کہانی ایک نفیس نفس کی …. بات دل کے ستار کی


\"muhammadآج ہم آپکی ملاقات ایک ایسے گھرانے دار کلا کار سے کروانے جا رہے ہیں جو کبھی بھی اپنی تعریف خود نہیں کرتا اور نہ ہی دوسروں کو چھوٹا ثابت کرتا ہے اپنا قد بڑھانے کے لئے  ۔ آجکل ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اپنی بھونڈی موسیقی یو ٹیوب پر ٹنوں کے حساب سے لوڈ کر رہا ہے۔ مگر اس بڑے فنکار کی چند ہی چیزیں آپکو انٹر نیٹ پر ملیں گی اور وہ بھی مختصر دورانیے کی۔ حالانکہ کام کے حساب سے ان کی بے شمار چیزیں موجود ہونی چاہیں تھیں۔ ہم اپنی زندگی کے 26 برس موسیقی اور موسیقاروں کے درمیان گزارنے کے بعد یہ بات لکھنے پر مجبور ہیں کہ ان کا شمار اُن گنے چنے سچے فنکاروں میں ہوتا ہے جوواقعی سُر اور تال کے بھگت ہیں۔ اور اِن بھگتوں میں بھی صرف چند وہ جنہوں نے اپنے آپ کو خوشامد ، خود پسندی، غرور، تکبر جیسی خطرناک بیماریوں سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ نام ہے نفیس احمد، پاکستان کے مایہ ناز ستار نواز۔ اپنے نام کا حق ہمیشہ ادا کیا۔ مزاج میں نفاست، گانے بجانے میں نفاست، گفتگو میں نفاست، شخصیت کے ہر پہلو میں نفاست۔ یہ لفاظی نہیں سچ ہے۔ جب ان سے ملیں گیں تو احساس ہو جائے گا۔

ان سے پہلا تعارف اپنے سرود نواز دوست اسد قزلباش کی وساطت سے ہوا۔ اسد بھائی نفیس کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ کہتے تھے: ’نفیس بہت لے کار آرٹسٹ ہے۔‘ ایک دن اسد نے ہماری خاطر نفیس بھائی کو ان کے گھر سے لیا (اسد G-9/1میں اور نفیس کمیٹی چوک راولپنڈی) ۔ یہ بہت بڑا فاصلہ تھا۔ پھر ڈراپ بھی کرنا تھا۔ اسد کے پاس سوزوکی FXہوا کرتی تھی۔ نفیس بھائی نے راگ کروانی کا الاپ ، جوڑ اور جھالا کیا۔ ہمارے لیئے یہ انتہائی عظیم اعزاز تھا۔ اتنا بڑا آرٹسٹ ہم جیسے احمق جاہل کے لئے  اتنی دور سے آیا اور صرف ہمارے لئے بجا رہا ہے۔ اس کروانی کا اثر ہم آج بھی اپنی یادوں میں محسوس کرتے ہیں۔ انتہائی سریلا، پرسوز، غم میں ڈوبا ہوا جیسے میٹھا گداز۔ طبلے والا کوئی نہیں تھا لیکن طبلے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہونے دی۔ کچھ ایسے ڈھنگ سے چھیڑا کروانی!

اسکے بعد نفیس بھائی کو صرف تین بار روبرو سنا۔ آخری پرفارمنس اسلام آباد میں 2008 میں\"nafees\" SECPکے ہال میں سنی۔ تاری ان کے ساتھ طبلے پر تھا۔ پونے پانچ ماترے راگ چار وکیشی اور ہر جگہ چلت پھرت! کیا حسین شام تھی! اب وہ رونقیں کہاں۔ تاری نے حسبِ عادت ایڑی چوٹی کا زور لگایا انہیں بے تال کرنے کا مگر کچھ نہ بگاڑ سکا! یہ ہماری بدنصیبی کہ انہیں زیادہ نہیں سن سکے۔ لیکن جب بھی سنا اتنا ضرور معلوم پڑا کہ یہ ایک منفرد باج ہے۔ یہ ولایت خان نہیں۔ یہ شریف خان نہیں، یہ روی شنکر نہیں، یہ رئیس خان بھی نہیں۔ یہ روائتی بھی نہیں۔ یہ کچھ اور ہی ہے۔ یہ کسی سے نہیں ملتا ۔ طافو کے طبلے کی طرح منفرد ہے مگر بزرگوں کے اصولوں کے منافی نہیں ۔ اس زمانے میں ہم نے موسیقی سیکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ نفیس بھائی کے ستا ر کوصحیح طرح پہچاننے کے لئے  ہماری رہنمائی کی ہمارے رہبر پروفیسر شہباز علی نے جو ان کے بچپن کے دوست ہیں۔ اگر ہم شہباز بھائی کے شاگرد نہ ہوتے تو نہ ہمیں ’سا رے گا ما‘ کا پتہ چلتا نہ نفیس کے ستار کا۔ بقول شہباز بھائی: ’نفیس ایک بہت ہی لے کار فنکار ہیں۔ ستار پر گائیکی انگ بجانا ان پر ختم ہے۔ گائیکی چاہے فلمی ہو یا کلاسیکل، ان میں یہ انگ بجانے کی صلاحیت فطری ہے۔ یہ گانے والے کے بول کو بیس گنا زیادہ خوبصورت فی البہدیہ بجا کر اس کا کام نکھار دیتے ہیں۔ اور لے کاری ان پر ختم ہے۔ ‘

شہباز بھائی یہ بھی اعتراف برملا کرتے ہیں کہ نفیس کی بدولت انہیں اپنے کام کا تنقیدی جائزہ لینے کا موقع ملا جس کی وجہ سے یہ مزید بہتر ہوا۔ ان کے بارے میں چند باتیں بہ زبانِ پروفیسر شہباز:

’نفیس ریڈیو پنڈی میں سرکاری ملازم تھے بطور سٹاف آرٹسٹ۔ کئی برس کے بعد نوکری سے استعفیٰ دیا اور امریکہ چلے گئے۔ یہ پابند ہو کر نہیں رہ سکتے تھے۔ یہ ستار نواز ہونے کے علاوہ بہترین گانا بھی گاتے ہیں۔ گلے سے ہر قسم کی تان یا بول کہہ سکتے ہیں۔ طبلہ کی تربیت بھی لی ہے۔ جب ہی تو لے کار بھی ہیں۔ ان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پنڈی کو ہر بلب بنا دیا اپنے والد کی برسی منا کر ۔ تقریباً بارہ یا چودہ برس مسلسل برسی منائی اور پاکستان کے چوٹی کے فنکاروں نے ان برسیوں میں بلا معاوضہ گایا بجایا۔ حکومتی اداروں نے ان برسیوں میں کوئی سرپرستی نہیں کی سوائے اس کے کہ مفت میں ہال اور صوتی سسٹم دے دیا۔ ہر برسی دو دن کی ہوتی تھی۔ پہلے دن نیم کلاسیکل اور دوسرے دن کلاسیکل۔ پاکستان کی تاریخ کا سنہری گانا ان ہی برسیوں میں پیش کیا گیا۔ صفِ اول کے فنکار جیسے طفیل نیازی، نصرت فتح علی، سلامت علی شرافت علی، اعجاز حضروی، ماسٹر صادق، حسین بخش گلو، ریاض علی امتیاز علی، مہدی حسن، غلام علی، طافو، شوکت حسین، تاری، خلیفہ اختر، شگن صاحب، پرویز مہدی، غلام عباس، فتح علی ، حامد علی،اللہ رکھا، مبارک علی، اجمل ، ججی وغیرہ نے ان برسیوں میں اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ بڑے سے بڑے آرٹسٹ کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ نفیس کے والد استاد فتح علی خاں کی برسی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرے۔ پنڈی سے باہر کے تمام فنکاروں کو نفیس اپنے خرچے پر ہوٹلوں میں ٹھہراتے تھے۔ ہر آرٹسٹ کے ساتھ چار سے پانچ لوگ بھی ہوتے تھے ۔ ان سب کا کھانا پینا، چائے پانی نفیس کے ذمہ ہو تا تھا۔ سارا سال جو بھی بچاتے وہ برسی کی نذر ہو جاتا۔ مگروہ دریا دل انسان ہیں انہوں نے پیسے کی کبھی پرواہ ہی نہیں کی۔ برسی کے علاوہ بھی ان کے گھر ہر وقت مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ایک فنکار جا رہا ہے تو تین آ رہے ہیں۔ سارا دن لنگر چلتا رہتا۔ چائے، پانی، بسکٹ اور کھانا! ‘

عموماً گھرانے دار حضرات اتائیوں کو کم تر سمجھتے ہیں اور انہیں نہیں مانتے۔ مگر نفیس کی عظمت دیکھئے کہ انہوں نے اتائیوں کو ان برسیوں میں پورا پورا موقع دیا۔ اور یہ موقع کام کے معیا ر پر مبنی تھا۔ چھچھورے قسم کی اتائی جو اپنے آپ کو گھرانے داروں سے بھی اوپر سمجھتے ہیں نفیس نے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا حالانکہ یہ منت کرتے رہے کہ ہمیں بھی گانے کا موقع دیں برسی میں۔ مگر نفیس کا معیار سخت تھا۔ ہر کوئی نہیں آ سکتا تھا سٹیج پر۔ نفیس نے ان اتائیوں کو بہت عزت سے سٹیج پر دعوت دی : پروفیسر شہباز، اسد قزلباش، زاہد فارانی، فرخ بشیر اور محفوظ کھوکھر۔ اس کے علاوہ نفیس نے اپنے ہم عصروں میں جاوید نیازی ، سبز علی اور اشرف شریف خاں (ٹونی) کو مدعو کیا۔ شہباز بھائی بتلاتے ہیں:

’ نفیس کی سجائی ہوئی برسیاں میوزک کانفرنس کا روپ دھار لیتی تھیں اور انہیں بجا طور پر ہر بلب، جالندھر کے موسیقی میلے سے تشبہیہ دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی موسیقی کی تاریخ بہاولپور میں توکل حسین، فیصل آباد میں نصرت فتح کے والد ، لاہور میں کلارنٹ نواز استاد عالمگیر، پنڈی میں نفیس کے والد اور اسلام آباد میں طفیل نیازی کی برسی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ نفیس کے والد کی برسی میں قاضی ظہور الحق (شہباز بھائی کے استاد) جیسی عظیم ہستی بطور بزرگ شامل ہوتے تھے اور سلامت علی جیسا عہد ساز گویا اپنی موسیقی کی خاص چیزیں پرفارمنس کے دوران ان کی نذر کیا کرتا تھا۔ ایسے بزرگوں کی موجودگی گانے والے کے فن کو جلا بخشتی ہے۔‘

بقول شہباز بھائی نفیس  PNCAمیں ستار بھی سکھاتے رہے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر آرٹسٹ دوستوں کے لئے  بے شمار دھنیں ترتیب دیں گو کہ یہ ان کی نوکری میں شامل نہیں تھا۔ یہ باکمال کمپوزر بھی تھے۔

یہ بات درست ہے۔ نفیس بھائی کے کمپوزنگ کے ہنر کی جھلک ہمیں ضیا محی الدین صاحب کے ساتھ شاموں میں نظر آئی۔ کس کلام کے ساتھ کون سے سروں کا مجموعہ چھیڑنا ہے یہ انتخاب ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ضیا کی recitation کو نفیس بھائی کے ستار نے چار چاند لگا دیے۔ بھلا ہو فوجی آمر مشرف کا کہ موسیقی کی ترویج کے لئے  NAPAبنا گیا۔ ضیاء سربراہ بن گئے اور نفیس نے موسیقی کا شعبہ سنبھال لیا۔ مگر نفیس بھائی کو پنڈی خیرباد کہنا پڑا کیونکہ ناپا کراچی میں تھا۔ ناپا نے قدر کی ان کی۔ مالی حالات کچھ بہتر ہوئے۔ حکومت نے انہیں ستارہِ امتیاز سے نوازا مگر نفیس کو حکومت نے اب بھی وہ پذیرائی نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے۔ نفیس بھائی بزرگوں کی آخری نشانی ہیں جن کے پاس انتہائی مستند علمِ موسیقی ہے۔ مگر دیکھئے ان کی عاجزی۔ فون پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم بزرگوں کا بچا کچا(leftover)  ہیں ۔ ہمارا علم ایک بیج ہے۔ اگر کوئی درست جگہ بو دے اور صحیح آبیاری کر دے تو وہ تناور درخت حاصل کر سکتا ہے۔

نفیس بھائی کی خدمت میں عرض ہے کہ نامی گرامی ہستیاں بیج ہی بانٹ سکتی تھیں۔ کوئی بھی تعویذ گھول کر نہیں پلا سکتا جس سے موسیقی کا جن قابو آجائے۔ بیج کی قدر بھی ہر اک نہیں کر سکتا۔ سلیس زبان میں پیغام یہ ہے کہ ہم علم بانٹنے کو تیار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا تم ریاضت کرو گے؟ کیا تم مراد مند ہو گے؟ یہ بات تو طے ہے کہ موسیقی محنت کے علاوہ ادب بھی مانگتا ہے۔ محنت کے ساتھ مرادمندی ہو تو کام کو چار چاند لگتے ہیں ورنہ تو فنکار بہت جو جوتیاں چٹخارتے پھرتے ہیں۔

پنڈی چھوڑنے اور ناپا کی نوکری کی وجہ سے برسی کا سلسلہ 1998 میں ٹوٹ گیا۔ طفیل نیازی صاحب کے بچوں نے بھی اپنے والد کی برسی منانا چھوڑ دی۔ پنڈی، اسلام آباد بے رونق ہو گئے اور سننے والے یو ٹیوب پر بیٹھ گئے۔ نفیس بھائی سے گزارش ہے کہ یہ سلسلہ دوبارہ شروع کریں۔

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments