بوٹا، ریما اور ڈاکٹر ثمینہ


بوٹے کے یہاں پہلا ”بوٹا“ کھِلنے والا تھا۔ وہ پریشانی، بےچینی، خوشی اور تجسس کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ اپنے بیڈروم، جو اس وقت لیبر روم کا منظر پیش کر رہا تھا، کے باہر ٹہل رہا تھا۔ ہر دائی کی طرح، یہ دائی بہت سیانی تھی۔ پر بوٹے کی میٹرک کی سند اس کے دل میں، دائی اور گھر پر ڈلیوری کے خلاف قِسم قِسم کے وسوسے پیدا کر رہی تھی۔۔۔ بوٹا خاندانی مالی تھا۔ باپ کے شوق، اور اپنے ذوق کی بدولت دس جماعتیں پڑھ گیا تھا۔ البتہ باپ کی اچانک موت کے بعد، یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکا، اور پھر سے بوٹے کھلانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر جت گیا۔

انہی وسوسوں میں تھا، کہ اندر سے اک نئی کلی کے چٹخنے، اک نئی زندگی کے رونے کی آواز آئی، تو بوٹے کی جان میں جان آئی۔ وہ دروازے پر پڑے پردے کو بے چینی سے دیکھ رہا تھا، کہ کب اس کی ماں کا چہرہ نمودار ہوگا، اور وہ اسے خوش خبری سنائے گی، کہ بیٹا ہوا یا بیٹی۔۔۔ لیکن بہت دیر بعد بھی ماں‌ کا چہرہ نہ نمودار ہوا، تو بوٹے کو تشویش لاحق ہوئی۔۔۔ بچے کے رونے کی آواز تو مسلسل آ رہی ہے، پر یہ اماں باہر کیوں نہیں آ رہی؟ صبر کا پیمانہ لب ریز ہوا، تو بوٹے نے آو دیکھا، نہ تاو۔۔ پردہ ہٹایا اور کمرے میں جا گھسا۔ ”کیا ہوا اماں؟۔۔ تو باہر کیوں نہیں آئی؟۔۔ کچھ بتاتی کیوں نہیں؟۔۔ سکینہ ٹھیک ہے؟۔۔ بیٹا ہوا یا بیٹی؟“۔۔۔ بوٹے نے ایک ہی سانس میں سارے سوال داغ دیئے۔

اماں نے اداس چہرہ لیے بوٹے کو دیکھا، اور بغیر کچھ کہے، گود میں اٹھائے بچے کا کپڑا ہٹا دیا۔ بوٹے کی نظر پہلے تو بچے کے گورے چٹے، گول مٹول سے چہرے پر پڑی، مسکراہٹ ایسی، گویا اسے دیکھ کر مسکرا رہا ہو۔ وہ خوشی کے عالم میں اسے اٹھانے کو لپکا ہی تھا، کہ اچانک اس کی نگاہ وہاں گئی، کہ۔۔۔ بوٹا اپنی جگہ پہ ٹھٹھک گیا، اور تب اسے ماں کی اداسی کی وجہ بھی سمجھ آ گئی۔
”اف خدایا!۔۔ یہ لڑکا ہے، یا لڑکی؟“

بوٹے نے ایک اجنبی سی نگہ روتی ہوئی سکینہ پر ڈالی، اور وہیں سے پلٹ کر ایسی دوڑ لگائی، کہ اپنے باغیچے ہی میں جا کر دم لیا۔ پھر نجانے کتنی دیر وہ اپنے ہاتھوں سے لگائے بیل بوٹوں کے ساتھ، اپنا غم بانٹتا رہا۔ شکوے کرتا رہا۔۔۔ جب جذبات کا تلاطم کچھ تھما، تو اس کی ڈگری کے بھرم نے اسے ایک بار پھر سے ابھارا کہ بچے کو اسپتال لے جا کر چیک اپ کروائے۔ کیا پتا۔۔۔ کیا پتا اس کا علاج ممکن ہو۔ امید کی اک موہوم سی کرن لیے، واپس اماں کے پاس آیا، تو ماں نے سختی سے منع کر دیا، کہ وہ بچے پر موئے ڈاکٹروں کو تجربے نہیں کرنے دے گی۔ اگر اس مسئلے کا علاج ہوتا تو ”گرو شمیم“ اور اس جیسے چھہ سات اور ہیجڑوں کا ٹولہ، کیوں نہ اپنا علاج کروا لیتا؟

اور پھر۔۔۔ شام سے پہلے ہی۔۔ گرو شمیم۔۔ نام لیا اور شیطان حاضر کے مصداق، آ دھمکا۔ تالی پیٹتے اپنی مخصوص ادا میں، بوٹے کی اماں سے اپنی گلابی پنجابی میں کہا، ”ہائے نی میں صدقے۔۔ ویکھ مائی، سانوں پتا ہے، کہ اس گھر میں ہمارے جیسا ہی اک پھول کھِلا ہے۔۔ تینوں تو پتا ہے، کہ وہ اس باغ میں کھِل تو گیا ہے، پر وَدھ نئیں سکتا۔۔ ماں صدقے، تو اسے ہمیں دے دے، تا کہ ہم اس کو اپنے باغیچے میں پالیں پوسیں۔ اس کے اپنے جیسوں میں۔۔ یہاں تو تینوں پتا ہے، نگوڑ مارے بچوں نے، اس نوں چھیڑ چھیڑ ہی مار دینا ہے۔“۔۔۔ ماں جی کا جی تو نہ چاہتا تھا، لیکن گرو شمیم کی بات بھی ٹھیک ہی تھی۔ معاشرہ اس بچے کو کیوں قبول کرتا؟ اس کا نام لڑکوں والا رکھتے، یا لڑکیوں والا؟ شادی کیسے ہوتی؟ یہ سوچ کر بوٹے کی ماں نے بیٹے کی عدم موجودی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوئے، بچے کو گرو شمیم کے حوالے کر دیا۔ بچے کو گود میں لیتے ہی گرو چہکا، ”ہائے نی۔۔ میں صدقے۔“۔۔۔ اور یہ جا، وہ جا۔

بوٹے کو گھر لوٹنے پر، اس سانحے کا علم ہوا تو ماں سے خوب لڑا، کہ اس نے ایسا کیوں کیا! ”اماں۔۔ وہ جیسا بھی تھا، میرا خون تھا۔۔ میں جیسے مرضی اسے پالتا، کسی کو کیا تکلیف۔۔ تو مجھے گرو کا پتا دے، میں بچے کو واپس لے کر آوں گا۔“ سادہ لوح ماں کو کیا پتا ہوتا، گرو کا پتا۔۔ گرو کا ٹھکانا۔۔۔ آخر کو صبر شکر کرتے ہی بنی۔ نئے سال سکینہ پھر اک ”اُمید“ لائی تھی۔ اس بار بوٹے نے کسی کی ایک نہ سنی، اور زچہ کو اسپتال لے گیا۔ اس بار وہ لیبر روم کے باہر ٹہل رہا تھا۔ اچانک دروازے سے ایک خرانٹ صورت آیا نمودار ہوئی، اور صدا دی، ”سکینہ کے ساتھ کون ہے؟“۔۔ بوٹا جھٹ سے لپکا تو بولی، کہ بچے کو نرسری میں لے گئے ہیں۔ تھوڑا سا سانس کا مسئلہ تھا۔ اس نے بوٹے کو بھی وہیں پہنچنے کو کہا۔۔ بوٹے کی رنگت اڑ گئی۔ ماں کو وہیں چھوڑا، کہ سکینہ کی خبر لے، اور خود نرسری کا رخ کیا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments