سی پیک کو کالاباغ کون بنا رہا ہے؟


سی پیک رفتہ رفتہ تنازعات کی نذر ہو رہا ہے۔ سی پیک کو کون متنازع بنا رہا ہے؟ تنازعات کی وجوہات کیا ہیں؟ کون کہاں کھڑا ہے؟ اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ دیکھیے ایک بات تو معلوم ہے کہ لکھنے والازبان کی چاشنی ، لہجے کے آہنگ اور دلیل کی باڑھ سے خوشمنا کل کی تصویر بنانے کی جستجو میں ہوتا ہے۔ لکھتے ہوئے جذبات کی مناسب آنچ کا استعمال بھی شجر ممنوعہ نہیں۔ مشکل مگر یہ ہے کہ ہمارے کچھ دوست سی پیک کے حوالے سے جائز اعتراضات کو بے معنی چولا پہنا کرجذبات کی آنچ تیز کر دیتے ہیں اور دلیل کی بجائے لہجے کے آہنگ سے ’پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘ جیسے بے معنی اصطلاحات سے جائز مقدمہ کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ سیاسی موقف میں بلند آہنگ لہجے اور غیر ضروری جذبات سے پرے رہتے ہوئے حقائق کو کڑی میں پرو کر سامنے رکھنا چاہیے اور پھر انتظار کرنا چاہیے کہ ملک سے محبت کرنے غیر منصف سیاسی ذہن کا ساتھ دیتے ہیں یا محروموں کی آواز میں آواز ملا کر غیر منصف سیاسی ذہن کو شکست دیتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ سی پیک سے پاکستان کا مستقبل جڑا ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والے اس منصوبے کی مخالفت کسی صورت نہیں کر سکتے۔ اختر مینگل سے لے کر مالک بلوچ اور محمود خان اچکزئی تک، خورشید شاہ سے لے کر فاروق ستار تک، چوہدری برادران سے لے کر میاں نواز شریف تک، اسفند یار ولی سے لے کر مولانا فضل الرحمن اور عمران خان تک سب یک آواز ہیں کہ سی پیک پاکستان کا مستقبل ہے۔ مگر کچھ شکوے موجود ہیں۔ وہ شکوے اپنے جائز حقوق کے لئے ہیں نہ کہ سی پیک کی مخالفت میں ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں کہ بنیادی طور پر اعتراضات کیا ہیں اور جوابات کیا مل رہے ہیں۔

اس بات کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے کہ سی پیک کا بنیادی مقصد کاشغر کو گوادر سے ملانا تھا۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ مغربی روٹ کا فاصلہ مشرقی روٹ سے کم ہے۔ کسی کو اس بات پر اعتراض ہے تو اپنے دلائل سامنے رکھے۔ ہم نے تو ناپ کر بتا دیا کہ کس کا فاصلہ کہاں تک کیا بنتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر گوادر کو کاشغر سے ملانے کے لئے مختصر ترین روٹ( مغربی) پر کام کرنے کی بجائے مشرقی روٹ کو ترجیح کیوں دی گئی؟ یہ معلوم ہے کہ سی پیک میں قراقرم ہائے وے کی اپ گریڈیشن شامل ہے۔ حویلیاں سے برہان تک ہزارہ موٹروے کا آغاز ہو چکا ہے۔ برہان سے لاہور تک موٹروے کی اپ گریڈیشن مکمل ہو چکی ہے۔ لاہور سے ملتان موٹر وے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ملتان سے سکھر موٹروے کا آغاز ہو چکا ہے۔ سکھر سے رتوڈیرو پر کام جاری ہے۔ روتو ڈیرو سے خضدار تک بھی کام تقریباَ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ خضدار سے بسیمہ پورا ہو چکا ہے۔ بسیمہ سے گوادر کا روڈ مکمل ہے۔ یوں مشرقی روٹ پر ایک بھی ایسا سیکشن نہیں ہے جس پر کام شروع نہ ہو۔ دوسری جانب مغربی روٹ پر ہکلا سے ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے کا افتتاح ہو چکا ہے۔ ڈیرہ سے مغل کوٹ تک کچھ نہیں ہوا۔ مغل کوٹ سے ژوب ( صرف 81 کلومیٹر) کے دو رویہ سڑک کا افتتاح ہو چکا ہے لیکن کام شروع نہیں ہوا۔ ژوب سے کوئٹہ، کوئٹہ سے سوراب تک کسی کام کا آغاز نہیں ہوا۔ سوراب سے بسیمہ (90 کلومیٹر) پر کچھ کام ہوا ہے لیکن بتانے والے یہ نہیں بتاتے کہ جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا تھا اس کی مشینری سڑک پر بے یار و مددگار کیوں پڑی ہے۔ اب برہان سے بسیمہ تک کل 1124 کلومیٹر میں 280 کلومیٹر بلکہ سوراب بسیمہ بھی ملا دیتے ہیں، پرکام کا آغاز ہوا ہے جبکہ 754 کلومیٹر کی پٹی سنسان پڑی ہے۔

پوچھنا چاہیے کہ ایک جانب جب ایک جدید موٹروے بن رہی ہو اور دوسری جانب نیم دلی سے کام کا آغاز ہو اور سڑک بھی عام سی دو رویہ سڑک ہو تو کاشغر سے گوادر تک چین کس راستے کو استعمال کرے گا؟ سوال یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا صنعتی زون ایک جدید موٹروے پر بنیں گے یا ایک عام سڑک پر جس پر گوادر جانے والی ٹریفک نہ ہو؟ کیا نجی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری ایک جدید موٹر وے کے آس پاس کرے گا یا ایک سنسان سڑک کے آس پاس؟ ہاں یہ بات ہم مانتے ہیں جوجناب احسن اقبال صاحب تواتر سے اور جناب وزیراعظم صاحب دونوں اے پی سی کے مواقع پر ہمیں بتا چکے ہیں کہ ’سی پیک کا مغربی روٹ ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا‘۔ ترجیحی بنیادیں تو آشکار ہیں۔ جنوری 2016 میں بلائے گئے اے پی سی میں اختر مینگل نے خصوصی طور پر بلوچستان کے خدشات سامنے رکھے۔ ان سے وزیراعظم نے خصوصی وعدے وعید کئے۔ بلوچستان اور گوادر کے لئے جائز حصے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ مغربی روٹ ترجیحی بنیادوں پر بنانے کا اعلان ہوا۔ بدقسمتی دیکھیے کہ دس ماہ بعد بھی صورت حال جوں کی توں ہے۔ جولائی میں اختر مینگل کو مجبوراَ ایک کانفرنس میں کہنا پڑا کہ عدالت کے بعد ہم سیاسی قیادت کے رویے سے بھی مایوس ہو چکے ہیں۔ بلوچستان کے باسی سوال اٹھاتے ہیں کہ براہمداغ تو چلیں کسی کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہے ہوں گے مگر مالک بلوچ، اختر مینگل اور حاصل بزنجو تو اپنا مقدمہ اس ملک کی عدالتوں، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کے سامنے رکھتے رہے ہیں، پھر ان کی شنوائی کیوں نہیں ہو رہی؟ حکومت جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کیوں کرتی ہے کہ سی پیک کو متنازع بنایا جا رہا ہے؟ وزیراعظم دونوں اے پی سی میں اعلان کر چکے ہیں کہ مغربی روٹ ترجیحی بنیادوں پر بنایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ نقشہ آپ کے سامنے پھیلا ہے۔ بتایا جائے کہ اس میں ترجیح کس روٹ کو دی جا رہی ہے؟چلیں تھوڑی دیر کے لئے یہ یوں سمجھ لیں کہ ہمارا موقف سی پیک کے مغربی روٹ پر درست نہیں ہو گا اور اسلام آباد میں بیٹھے دانشوروں یا جناب احسن اقبال صاحب کو معلوم ہو گا کہ مغربی روٹ کام زور و شور سے جاری ہے۔ سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں کام کرنے والی سینیٹ کی کمیٹی نے سی پیک کی جو جائزہ رپورٹ پیش کی اس میں بتایا گیا کہ سی پیک میں ایک تو مغربی روٹ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور دوسرا گوادر پورٹ ابھی تک غیر فعال حالت ہیں ہے۔ اب بتایا جائے کہ کیا سینیٹر تاج حیدر صاحب بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور سی پیک کو متنازع بنا رہے ہیں؟

جناب احسن اقبال صاحب ہمیں بتا چکے ہیں کہ سی پیک کے سڑکوں میں چین کی ترجیحات کا خیال رکھا گیا ہے۔ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے مگر شاید ان کو یاد نہیں رہا کہ بطور وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ وہ سی پیک کے لئے بننے والے خود مختار فورم JCC  میں مفاہمت کی جس بنیادی یاداشت پر دستخط کر چکے ہیں اس میں لکھا ہے کہ پاکستان جلد سے سے جلد چین کو صنعتی زونز کی لوکیشنز اور پالیسیوں کے متعلق تجاویز پیش کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اس منصوبے میں پیشتر حصہ قرض ہے جس کو Concessionary قرضہ کہتے ہیں۔ قرضہ بھی ان منصوبوں کے لئے ہے جو انفراسٹرکچر سے متعلق ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کے کس قانون میں قرض دینے والے کی مرضی سے خرچ ہوتا ہے۔ یہ قرض قابل واپسی ہے اور سود سمیت قابل واپسی ہے۔ پھر ترجیحات میں چین کا نام کیوں لیا جا رہا ہے؟

چین نے JCC کے لئے اپنی طرف سے جو کمیٹی بنائی اس میں سینکیانک صوبے کے سربراہ کو کمیٹی میں شامل کیا حالانکہ چین میں مرکزی حکومت ہے۔ ادھر پاکستان کی طرف سے بننے والی کمیٹی میں گلگت بلتسان کو نمائندگی نہیں ملی، خیبر پختونخوا کو کوئی نمائندگی نہیں ملی، سندھ کو کوئی نمائندگی نہیں ملی۔ بلوچستان سے ایک نمائندہ البتہ گوادر کی فیزبیلیٹی کی وجہ سے اس میں شامل ہے جو بلوچستان کے چیف سیکریٹری ہوں گے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایک سرکاری ملازم کی وزیراعظم کے دست راست وفاقی وزیر کے سامنے کیا حیثیت ہو گی؟

احسن اقبال صاحب ہمیں یہ بھی بتا چکے ہیں اکثر روٹس ہماری 90کی دہائی کی ترجیحات میں سے ہیں اور اس کو خصوصی طور پر سی پیک میں نہیں ڈالا گیا۔ اس حوالے سے وہ اے پی سی میں لاہور ملتان موٹر وے کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ یہ ہمارا اپنا منصوبہ تھا۔ حالانکہ وہ سی پیک کا باقاعدہ حصہ ہے۔ اس بات پر اگر یقین کر لیا جائے تو پھر پشاور کراچی موٹروے چونکہ ان کے نوے کی دہائی کے منصوبہ جات میں سے ہیں اس لئے اس کو بھی سی پیک کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب اور ژوب سے کوئٹہ N50 سالوں سے NHA کی ترجیحات میں شامل تھا، اس لئے اس کو بھی سی پیک کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ پھر گوادر پورٹ کا منصوبہ تو مشرف دور میں ہمارا اپنا تھا اس کو بھی سی پیک کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ حبکو کول پاور پراجیکٹ کو بھی سی پیک کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ پھر تو تھر پاور پلانٹ 2009 سے منصوبے میں تھا۔ گوادر ائیرپورٹ پہلے سے موجود ہے۔ ان سب کو سی پیک کا حصہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

 احسن اقبال صاحب اور ان کے دوست لگے بندھے انداز میں ہمیں یہ بھی بتایتے ہیں کہ چونکہ مغربی روٹ پر سیکورٹی کے خدشات ہیں اس لئے مشرقی روٹ کو ترجیح دی گئی۔ دیکھیے سیکورٹی خدشات تو سینکیانک میں تھے مگر چین نے ( Go West) کی پالیسی اپنا کر سینکیانک اور اورمچی کو ترقی دینے کی کوشش کی۔ وہاں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا۔ صنعتیں لگائی گئیں۔ لوگوں کو روزگار، صحت اور تعلیم کے مواقع میسر آ گئے تو شدت پسندی میں کمی آگئی۔ ادھر آپ تعلیم، صحت اور روزگار سے محروم علاقوں میں شدت پسندی کا بہانہ بنا کر روٹ کا رخ موڑ رہے ہیں۔ جب ان علاقوں میں روزگار، تعلیم اور صحت کے مواقع نہیں ہوں گے اور شدت پسندی کو دہائیوں سے ریاستی سرپرستی بھی حاصل رہی ہو تو بہتری کیسے آ سکتی ہے؟ شدت پسندی ختم کیسے ہو سکتی ہے؟ تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ اب یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ ہکلا سے ڈیرہ غازی خاں تک کس علاقے میں شدت پسندی ہے؟ ژوب سے کوئٹہ، افغان طالبان کی موجودگی کے علاوہ جو ابھی تک مجاہدین اور دوست ہیں، اور کہاں شدت پسندی ہے؟ کوئٹہ سے مستونگ تک اور آگے سوراب تک شدت پسندی کی نوعیت خالص فرقہ وارانہ ہے۔ جاننے والوں کو پتہ ہے کہ وڈھ اور خضدار میں مخصوص فرقہ وارانہ شدت پسندوں کو کس کی حمایت حاصل ہے۔ ریاست کے خلاف شدت پسندی تو خضدار، تربت، پنجگور اور آواران تک ظاہر ہوتی رہتی ہے مگر وہاں تو گوادر سے بسیمہ تک آپ نے روڈ بنا بھی دیا اور وہ لازمی بننا بھی تھا کہ بسیمہ کے بعد مشرقی اور مغربی روٹس ایک ہی ہیں۔

دیکھیے عرض ہے کہ جب سے سی پیک شروع ہوا ہے حکومت اس کے منصوبوں کو حد درجہ خفیہ رکھنے کی کوشش میں ہے۔ مبہم بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔ پہلے وزیراعظم اور احسن اقبال صاحب تواتر سے فرما چکے ہیں کہ سی پیک میں مغربی روٹ ترجیحی بنیادوں پر بنایا جائے گا۔ پھر صنعتی زونز کے بارے میں ابہام آمیز بیانات دئے گئے۔ صرف تعداد، پنجاب میں 7، پختونخوا میں 8، سندھ میں4 اور باقی بلوچستان اور گلگت بلتستان میں کا بیان جاری کیا۔ اس کی تفصیل آج تک نہیں دی گئی کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں یہ کہاں کہاں بنیں گے۔ تواتر سے غلط بیانی کی گئی۔ لاہور ملتان موٹروے پر کی گئی۔ لاہور اورنج لائن پر کی گئی۔ مغربی روٹس پر کی گئی۔ ریلوے لائنز پر کی گئی۔ اب معلوم ہوا کہ 5.5 بیلن ڈالر میں اہم منصوبہ لاہور کراچی(ML-1) ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سی پیک کو متنازع کون بنا رہا ہے؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سی پیک منصوبوں کی تفصیلات، JCC  میٹنگوں کے منٹس کیوں چھپائے جا رہے ہیں؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اختر مینگل سے لے کر حاصل بزنجو، مالک بلوچ اور محمود خان تک، شیر پاﺅ سے لے کر اسفندیار، مولانا فضل الرحمن اور پرویز خٹک تک سب کو تحفظات کیوں ہیں جبکہ اے پی سی میں یہ تمام حضرات تواتر سے سی پیک کو پاکستان کا مستقبل قرار دیتے رہے ہیں۔

گزارش یہ ہے کہ ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ حکومت کئی وعدوں کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ پر قابو نہیں پا سکی۔ سفارتی محاذ پر حکومت کے کریڈٹ پر عالمی تنہائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی گئی۔ حکومت کے تین سال پورے ہو چکے ہیں۔ 2018میں انتخابات ہیں۔ ایسے میں حکومت کو اگلے الیکشن سے پہلے کچھ ڈیلیور کرنا ہے۔ سی پیک میں وسطی پنجاب کے موٹرویز اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کا ایک بہتر موقع ہاتھ آیا ہے۔ اس لئے حکومت اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہ تو معلوم ہو گا کہ ایبٹ آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب، کوئٹہ، مستونگ، خضدار، پنجگور اور گوادر تک قومی اسمبلی کی کل 17 نشستیں ہیں برہان سے راول پنڈی، لاہور، ملتان، فیصل آباد تک اور پاور پراجیکٹس کے علاقوں کو ملا کر اس پٹی پر قومی اسمبلی کی کل نشستیں 100 کے قریب ہیں۔ ایسے میں بات سمجھنا اتنا مشکل تو نہیں۔

جو احباب مغربی روٹ کیا رونا رو رہے ہیں ان کو نوید ہو کہ روٹ تو بنے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ روٹ بنے گا نہیں۔ سڑک بن جائے گی۔ اس کے بعد اس پر گھڑ دوڑ کروانی ہے یا بقول عثمان قاضی سٹاپو کھیلنا ہے یہ آپ کی مرضی ہے۔ ایک بات البتہ یاد آ رہی ہے، چلتے چلتے سن لیجیے۔ جن دنوں چمن بارڈر سے اسمگلنگ کے ذریعے روسی سامان کوئٹہ آتا تھا تو بڑے بڑے جغادری، کسٹم اہلکاروں سے سازباز ( لوکل زبان میں قرارداد) کر لیتے تھے۔ ان کا سامان عموماَ بسوں میں کوئٹہ سمگل ہوتا تھا اور کسٹم سے بغیر چیک کئے بسیں گزر جاتی تھیں۔ اس بیچ غریب لوگ بھی ایک آدھ ٹی وی یا وی سی آر اپنی چادر میں لپیٹ کر بس یا ویگن میں کوئٹہ چیک پوسٹ تک آ جاتا اور چیک پوسٹ سے پہلے اتر کر دور سے کسٹم چوکی کو پار کر کے ہزار، پانچ سو روپے کما لیتا۔ ( ایسے لوگوں کو لوکل زبان میں لغڑی کہا جاتا تھا)۔ چمن میں ایک مشہور آدمی جس کا سامان بسوں میں جاتا تھا اس کا نام ’بڑا بھائی‘ فرض کر لیں۔ ایک دن ایک لغڑی اپنی چادر میں ٹی وی لپیٹے کسٹم پار کر رہا تھا کہ سپاہی کی نظر پڑ گئی۔ اس نے لغڑی کو پکڑ لیا۔ لغڑی نے بہت منت سماجت کی لیکن اس نے ٹی وی ضبط کر لیا۔ لغڑی نے اپنی ٹوپی اتاری، آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہنے لگا، ’ یااللہ! ہماری خیر ہے بس ’بڑا بھائی‘ بھوکا نہ مرنے پائے‘۔ تو سائیں ہماری خیر ہے بس بڑابھائی خوش رہے۔


مکمل سیریز

سی پیک کیا ہے اور گریٹ گیم کیا ہے؟

گریٹ گیم میں گوادر کی اہمیت

سی پیک منصوبہ: یہ ہاتھی کس کروٹ بیٹھے گا؟

سی پیک کو کالاباغ کون بنا رہا ہے؟

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments