روزنامہ ڈان کی خبر اور ایک سابق جنرل کا پرانا انٹرویو


\"omair

روزنامہ ڈان نے خبر لگائی جس سے تاثر ملا کہ عسکری ادارے ابھی بھی پاکستان میں ناپسندیدہ عناصر کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ خبر چھپنے کے بعد ہاہاکار مچ گئی۔ سوال اٹھائے گئے۔ ہم ساری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ اب اچھے بچے بن چکے، دوسرے ممالک کے معاملات میں بالکل بھی دخل نہیں دیتے، عسکریت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرتے ہیں، افغانستان میں طالبان کی مدد فقط بہتان ہے۔ اورروزنامہ ڈان کی خبر ان تمام باتوں کی نفی کرتی ہے۔

خبر درست ہے تو تشویش، غلط ہے تو ندامت۔ ہم سوچنے لگے تھے کہ ریاستی اداروں نے سبق سیکھ لیا، مداخلت کی پالیسیاں بدل دی گئیں۔ لہذا خبر کے غلط ہونے کی دعا ہی مانگی۔

ایسے میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا الجزیرہ ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو یاد آیا۔ اسد درانی آئی ایس آئی کے سربراہ رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سفارت کاری بھی کی۔ بے نظیر بھٹو حکومت گرانے کےلیے پیسوں کی تقسیم میں ان کا نام بھی آتا ہے۔ یہ انٹرویو اپریل 2015 میں الجزیرہ ٹی وی پر نشر ہوا۔ اس وقت بھی ہم دنیا کو یہی بتا رہے تھے کہ پاکستان تو اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے، نہ ہی وہاں برسرپیکار قوتوں کی مدد کرتا ہے۔ انٹرویو میں جنرل درانی نہایت سفاکی سےپاکستانی موقف کی دھجیاں بکھیرے نظر آئے۔

ان سےتبصرہ نما سوال کیا گیا۔ افغانستان میں طالبان سر اٹھا رہے ہیں تو اس کی ایک ہی وجہ ہے ۔۔ انہیں پاکستان کی، پاکستانی فوج کی اور آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے۔

جنرل درانی: وہ بین الاقوامی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور انہیں افغان عوام کی حمایت بھی حاصل ہے۔

سوال: اگر انہیں حمایت حاصل ہے تو کیا انہیں سیاسی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے؟ حمایت کا یہ مطلب تو نہیں کہ پاکستان خفیہ طور پر انہیں ہتھیار فراہم کرے اور وہ تباہی پھیلائیں۔

جنرل درانی: اگر ان کے پاس قوت نہیں ہو گی تو ان سے بات کون کرے گا؟ (واضح رہے کہ جنرل صاحب نے پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام رد نہیں کیا، بلکہ اپنے جواب میں غیر واضح سا اعتراف بھی کیا کہ ہتھیار اس لیے فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ افغان طالبان طاقت ور ہوں)

سوال: آپ کہتے ہیں ہمیں طالبان سے بات کرنی چاہیے کیوں کہ انہیں حمایت حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں حمایت تب حاصل ہو گی جب پاکستان انہیں ہتھیار دے گا، اور وہ تباہی پھیلائیں گے۔

جواب: اگر پچیس ہزار کے قریب لوگوں کو ایسی ریاست کی حمایت حاصل ہے، جو دنیا کی نظر میں ڈگمگا رہی ہے (یعنی پاکستان) ۔ اور پھر بھی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں تو یہاں بیٹھے افراد کو طالبان اور ان کے پاکستانی حامیوں کے لیے تالیاں بجانا چاہییں۔

سوال: اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تین سے چار ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں سے پچھتر فیصد طالبان کے حملوں میں مارے گئے۔ کیا آپ اس بات کے لیے تالیاں بجوانا چاہتےہیں؟

جواب: تو جارح افواج کی جانب سے کتنے مارے گئے؟

سوال: ظاہر ہے پچیس فیصد۔ آپ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں، ایک جنرل ہیں اور آپ مجھ سے پوچھتے ہیں دوسروں نے کتنے بندے مارے۔ ہم کھیل کے میدان میں تو نہیں ۔ پچھتر فیصد افراد افغان طالبان نے مارے اور آپ اس کے لیے تعریف کے خواہش مند ہیں؟

جواب: جنگ میں ایسے ہی ہوتا ہے، جنگ میں لوگ مرتے ہیں۔

سوال: تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان کے لیے بچوں سے بھرے اسکول اڑانا جائز ہے؟

جواب: میں کسی چیز کا جواز نہیں پیش کر رہا، صرف وضاحت دے رہا ہوں۔

سوال: آپ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ کیا آپ اب بھی یہی سمجھتے ہیں؟

جواب: جی۔ اگر پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکا ہمارے ساتھ ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ دونوں ملکوں کی سوچ میں بہت فرق ہے۔

سوال: اگر یہ جنگ ہے تو کتنی مضحکہ خیز جنگ ہے۔۔ ایک فریق اپنے متحارب فریق کو رقم دیتا ہے۔ وہ رقم وصول کر لیتا ہے اور پھر اسے پہلے فریق کے دشمنوں کو دے دیتا ہے۔

جواب: میرا خیال ہے ہمیں جتنی رقم ملنی چاہیے تھی اس سے بہت کم ملی۔ (یہاں بھی جنرل صاحب نے طالبان کی مدد کرنے کے الزام سے انکار نہیں کیا، بلکہ کم رقم ملنے کا شکوہ کیا)

سوال: امریکا نے آپ کو رقم اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ طالبان کو دے دی جائے اور ان کے لیے محفوظ ٹھکانے بنائے جائیں۔ اور افغانستان میں تخریبی کارروائیوں کےلیے ان کی مدد کی جائے۔

جواب: تو ہم نے امریکا کو بے وقوف بنا دیا۔

سوال: تو کیا آپ سمجھتے ہیں آپ نے امریکا کو بے وقوف بنایا؟

جواب: ایسا کرنے میں کوئی حرج تو نہیں۔

سوال: کوئی آپ سے ایسا کہے کہ پاکستان کا رویہ۔جس پر آپ کو بہت فخر بھی ہے۔۔ غداری پر مبنی رہا ہے۔ تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟

جواب: اگر آپ دو گھوڑوں کی سواری نہیں کر سکتے، تو آپ کو سرکس میں کام کرنے کا کوئی حق نہیں۔۔

سوال: اچھا!

جواب: آپ کو پتہ ہے یہ نصیحت کس نے کی تھی۔ جارج رابرٹسن، جو برطانوی سفارت کار تھا،اور نیٹو کا سیکریٹری جنرل تھا۔۔اس نے امریکی وزیردفاع ولیم کوہن کو یہ نصیحت کی تھی۔ (اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے) ریاستیں ڈبل گیم کرتی ہیں۔ اور اگر پاکستان ڈبل گیم کرنے میں کامیاب رہا تو میں کہوں گا ان معاملات کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے۔ ریاست کے معاملات اخلاقیات پر نہیں چلائے جاتے۔

سوال: لیکن آپ کامیاب بھی تو نہیں۔ پاکستانی طالبان آپ کے اپنے ملک میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ بچوں کے اسکولوں پر حملے کر رہے ہیں۔ سول افراد کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوجی بھی ان کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔ آپ کی عملیت پسندی تو تباہی کا شکار ہو چکی ۔

جواب: کولیٹرل ڈیمیج۔ (ذرا اس جواب کی سفاکی ملاحظہ فرمائیے۔ اب کولیٹرل ڈیمیج کا اردو ترجمہ کیا ہو؟ یہی نا کہ جنگ میں اپنا ہی نقصان ہو جانا۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا روندے جانا، گیہوں کے ساتھ گھن کا پس جانا)

(بات جاری رکھتے ہوئے) اس قسم کے کھیل کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں ہم نے کچھ گروہ بنائے، تو دوسرا فریق بھی ایسے ہی کر سکتا ہے۔ یہ کھیل کھیلنے کا بس یہی طریقہ ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ دوسرا فریق آرام سے بیٹھ جائے گا۔ (یعنی بین السطور امریکا کو پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا)

سوال: عملی طور پر آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟ کہ جو گروہ آپ نے بنائے، آج وہی آپ پر حملہ کر رہے ہیں۔

جواب: مقصد یہ ہے کہ افغانستان قابض قوتوں سے آزاد ہو۔ پھر تحریک طالبان پاکستان سے بھی نمٹ لیا جائے گا۔

انٹرویو قریب اڑتالیس منٹ پر محیط ہے۔ پاک افغان معاملات پر جنرل اسد درانی نے قطعیت کے ساتھ بات کی۔ روزنامہ ڈان کی خبر تو ذرائع سے لی گئی، جنرل صاحب تو ببانگ دہل وہی کچھ فرماتے رہے جو ڈیڑھ سال بعد اخبار نے لکھا۔

غالباً 1993 میں وہ ریٹائر بھی ہو چکے۔ اسامہ بن لادن آپریشن پر ان سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا وہ معاملات سے آگاہ نہیں۔ تو کیا افغانستان کے معاملات سے آگاہ تھے؟ کیا ان کے انٹرویو سے یہ تاثر نہیں ملا کہ 2015 میں بھی پاکستان اپنے موقف کے برعکس، چوری چھپے ناپسندیدہ عناصر کی مدد کرر ہا تھا؟ یہ انٹرویو جو بین الاقوامی چینل پر نشر ہوا، اور دنیا بھر میں دیکھا گیا، کیا اس سے پاکستان کی بدنامی نہیں ہوئی؟ جنرل صاحب نے کہا پاکستان نے امریکا کو بے وقوف بنایا، کیا ایسی باتیں کہنے کی ہوتی ہیں؟ کیا اس انٹرویو کے بعد دنیا نے پاکستان کو یہ نہیں کہا کہ ہم دوغلی پالیسی رکھتے ہیں؟

اور اس سے بھی اہم سوال تو یہ ہے۔۔ کیا واقعی پاکستان وہی کچھ کر رہا ہے جو روزنامہ ڈان آج کہتاہے، اور جنرل اسد درانی ڈیڑھ سال پہلے کہتے تھے؟

مکمل انٹرویو یہاں دیکھا

جا سکتا ہے:

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments