ہمارا مقدر بھی ایک بے غیرت قوم بننا ہی ہے


\"saleem

یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لچھن تو ہوتے ہی خراب تھے کیونکہ وہ بڑے لبرل بنتے تھےجو کہ غیرت سے خالی ہونے کے معنوں میں ہی آتا ہے۔ کافی عرصے سے ان کی لیڈر بھی ایک عورت ہی تھی تو وہ عورتوں کے سلسلے میں غلط سلط قانون پاس کر کے ہمارے غیرت مند معاشرے کو بے غیرتی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ ہم غیرت والے لوگ ان کی کون سی کوئی بات سنتے یا مانتے تھے۔ اور قانون بننے پر اتنا شور مچا لیتے تھے کہ قانون پاس ہو جائے تو بھی ہماری غیرت کے جذبے کو فرق نہ پڑے۔ لیکن بھر بھی وہ معاملہ پیپلز پارٹی کا تھا۔ اب تو قیامت کی نشانیاں پکی ہیں۔ گو کہ جب سے پندرھویں صدی شروع ہوئی ہے ہم نے یہ والا فقرہ بولنا بہت کم کر دیا ہے کہ قیامت نے کب آنا ہے لیکن پھر بھی جب مسلم لیگ نواز نے بھی قوم کو بے غیرت بنانے کی ٹھان لی ہے تو پھر یہ کہنا بنتا ہے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ضرور ہے۔ قیامت ک سلسلے میں مزید معلومات کے لئے ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب سے ضرور مشورہ کر لیں۔ ہم واپس اپنی غیرت کی طرف آتے ہیں۔

یقین نہیں آتا کہ اب مسلم لیگ نواز کو بھی عورتوں کے حقوق والا پاگل پن کا دورہ پڑ گیا ہے۔ ہمیں چونکہ اس گورنمنٹ سے یہ امید نہ تھی اس لئے ہم تیار بھی نہ تھے اور کچھ زیادہ شور بھی نہیں مچا سکے۔ یک دم یہ قانون سامنے آ گیا ہے جس کی وجہ سے ہم سے غیرت کی زندگی جینے کا حق چھن گیا ہے اور ہم بے غیرتی کی زندگی جینے پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔ پہلے ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں کوئی کم ذلیل ہو رہے ہیں کہ اب انہیں قتل وغیرہ کرنے پر بھی ہمیں ساری زندگی جیل کی چکی پیسنی پڑے گی۔ یہی دن دیکھنے کو رہ گئے تھے۔

لڑکیاں سب سے پہلی زیادتی تو ہمارے ساتھ یہ کرتی ہیں کہ ہم جیسے غیرت مندوں کے گھروں میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ کیوں نہیں صرف دوسروں کے گھروں میں ہی پیدا ہوتیں تاکہ ہماری غیرت تو محفوظ رہے۔ پروفیسر صاحب بتا رہے تھے کہ ان کے کپڑے لتے اور خوراک کے علاوہ ایک والدین بیچارے ان کی تعلیم وغیرہ پر بھی دولتیں لٹاتے ہیں۔ اب ان سارے احسانات کے بعد بھی کیا لڑکیوں کا اتنا سا فرض نہیں بنتا کہ وہ ذہنی، جنسی اور جذباتی طور پر ایک نیوٹرل زندگی گزاریں۔ اور اگر وہ صرف اتنا سا تعاون کریں کہ ایک مفلوج زندگی گزارنے پر تیار ہو جائیں جیسے کہ معاشرے میں زیادہ تر لڑکیاں بڑی خوشی سے ایک مفلوج زندگی گزار رہی ہیں، تو بہت سارے مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ پھر انہیں ہم کسی بھی کھونٹے کے ساتھ ساری زندگی کے لئے باندھ دیں گے تو انہیں محسوس تک نہیں ہو گا۔ اس میں ان کی بھی بھلائی ہے اور معاشرے کی عزت بھی قائم رہے گی۔

ایک طرف اگر یہ لڑکیاں انسانوں والی زندگی گزارنے کی قدرتی خواہش کو مارنے پر تیار نہ ہوں اور دوسری طرف گورمنٹ اور پارلیمان بھی ہمارے ہاتھ قانون سے باندھنے کی مذموم کوشش جاری رکھے تو اس کا نتیجہ ہمارے خاندانی نظام کے لئے بہت برا نکلے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ ہمارے غیرت مند بھائی جیل کی مصیبتوں کے ڈر سے بے غیرت ہونے کو ترجیح نہ دینے لگیں۔

اب یہ انسانوں کی برابری، لڑکیوں کی مرضی، تعلیم اور جائیداد کے حقوق اور دوسری اس طرح کی بہت سی فضول باتوں کا راگ اتنا الاپا گیا ہے کہ ہماری اچھی بھلی دلیل پر لوگ مزاحیہ سوال اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی ”ہم سب“ پر ایک غیرت مند پروفیسر صاحب نے بڑے کھلے الفاظ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ اپنی بہن یا بیٹی کو قتل کرنا بہت بری بات ہے اور جہاں تک ہو سکے سبھی لوگوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ اور ساتھ میں یہ غیرت والا قانون بنانے پر افسوس کا اظہار بھی کیا کیونکہ یہ مغربی مغربی سا لگتا اور اس سے ہمارے معاشرے کی بد نامی کا ڈر ہوتا ہے۔ لیکن لوگ آگے سے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قانون میں کیا حرج ہے جو لوگ اپنی بہن یا بیٹی کو قتل نہیں کریں گے ان پر تو قانون لاگو نہیں ہو گا۔ لیکن لوگوں کو نہیں پتا یہ مرد ایک غیرت مند خطا کا پتلا ہے اور عورت ذات بھی ناقص العقل ہے غلطی تو ہو سکتی ہے، وقت بے وقت غیرت آ بھی سکتی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال چند ہزار ایسی غلطیاں رپورٹ ہو ہی جاتی ہیں تو اس کا یہ حل تو نہیں کہ اتنے ہزار مرد بیچارے اب سلاخوں کے پیچھے سڑتے ہوئے صرف اس لئے زندگی گزار دیں گے ان بیچاروں نے غیرت یا غصے میں آ کر اپنی بہن یا بیٹی کو قتل وغیرہ کر دیا تھا۔ یہ بڑی زیادتی ہے اور مجھے تو ڈر ہے کہ دو چار غیرت مندوں کے جیل ہونے کی مثالوں کے بعد غیرت کی کہیں چھٹی ہی نہ ہو جائے۔

ویسے بھی ہمارے معاشرے کے غیرت سے خالی لوگ بڑی امیدوں سے یہ بتاتے ہیں کہ یہ جو یورپ اور امریکہ کے بے غیرت معاشرے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک وہ بھی ہمارے جیسے غیرت مند ہی تھے۔ وہاں بھی عورتوں نے اسی طرح آہستہ آہستہ اپنے آپ کو منوایا ہے اور اب وہ معاشرے اس قابل ہوئے ہیں کہ مرد نے بے غیرتی کی زندگی بغیر کسی ملال کے جینا سیکھ لی ہے۔ انہیں تو اب اتنی بھی شرم نہیں ہے کہ لڑکی کی پیدائش پر ہی دو آنسو پرو دیں۔ بلکہ وہ تو لڑکی کی پیدائش پر بھی مباکبادیں دیتے پھر رہے ہوتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔ یا خدا یہ بے غیرتی کی زندگی کہیں ہمارا بھی مقدر نہ ہن جائے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments