتل ہوتے گئے۔ ایک دن صبح سویرے لیاری میں واقع دفتر پر دھاوا بولا گیا۔ بند دفتر کے تالے توڑ کر سامان کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ تمام کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈسک نکال لی گئیں اور اخباری ریکارڈ نذرآتش کیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد اخبار کے ایڈیٹر اور براہوی زبان کے معروف ادیب و دانش ور خادم لہڑی منظر عام سے ہٹ گئے۔ نتیجتاً اخبار کو بھی بند ہونا پڑا۔

پاکستان کے مختلف پرنٹ و الیکٹرونک اداروں سے منسلک بلوچ صحافی بھی غیظ و غضب کا نشانہ بنے۔ تربت میں روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹر رزاق گل بلوچ ہدف بنا کر قتل کیے گئے۔ نیوز ایجنسی آن لائن کے کوئٹہ میں بیورو چیف ارشاد مستوئی کو ان کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ روزنامہ انتخاب گوادر کے رپورٹر لالا حمید بلوچ گوادر میں پہلے لاپتا ہوئے اور پھر مسخ شدہ لاش کی صورت واپس ہوئے۔

بلوچستان میں اردو میڈیا کو نشانہ بنانے کے بعد بلوچی ادب پر گھیرا تنگ کرنے کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ جان دشتی چوں کہ بلوچی ادب میں نمایاں مقام رکھتے تھے اس لیے ان پر ہونے والے حملے نے بلوچی ادب کو ہلا کر رکھ دیا۔ تاہم ادب اس حملے کو سہار گیا لیکن اس کے بعد بلوچی ادب کی ایک اور اہم شخصیت پروفیسر صبا دشتیاری \”نامعلوم\” افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

دو اہم ترین دانش وروں پر قاتلانہ حملوں نے زبان و ادب سے منسلک اداروں اور افراد میں سراسیمگی کی لہر دوڑا دی۔ بلوچی زبان کے متعدد ادبا جیسے ڈاکٹر حنیف شریف، ڈاکٹر ناگمان، منظور بسمل، تاج بلوچ، قاضی داد محمد ریحان و دیگر نے جان کے خوف سے جلاوطنی اختیار کرلی۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے شاعر رحمان عارف، پسنی کے پیرانہ سال شاعر نصیر کمالان پہلے لاپتا ہوئے پھر مسخ لاش بن کر بازیاب ہوئے۔

اس صورت حال نے بلوچی ادب پر منفی اثرات مرتب کیے۔ زبان و ادب پر موت کے پہرے لگا دیے گئے۔ صورتحال بد سے بدتر تو ہوئی لیکن تخلیق کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح برقرار رہا۔ اس سلسلے کو توڑنے کے لیے مکران کے شہروں بالخصوص گوادر اور تربت میں بلوچی کتابوں کی خرید فروخت پر پابندی لگادی گئی۔ دوکاندار گرفتار کرکے ایف سی کیمپ لے جائے گئے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر آئندہ کتاب بیچنے سے منع کیا گیا۔

کراچی کے علاقے ملیر میں واقع حوالہ جاتی لائبریری، سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کی کھڑکیاں توڑ کر لائبریری کے کمپیوٹر توڑ دیے گئے۔

کامریڈ واحد بلوچ اسی لائبریری کے منتظمین میں سے ہیں۔ کامریڈ واحد بلوچ بلوچی کتابیں شائع کرنے اور ان کی تقسیم بندی جیسے کام بھی کررہے تھے سو یقینا وہ بھی اس پورے آپریشن کی راہ میں کانٹا گردانے گئے۔ کامریڈ کو یقیناً اس خطرے کا ادراک ہوچکا تھا لیکن اپنی فطری سادگی کے باعث وہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر رہے۔

چھبیس جولائی کو وہ بھی جبری طور پر لاپتا کیے گئے۔ خوش قسمتی سے ان کی صاحبزادی اور چند دوستوں نے فوری طور پر اس اہم انسانی مسئلے کو اجاگر کرنا شروع کردیا۔ پاکستان بھر سے مختلف علم دوست افراد ان کے ساتھ جڑتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ آواز توانا ہوتی گئی۔

جیسے جیسے آواز توانا ہوتی گئی ویسے ویسے بقول کامریڈ ریاض احمد خوف کے بادل چھٹنے لگے۔ دہشت زدہ کرنے والی پالیسی کارگر نہ رہی تو اب مذکورہ اخباری رپورٹ کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کامریڈ واحد بلوچ کا مسکن لیاری ، دراصل کالعدم تنظیموں کا مرکز ہے۔

کامریڈ واحد بلوچ آج سے نہیں بلکہ 80 کی دہائی سے کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ انہوں نے پہلی دفعہ بلوچی زبان کے نامور شاعر عبدالواحد آزات جمالدینی کا شعری مجموعے \”مستیں توار\” شائع کرکے اس کام کا آغاز کیا۔ عبدالواحد آزات جمالدینی کے نام سے ایک ادبی ادارہ قائم کرنے کے بعد وہ اسی کاز کو آگے بڑھاتے رہے۔ نوے کی دہائی میں انہوں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے فنانس سیکریٹری غلام فاروق بلوچ کی اعانت و سرپرستی میں بلوچی رسالے ماہنامہ \”بلوچی لبزانک\” کا اجرا کیا۔ حوالہ جاتی لائبریری کے قیام اور دیکھ بھال میں پیش پیش رہے۔

کامریڈ واحد بلوچ کی پہچان ایک کتاب دوست کی رہی ہے ان کو ملک دشمن سرگرمیوں سے جوڑنا سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ مقصد صرف نوجوان ہاتھوں سے قلم چھیننا ہے۔

موقر اخبارات کا سرکاری پروپیگنڈے کا ساتھ دینا صحافت اور علم پر حملے میں شریک ہونے کی علامت ہے۔ یہ ان کے صحافیانہ معیار پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ آیا وہ زبان و ادب پر پابندی کو درست تسلیم کرتے ہیں؟ زبان و ادب کی ترقی و ترویج کا عمل ان کے نزدیک دہشت گردی ہے؟ اگر ہاں تو یہ پاکستانی صحافت کا جنازہ ہے، جسے دھوم سے نکلنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments