کھل نائیک: شباب، شراب، اور کباب


یہ نوجوانی میں دیکھی ایک فلم ہے۔ فلم کا نام تو یاد نہیں، لیکن ایک شاٹ یاد ہے، کہ مصطفے قریشی کے سامنے شراب کا گلاس دھرا ہے، اور وہ اسے خباثت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی ایک شاٹ سے ہدایت کار نے یہ واضح کر دیا، کہ یہ صاحب کھل نائیک ہیں۔ ولن ہیں۔۔۔ فلم، ریڈیو، ٹی وی، تھیٹر کے لیے کردار نگاری اہم ”جاب“ ہے۔ جب ایک مصنف کسی کردار کو لکھتا ہے، تو ہدایت کار، اداکار ان کرداروں کی چال ڈھال، اٹھک بیٹھک، بات چیت کے انداز کو شکل دیتے ہیں۔ اوپر بیان کی مثال کردار کا تعارف دینے کی انتہائی عامیانہ سی مثال ہے۔ ہمارے یہاں کھل نائیک، یا ولن کا پریچے مکمل نہیں ہوتا، جب تک وہ تک اسے شرابی کبابی پانچوں شرعی عیب کا حامل نہ دکھایا جائے۔ ستر اور اسی کی دہائی میں کئی کہانیوں میں ایسے ولن دکھائے جاتے تھے، جن کی نہ کوئی ماں ہوتی تھی، نہ کوئی بہن، نہ بیوی۔ تو یوں لگتا تھا، وہ کسی ایسے رشتے کا احترام کرنا نہ سیکھ پاتے، جن کا تعلق صنفِ نازک سے ہوتا۔

آج قدرے بہتری آئی ہے، کہ ولن کی ماں، بہن، اور بیوی ہو سکتی ہے۔ ان کے لیے اس کے دل میں ویسا ہی درد، ویسا ہی پیار پایا جاتا ہے، جیسا ایک بیٹے، بھائی، شوہر کے دل میں ہو سکتا ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی شراب، اور آوارہ عورت ولن کے کردار سے نتھی ہے۔ اس کے بغیر ولن، ولن نہیں لگتا۔ حتی کہ جس عورت کو برا ثابت کیا جانا ہو، اسے تمباکو نوش دکھایا جاتا ہے۔ گویا تمباکو نوشی ویمپ ہی کرتی ہے؛ یا جو خاتون سگریٹ پیتی ہو، وہ اچھی عورت نہیں ہوتی؛ ویمپ ہوتی ہے۔ اچھی عورت نہ ہونے کا مطلب ہے، بد قماش عورت۔ یہاں شراب یا تمباکو نوشی کا مقدمہ نہیں لڑا جا رہا؛ صرف یہ عیاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کہ ابلاغ عامہ کے ذرائع، جب کچھ پینٹ کرتے ہیں، اس کا جواز کہاں سے لاتے ہیں۔

دیہی پس منظر رکھنے والے دوست جانتے ہیں، کہ خواتین میں تمباکو نوشی معمول کی بات ہے۔ حقہ، چلم تک تو کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا؛ ہاں یہ ہے، کہ ”سگریٹ“ چوں کہ ”ولائیت“ سے لی گئی بدعت ہے، تو اس پہ کچھ تحفظات ہو سکتے ہیں۔ آج کوئی مرد سرعام سگریٹ پیتا ہو، تو چونکنے کی کوئی وجہ محسوس نہیں‌ ہوتی، جب کہ وہی سگریٹ کسی خاتون کے انگلیوں میں دبا ہو، تو ہر کوئی شوق سے دیکھنے لگے گا۔ مسکرائیں گے، آپس میں طنزیہ نگاہوں کا تبادلہ کریں گے؛ ممکن ہے، ایک آدھ آوازہ بھی کس دے۔ کوئی کسر رہ جائے، تو فلموں کی ویمپ کو یاد کر کے پوری ہوتی ہے، جو سگریٹ‌ پینے والی بد قماش ہے، آوارہ ہے۔۔۔ آوارہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اُس پہ آوازہ کسیں؛ آوازہ کسنے والے کو آوارہ کہنا چاہیے، لیکن بات سماج کے عمومی رویے کی ہے۔

ہماری فلموں میں ولن وہ ہے، جو اسمگلنگ کرتا ہو؛ خاص طور پہ منشیات، اور اسلحے کی اسمگلنگ۔۔ اسمگلنگ کا مال خریدنے والے مجبور محض ہیں۔ رشوت لینے والا برا تو ضرور دکھایا جاتا ہے، لیکن ”ولن“ کی تعریف پہ پورا نہیں اترتا، جب تک کہ وہ شراب نہ پیتا ہو، یا ”بد قماش عورت“ کا ہم رکاب نہیں ہوتا۔ یوں کہا جائے کہ وہ رشوت لیتا ہی عیاشی کے لیے ہے، اور عیش، شراب و شباب کا نام ہے، تو یہی تصویر بنائی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں کسی کو برا ثابت کرنے کے لیے اتنا کہنا کافی ہوتا ہے، کہ ”او جی، یہ شرابی ہے۔“۔۔۔ یا یہ کہ ”رنڈی باز ہے۔“۔۔۔ باقی کوئی طعنہ اتنا کارگر نہیں ہوتا، جتنا شرابی کبابی ہونا۔ آپ کہیے، کہ فلاں شخص یوں برا ہے، کہ راشی (عربی کے ”مرتشی“ کے معنوں میں) ہے، تو ہوں ہاں ہی میں ساری بات نپٹ جائے گی۔ کہیے، کہ فلاں نے بہن بھائی کی زمین پہ نا حق قبضہ جمایا ہے، تو معمولی بات سمجھتے نظر انداز کر دیا جائے گا۔ ما سوائے یہ کہ متاثرہ بہن بھائی آپ نہ ہوں۔ فلموں میں جائیداد ہتھیانے والا دکھایا جاتا ہے، تو وہ بھی شرابی کبابی۔۔۔ غیبت کرنے والا، بہتان لگانے والے کی مذمت کرنے کے بہ جائے، اس کا ساتھ دیا جائے گا۔ شاید یہ وجہ ہو، کہ غیبت کرنے، بہتان لگانے سے شراب کا واسطہ ثابت نہیں۔

آپ ایک عام آدمی سے پوچھیے، امام حسین علیہ السلام نے یزید کے خلاف جہاد کیوں کیا؟۔۔ بیش تر سے یہ جواب ملے گا، کہ یزید شراب پیتا تھا، زنا کرتا تھا۔ بس اس کے بعد کچھ اور پوچھنے کی ضرورت رہ نہیں جاتی۔ دیکھا یہ گیا ہے، کہ محروم طبقے کے افراد کسی امیر کو دیکھتے ہیں، تو ان کی نظر میں یہی ہوتا ہے، کہ یہ اپنی دولت سے شراب اور آوارہ عورت کی ”عیاشی“ کرتا ہوگا۔ میرے مشاہدے میں، بہت سے ایسے افراد ہیں، جو شراب پیتے ہیں۔ معمول کی زندگی گزارتے ہیں؛ وقت کے پابند ہیں؛ احساس ذمہ داری ہے؛ دوسروں کا حق نہیں مارتے، رحم دل ہیں۔ سخی ہیں۔ ان میں جو جھوٹ بولیں محفوظ ہیں، لیکن جو سچ کہ دیں، انھیں معاشرے میں زرا عزت نہیں دی جاتی؛ کیوں کہ وہ شراب ہی نہیں پیتا، بل کہ اعتراف بھی کرتا ہے۔ جھوٹ بولنا اس سماج میں معمولی بات ہے؛ سو جھوٹ کا کاروبار خوب ہے۔ کھل نائیک ہونے کے لیے جھوٹا ہونا کافی نہیں، لیکن سچ بول کر آپ ولن بن سکتے ہیں۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کا پینا ”زرا سی“ کو کیسے اچھالا گیا، یہ ہماری تواریخ کا حصہ ہے۔

شراب پینا، سگریٹ پینا اچھی عادات نہیں؛ ان کا گناہ اپنی جگہ؛ جھوٹ، غیبت، رشوت ستانی، ناجائز قبضہ، دوسروں کے حقوق پہ ڈاکا ڈالنا، یہ گناہ معمولی نہیں؛ تمام بے اعمالیوں کو ایک جھوٹ بول کر چھپایا جا سکتا ہے؛ لیکن ہمارا یہ احوال ہے، اگر کوئی سیاست دان یا ذمہ دار شخص جھوٹ بولے اسے جرم نہیں سمجھا جائے گا، اور سچ کہے، لیکن شراب پیتا ہو؟ استغفر اللہ!۔۔ شراب تو دور۔۔ سیاست دان، کھلاڑی، مشہور شخصیات ایسی تصاویر بھی نہیں کھنچواتے، جن میں ان کے ہاتھ میں‌ سگریٹ ہو۔۔۔ بدقماش عورت؟۔۔ نعوذ باللہ۔۔ اگر یہ بدقماش اپنے پہلو میں ہو؟۔۔ سبحان اللہ۔۔ ناظرین کی اکثریت جب ایسا سوچتی ہے، تو ہدایت کار انھی کے ذہن سے کھیلتے، اپنے کردار کو شکل دیتا ہے۔ وہ بات جسے کہنے کے لیے کئی شاٹ، کئی الفاظ درکار ہوں گے، مروج فکر کے مطابق، اسے محض ایک فریم میں سمو کر اپنا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا فلموں کا ہدایت کار ہی نہیں کرتا؛ حقیقی زندگی میں ”اسٹیک ہولڈر“ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے لیے، فریقین پہ ”شراب اور عورت“ کا بہتان لگا کر کئی فوائد حاصل کر لیتے ہیں، جو دوسرے الزامات لگا کر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو ظاہر ہے، کہ بہتان کے لیے جھوٹ ہی کا سہارا ہوتا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments