شاہ لائلہ، قیامت سی قیامت ہے


\"hashir\"

ہوا بردوش ناچتی جھومتی خوشبو بکھرتی ہے تو نہ کسی فصیل کو خاطر میں لاتی ہے نہ کسی دیوار کو۔ مہک گلیوں میں لہلہاتی ہے، کبھی قدموں سے لپٹتی ہے، کبھی کاکلوں کے تلے سرسراتی ہے۔ فضا زلف یار کی صورت عطر پاش ہوتی ہے تو لفظوں میں شیرینی در آتی ہے، رنگ باتیں کرنے لگتے ہیں، ایڑیوں سے لپٹی دھول رقص کرتی ہے، چاند کچھ اور نیچے آ جاتا ہے، جھیل کی سطح پر دلکش تصویریں بننے مٹنے لگتی ہیں، تاروں کی لو تیز ہو جاتی ہے۔ پھر جگنو کنج در کنج روشن ہوتے ہیں، تاحد نگاہ دیے سے بچھ جاتے ہیں، دشت امکاں کی مسافتیں تمنا کے پہلے قدم کے آگے ڈھیر ہو جاتی ہیں۔

خوشبو کسی سے پوچھ کر سفر آغاز نہیں کرتی ۔ اسے نہ سوا نیزے پر آیا سورج دھمکا پاتا ہے نہ اماوس کی تاریک راتیں۔ خوشبو کا ایک ہاتھ خواب کی انگلی تھامتا ہے اور دوسرے کی مٹھی میں آرزو کی وسعت بند ہوتی ہے۔ خوشبو دھنک نہیں ہے کہ لمحے بھر میں تحلیل ہو جائے۔ خوشبو سراب نہیں ہے کہ بس دور سے دل جوئی کرے ۔ خوشبو پہاڑی کی ڈھلان پر لڑھکتی دھند بھی نہیں کہ راستے کی پگڈنڈیاں اس میں کھو جائیں۔ خوشبو نوک برگ پر ٹہری شبنم بھی نہیں ہے جسے سورج کی پہلی کرن اڑا لے جائے۔ خوشبو تو مشام جاں میں اترنے والا احساس ہے، ہنگام دل کشائی کا استعارہ ہے، خوشبو کوئے جاناں میں کھلتا پرچم ہے۔ خوشبو پتھر چہروں کے نقش موم کرتا سانچہ ہے۔ خوشبو صرصر کو صبا کرتا تحفہ جان آفریں ہے۔

\"shahlyla-baloch-11\"کبھی مٹی کی تاریکی سے، کبھی پتھر کا سینہ چیر کر، کہیں آبشار کے کنارے، کہیں صحرا کی تہہ گرد سے ایک کونپل پھوٹتی ہے۔ ہوس کار ہاتھوں اور بھوکی نظروں سے بچتی ایک دن اس پر کلی چٹکتی ہے۔ کلی نے پھول بننا ہے کہ کلی کا حسن، اس کی چھب، اس کی کوملتا اپنی جگہ پر ابھی اس کی خوشبو مدھر ہے، مدھم ہے۔ کلی کھل کر پھول بنے گی تو خوشبو سر مست ہو گی۔ وحشت میں بکھرے گی تو دل گدازی کا سبب بنے گی۔ غنچہ کھلے گا تو خوشبو راہ میں ارزاں ہو گی۔ پر قیامت سی قیامت ہے کہ کچھ دلکش و دل آرا غنچے کھل نہیں پاتے۔ ابھی خوشبو پھوٹنے نہیں پاتی کہ سفر تمام ہو جاتا ہے۔

شاہ لائلہ، تم بھی ایسی ایک کلی تھیں جسے ابھی خوشبو کے سفر پر نکلنا تھا پر کچھ سفر شروع ہونے سے پہلے تمام ہو جاتے ہیں۔ کچھ راستوں پر قدم نہیں پہنچتے اور کچھ بارشیں بن برسے روٹھ جاتی ہیں۔

میں تمہیں نہیں جانتا تھا۔ میں نے آج پہلی دفعہ تمہارا نام سنا۔ تمہاری تصویر دیکھی۔ تمہیں کھیلتے دیکھا اور مجھے مجید امجد یاد آئے۔

\"shahlyla-baloch-8\"

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا
تڑخ کے گرد کی تہہ سے اگر کہیں کچھ پھول
کھلے بھی تو کوئی دیکھے گا۔۔۔۔ کون دیکھے گا

اس ملک میں جہاں بچیاں ونی اور سوارہ کا ایندھن ہیں، غیرت کے نام پر چڑھنے والی بھینٹ ہیں، گھروں کی دیواروں میں دفن اینٹیں ہیں، بازاروں میں ہوس کار آنکھوں کا نوالہ ہیں وہاں خوشبو کی ضرورت ہے شاہ لائلہ، جو اس منظر نامے کو بدل سکے۔ وہاں تم جیسی مثالوں کی ضرورت ہے کہ میری بیٹی جیسی اور لاکھوں لڑکیوں کو یہ یقین آ جائے کہ زندگی کا کوئی بھی در دستک دینے پر وا ہوسکتا ہے۔ وہاں تم جیسی آوازوں کی نے نوائی چاہیے جو بند سماعتوں کو کھول سکے۔ پر تم تو اب نہیں ہو ۔

شاہ لائلہ ۔ میں تمہاری موت کا نوحہ لکھوں کہ اس المیے کو رقم کروں کہ اس ملک میں مجھ جیسے بزعم خود باخبروں کو بھی تمہاری آج سے پہلے خبر نہ تھی۔ ہمیں ایک کھیل سے آگے کی دنیا دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں ٹی وی اور فلم کے پردوں کے جلوے نظر آتے ہیں پر کتنے ہی کھیل کے میدانوں میں روشن چراغ دکھائی نہیں دیتے۔

\"shahlyla-baloch-01\"

ہمیں اس گلتے ٹوٹتے رستے معاشرے کے زخم کریدنے میں لطف آتا ہے پر اس سے لڑتے ہوئے اسٹیریو ٹائپ توڑتے ہوئے تم جیسے گلیڈی ایٹر نظر نہیں آتے۔ ہماری تالیاں، ہماری واہ واہ، ہماری ستائشی نظریں سب ایک بھیڑ چال میں مقید ہیں۔ ایک مردہ قوم کے ہیرو کو مرنا پڑتا ہے کہ قوم اس ہیرو کا مجسمہ بنا سکے۔ زندہ ہیرو ایک مردہ قوم کے نہ کام کا ہے نہ اس کی کتاب زیست کے پنوں پر کہیں مرقوم ہے۔

آج ہم تمہاری موت کا ذکر کرتے ہیں۔ بیس سال کی عمر میں تمہارے چلے جانے کے بعد اپنی فیس بک پر تمہاری تصویریں لگاتے ہیں۔ دو روز کی بات ہے، یہ خبر پرانی ہو جائے گی شاہ لائلہ۔ جو تمہارے اپنے تھے، ان کی آنکھیں خشک ہونے میں ابھی بہت وقت ہے پر ہم دو دن میں تمہیں بھول جائیں گے۔ ہماری لڑکیوں کی فٹ بال ٹیم ہے بھی کہ نہیں، اس میں کون کھیلتا ہے، کون اور ہماری بچیوں کا آئیڈیل بن سکتا ہے، ہمیں اس میں دو روز بعد کوئی دلچسپی نہیں ہو گی کیونکہ ہم پتھر چہروں والے، امکان اور تمنا کی وسعت سے بے خبر، امروز میں نصف زندہ نصف مردہ، نیم جاہل، نیم وحشی قبیلے کے فرد ہیں۔ ہمیں بدلنے کے لیے جو خوشبو چاہیے وہ جن پھولوں سے پھوٹتی ہے انہیں ہم کھلنے سے پہلے مسل دیتے ہیں اور شاہ لائلہ، کچھ کلیاں جو ہماری پہنچ سے دور ہیں ۔ اب انہی کا آسرا ہے۔ پر قیامت سی قیامت ہے کہ وہ چند ہیں ، کم یاب ہیں اور دست اجل آج ان میں سے تمہیں چھین لے گیا۔ تبدیلی کا سفر کچھ اور دشوار ہو گیا ہے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments