ڈاکٹر نجیبہ عارف سے ایک مصاحبہ


پچھلے دنوں ڈاکٹر نجیبہ عارف کراچی تشریف لائیں اور انجمن ترقی اردو میں ان کے حوالے سے ایک نشست رکھی گئی جس کا موضوع تھا ”آصف فرخی کی نجیبہ عارف سے ایک گفتگو”۔ آصف فرخی کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے کچھ دیر سے تشریف لائے۔ اس دوران ڈاکٹر فاطمہ حسن کی فرمائش پر حاضرین محفل کو ڈاکٹر نجیبہ عارف کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور یہ احساس ہوا کہ ڈاکٹر نجیبہ عارف نظم کی بہترین شاعرہ ہیں۔ یہاں ایک مصاحبے کے طور پر وہ گفتگو درج ذیل ہے جو انجمن ترقی اردو کراچی میں آصف فرخی نے نجیبہ عارف سے کی۔ اس کے علاوہ چند سوالات وہ ہیں جو 6 جولائی 2016 کو ایک نجی ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے انٹرویو میں کیے گئے تھے۔

سوال: آپ کے یہاں کئی جہتیں ہیں، تنقید، متنی تنقید، تہذیب کے ساتھ وابستگی، پھر فکشن لکھنے کی طرف رغبت کس طرح ہوئی؟

جواب: شاعری میری پہلی محبت ہے۔ پھر اس کے ساتھ سلوک بھی وہی کیا کہ اسے بھلا دیا اور کہیں اور نکل گئی۔ پہلا افسانہ آٹھویں جماعت میں لکھا۔ اس پر 200 روپے کا انعام بھی ملا۔ شاعری اور افسانہ ابتدا سے ہی میرے ساتھ تھے۔ شاعری، افسانہ یا ادب کی کوئی جہت میرے لیے دریافت کا مسئلہ تھی۔ اس لیے مین نے کسی صنف کو شناخت بنانے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اپنی تخلیقی جہت سے محبت کی۔

سوال: ہمارے یہاں پست تعلیمی نظام کا ذمے دار کون ہے؟ اساتذہ، طالب علم یا حکومت؟

جواب: میرا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے خوشاب سے ہے۔ جہاں اساتذہ ہم سے اون کے گولے بنواتے اور بے شمار کام کرواتے تھے۔ مگر پھر بھی ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے جب کہ ہمارے بچے ہم سے بہتر ماحول میں رہنے کے باوجود اس طرح نہیں سیکھ رہے۔ جس طرح ہم نے سیکھا تھا۔ مولانا حالی جیسی شخصیت، اب ہماری تہذیب پیدا نہیں کر رہی ہے۔ کاش ہمارے ملک میں مولانا حالی جیسی شخصیت پیدا کرنے والی تہذیب ہوتی تو یقیناً یہاں بھی ایسے طالب علم پیدا ہوتے۔ ہمارے یہاں تہذیب کی تبدیلی فطری طریقے سے نہیں ہوئی بلکہ ایک تہذیب کو ختم کر کے دوسری تہذیب کو لاگو کردیا گیا ہے اور یہ ہی ہمارے تعلیمی زوال کا سبب ہے۔

سوال: کیا موجودہ دور میں ایسے ادیب پیدا ہو رہے ہیں جو ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں؟

جواب: میں سمجھتی ہوں کہ وہ ادیب جن کا تعلق قدیم تہذیب سے تھا۔ وہ اچھے ثابت ہوئے۔ ان کے لیے ادب کا مقصد اپنی ذات کا اظہار تھا۔ اب نئے آنے والے اپنے ذاتی مفادات، عہدہ، نام، مقام کے لیے لکھ رہے ہیں۔ بس اسی وجہ سے ادب کو فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔

سوال: کیا موجودہ دور میں ادب کی تدریس کا طریقہ درست ہے؟

جواب: اب ادب پڑھنا کون چاہتا ہے؟ اب اردو میں صرف وہ ہی داخلہ لیتے ہیں جن کو کہیں اور داخلہ نہیں ملتا۔ صرف اکّا دکّا لڑکیاں ہی شوق سے آتی ہیں جب کہ زیادہ تر لڑکیاں جو شعبۂ اردو میں آتی ہیں۔ ان کا رجحان اردو کی طرف نہیں ہوتا۔ میں اسلام آباد میں جس جامعہ کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوں وہاں خواتین کا شعبہ الگ ہے۔ وہاں وہ خواتین آتی ہیں جو ایک ایم اے کرنے کے بعد اپنے گاؤں واپس نہیں جانا چاہتیں یا ان کو کسی اور شعبے میں داخلہ نہیں ملتا۔ البتہ لاہور میں شعبۂ اردو کی صورت حال اسلام آباد سے بہتر ہے۔

سوال: جدید ادب میں کون سی چیزیں ہیں جن سے طالب علموں کو واقف ہونا چاہئے؟

جواب: جدید ادب کا تعلق فلسفے سے ہے۔ ہمیں فلسفے کی احیاء کی کوشش کرنی چاہیے۔ فلسفہ انسان کو استدلال سکھاتا ہے۔ ادب پڑھنے کے لیے تاریخ، عمرانیات، نفسیات سے واقفیت ضروری ہے۔ ادب کی نامور شخصیات کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ادب کی بے ادبی کا سبب یہ ہے کہ اردو زبان کی تعلیم سرے سے مفقود ہوچکی ہے۔ اردو زبان کے لسانی پہلو تو پڑھائے ہی نہیں جاتے۔ ہمارے یہاں نصاب میں گھسے پٹے سوالات دیے جاتے ہیں۔ زبان کی تدریس کے جدید طریقوں سے ہمارے اساتذہ نابلد ہیں۔ انگریزی کی تدریس بہتر ہونے کی وجہ سے انگریزی میں طلبہ زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔ زبان ایک آلہ ہے اس کے بغیر ہم کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ ہمیں اردو زبان کی تدریس بہتر کرنے کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے تب ہی ہم ادب کو پھیلاسکتے ہیں۔ ہمیں باقی شعبوں میں بھی ادب کو پڑھانا چاہیے تاکہ ادب کے حوالے سے صورت حال بہتر ہوسکے۔

سوال: آپ کو اپنا سب سے معتبر حوالہ کون سا لگتا ہے؟

جواب: ماں، اور بیوی، علمی اور پیشے کے حوالے سے استاد ہونا، کچھ لکھنا پڑھنا۔

سوال: آپ کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہونے کے باوجود آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی کیا اس وقت عورتوں کی تعلیم میں رکاوٹیں نہیں تھیں؟

جواب: الحمد اللہ میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا کہ جہاں تعلیم سے محبت کی جاتی ہے۔ میری نانی ایک ناخواندہ خاتون تھیں۔ مگر انہوں نے اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور ان کی بیٹیوں نے بھی اپنے بچوں کے حوالے سے تعلیم کو مقدم رکھا۔ مجھے تعلیم کے حوالے سے کبھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میکے اور سسرال دونوں جگہ تعلیم کے حوالے سے میری حوصلہ افزائی کی گئی۔

سوال: آپ کو کیا چیز سب سے زیادہ پسند ہے۔ شاعری کرنا؟ افسانے لکھنا؟ ریسرچ کرنا؟

جواب: میرے خیال میں وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا مزاج تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پہلے شاعری کرنا پسند تھا مگر اب تاریخ پڑھنا اور ریسرچ کرنا پسند ہے۔

سوال: آپ کے پہلے افسانے کا موضوع کیا تھا؟

جواب: رومانوی افسانہ تھا ،جیسے خواتین کے رسالوں میں شائع ہونے والے افسانے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا افسانہ تھا۔

سوال: لکھنے کے دوران آپ کن شخصیات سے متاثر ہوئیں؟

جواب: مشتاق احمد یوسفی کی نثر، مختار مسعود کی نثر، اس کے علاوہ ممتاز مفتی سے بہت متاثر رہی۔ بلکہ میرا پی ایچ ڈی کا موضوع بھی ممتاز مفتی ہی تھے۔ میں نے قدرت اللہ شہاب سے بھی بہت کچھ سیکھا۔

سوال: کیا آپ خواتین کے لیے لکھے گئے ادب سے مطمئن ہیں؟

جواب: خواتین کو علیحدہ رکھ کر دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے کچھ نہیں لکھا جا رہا۔ جتنا مردوں کے لیے لکھا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھا جائے گا کہ خواتین لکھنے والیاں کتنی ہیں؟ البتہ کشور ناہید نے عورت کے حوالے سے جو کچھ بھی لکھا ہے اپنے ادب میں انہوں نے عورت کی بہتر عکاسی کی ہے۔

سوال: ایک عورت کو ادب کی تخلیق میں کس حد تک بولڈ ہونا چاہیے؟

جواب: ایک عورت اگر سنجیدگی سے چاہے تو ہر موضوع پر بات کرسکتی ہے۔

سوال: آپ کی زندگی کا حسین ترین لمحہ؟

جواب: جب میں نے اپنی بیٹی کو پہلی مرتبہ دیکھا۔

سوال: آپ مایوس ہوتی ہیں؟

جواب: اللہ کا بڑا کرم ہے کہ کبھی مایوسی کا لمحہ نہیں آیا۔

سوال: غصہ آتا ہے؟

جواب: آتا ہے مگر کوشش کرتی ہوں اسے قابو کرلوں۔

سوال: اب اس معیار کا ادب تخلیق نہیں ہو رہا۔ آپ کا خیال ہے؟

جواب: ہر زمانے کا معیار بدل جاتا ہے۔ یہ فیصلہ بعد کے زمانے کے لوگ کرتے ہیں۔ آج بھی اچھا کام کرنے والے لوگ موجود ہیں۔

سوال: افسانہ کن چیزوں سے متاثر ہوکر لکھتی ہیں؟

جواب: بعض اوقات انفرادی موضوع سے متاثر ہو کر لکھتی ہوں کبھی سماجی موضوعات سے متاثر ہوکر لکھتی ہوں۔

سوال: کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو اور اسے پورا کرنے کی تڑپ ہو؟

جواب: بس ایک ہی خواہش ہے کہ زندگی بے مقصد اور رائیگاں نہ جائے۔

سوال: آپ کلاس میں اپنے موضوع کو کس طرح بیان کرتی ہیں؟

جواب: ایک عجیب سی بات ہے کہ لیکچر کے دوران فوراً محسوس ہوجاتا ہے کہ الفاظ طلبہ کے دل میں اتر رہے ہیں اور کبھی سامنے والی دیوار سے ٹکرا کر واپس آپ کے ماتھے پر لگ رہے ہیں۔ ہر دن طلبہ کے ساتھ مختلف تجربہ ہوتا ہے۔

سوال: نئے اور پرانے لکھنے والوں کے درمیان کیا کوئی کمیونیکیشن گیپ ہے؟

جواب: ہمارے سینیئر کو زبان پر زیادہ عبور حاصل تھا۔ اب گلوبلائزیشن ہماری زبان پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں ادیبوں کی زبان پر وہ مہارت نظر نہیں آتی۔

سوال: نقاد کی حیثیت سے کسی تحریر پر تنقید کس طرح کرتی ہیں؟

جواب: فکشن کی تنقید کے دو حوالے ہیں۔ ہمارے یہاں موضوع پر بات کی جاتی ہے۔ جب کہ تکنیک کا حوالہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ کردار کیسے ہیں؟ ان کی نشوونما کیسی ہوئی؟ اس کا پلاٹ کیسا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ تحقیق کا کوئی بھی موضوع تاریخ سے کسی نہ کسی حوالے سے تعلق ضرور رکھتا ہے۔ ادب عوام کی لکھی ہوئی تاریخ ہے اور میں اس حوالے سے ادب کا مطالعہ کرتی ہوں۔

نجیبہ عارف سے مصاحبے کا اختتام ان کے ان اشعار پر ہوا۔

الفاظ کے امکانِ نہانی سے زیادہ

کہی ہے کوئی بات معنی سے زیادہ

ایک اور حقیقت ہے پس و پیش حقیقت

ایک اور کہانی ہے کہانی سے زیادہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments