باب ڈلن، نوبیل انعام اور ادبیاتِ عالیہ


\"naseerلگتا ہے سویڈش اکیڈمی امریکہ پر مہربان ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدر بارک اوباما کو امن کے لیے کوئی قابلِ قدر خدمت انجام دیے بغیر، محض سیاسی بنیادوں اور امریکہ کا پہلا کالا صدر ہونے کے ناتے امن کا نوبیل انعام دے دیا گیا تھا۔ جبکہ عالمی امن جتنا مجروح ان کے دورِ حکومت میں ہوا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ افغانستان، افریقہ اور مشرق وسطیٰ بالخصوص عراق، لبیا، یمن، مصر اور شام کی مخدوش صورتِ حال اور انتشار بیان سے باہر ہے۔ بے شمار بے گناہ بشمول عورتیں اور بچے مارے جا چکے ہیں، لاکھوں دنیا بھر میں دربدر اور بے گھر ہیں۔ ہزاروں پناہ کی تلاش میں کھلے سمندروں میں ڈوب گئے ہیں۔ روس کے ساتھ سرد جنگ کا زمانہ لوٹ آیا ہے اور دنیا میں ایٹمی جنگ کا خطرہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت نے پورے گلوب کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور امریکی پالیسیوں اور جنگی سرگرمیوں کی بدولت اقوامِ عالم تیسری جنگِ عظیم کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روسی صدر پیوٹن کو یہ کہنا پڑ گیا ہے کہ دنیا کا نقشہ بناؤ اور دیکھو کہ اس میں کہاں کہاں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں! اور اب اِس برس ادب کا نوبیل انعام پچھتر سالہ امریکی موسیقار، گلوکار اور نغمہ نگار باب ڈلن کو دیا گیا ہے۔ نوبیل انعام کی تاریخ میں وہ پہلے موسیقار، گلوکار اور نغمہ نگار ہیں جنہیں ادب کا یہ بڑا انعام دیا گیا ہے۔ یوں امریکہ ادب کے سب سے زیادہ نوبیل انعام پانے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ امریکہ کو دیے جانے والے ادب کے نوبیل انعامات کی تعداد گیارہ ہو گئی ہے۔ فرانس پہلے نمبر پر ہے اور برطانیہ تیسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔ اس اعلان پر دنیا بھر کے ادبی حلقے حیران ہیں لیکن سویڈش اکیڈمی کا کہنا ہے کہ باب ڈلن نے اپنے نغموں کے ذریعے شاعری کو اظہار کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے۔ باب ڈلن کے بعض نغمے  بہت مقبول ہوئے تھے اور امریکہ میں جنگ مخالف اور شہری حقوق کے ترانے بن گئے تھے۔

\"bobdylan\" امریکی نغمہ نگار، موسیقار، گلوکار اور آرٹسٹ باب ڈلن، جن کا اصلی نام رابرٹ ایلن زمرمین ہے، 24 مئی 1941 میں پیدا ہوئے۔ 1960 سے پاپ میوزک میں ان کا نام بننا شروع ہوا اور کم و بیش پانچ دہائیوں تک امریکی ثقافت و موسیقی اور پاپ میوزک  میں ان کا شہرہ رہا۔ ان کے ابتدائی دور کے گیت \”Blowin\’ in the Wind\” اور \”The Times They Are a-Changin\’\” امریکہ میں شہری حقوق اور جنگ مخالف تحریکوں کا ترانہ بن گئے۔ باب ڈلن نے اپنے گیتوں میں سیاسی، سماجی، فلسفیانہ اور ادبی موضوعات کا بڑی فنکاری سے احاطہ کیا ہے۔ باب نے امریکی لوک ثقافت، موسیقی، گلوکاری اور نغمہ نگاری کی روایت کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا اور اسے نہ صرف اپنے دَور سے ہم آہنگ کیا بلکہ امریکی گیت نگاری کی عظیم روایت کے اندر رہتے ہوئے اسے نئے شعری اسلوب سے آشنا کیا اور اظہار کے نئے سانچوں میں ڈھالا۔ ان کی یہی خوبی انہیں ادب کا نوبیل انعام دلانے کا باعث بنی ہے۔ انہیں پاپ اور راک عہد کا شاعر کہا جا سکتا ہے۔ باب نے فوک، بلیوز، کنٹری سے لے کر گوسپل، راک اینڈ رول اور جاز تک میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ آلاتِ موسیقی میں وہ  عام طور پر گٹار، کی بورڈز اور ہارمونیکا کا استعمال کرتے تھے۔ باب کی اپنی پیشہ وررانہ زندگی میں ایک ریکارڈنگ آرٹسٹ کے طور پر مرکزی حیثیت رہی لیکن ان کا اصل کام ان کی گیت نگاری ہے جسے موسیقیت اور شعریت کا مرکب و امتزاج سمجھا جاتا ہے۔  باب ڈلن کے ایک سو ملین سے زیادہ ریکارڈ فروخت ہوئے۔ یوں انہیں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے آرٹسٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ گریمی ایوارڈ، گولڈن گلوبل ایوارڈ اور اکیڈمی ایوارڈ یافتہ باب ڈلن کو 2012ء میں امریکی صدر بارک اوباما نے صدارتی میڈل آف فریڈم دیا۔ اب تک باب کی ڈرائنگز اور پینٹنگز کی چھ کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں اور  دنیا کی بڑی اور نامور آرٹ گیلریز میں ان کے مصوری کے کام کی نمائش ہو چکی ہے۔ ان کی نثر اور شاعری کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔ نیز ان کا ایک طویل گیت آکسفورڈ بُک آف پوئٹری کے 2006 کے ایڈیشن میں شامل ہوا۔ اب 2016ء میں بہترین نغمہ نگاری پر انہیں ادب کا نویبل انعام بھی مل گیا ہے۔

باب ڈلن کو یہ انعام ملنے سے جہاں ادب کے نوبیل انعام کا علاقہ وسیع ہوا ہے اور نئے راستے کھلے ہیں وہاں ادبی تنازعات، سوالات اور \"bob-dyl\"مباحث کے نئے در بھی وا ہوئے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ سویڈش اکیڈمی کا ایک مقبول موسیقار، گلوکار اور نغمہ نگار کو ادب کا نوبیل انعام دینے کا یہ فیصلہ انتہائی نوعیت کا اور انقلاب پسندانہ ہے اور ادب کی تعریفِ نو کے مترادف ہے۔ پچھلے سال بیلا روس کی ایک تفتیشی صحافی اور نان فکشن لکھاری کو ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کی طرح اس برس کا انتحاب بھی غیرمعمولی ہے۔ اسٹیفن کنگ، جوائس کیرول، سلمان رشدی جیسے معروف ادیبوں نے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ امریکی ملک الشعرا بلی کولنز کے خیال میں بھی باب ڈلن نغمہ نگار کی بجائے ایک شاعر کہلانے کا مستحق ہے۔ لیکن دنیا کے زیادہ تر ادیبوں اور شاعروں نے اسے گمراہ کن قرار دیا ہے۔ اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا گیت نگاری کو، چاہے کتنی اچھی کیوں نہ ہو، ادب کا درجہ دیا جا سکتا ہے؟ بعض نے تو اسے ونسٹن چرچل کو ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کے فیصلے کی طرح احمقانہ کہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو سارتر نے 1964ء میں نوبیل انعام لینے سے انکار کر دیا تھا۔ سوویت یونین کے بورس پاسٹرک نے 1958ء میں حکومت کے دباؤ پر یہ انعام واپس کر دیا تھا۔ چیخوف، ٹالسٹائی اور گورکی جیسے عظیم ادیب اس انعام کے حقدار نہیں ٹھہرے تھے۔ اس تناظر میں سوچا جائے تو سویڈش اکیڈمی کا یہ فیصلہ ماضی کی طرح سیاسی ہونے کے بجائے ادبِ عالیہ اور کمرشل ادب کی تخلیقی نوعیت کی ہیئات کے مابین کسی گم شدہ کڑی کو ملانے اور دونوں کے درمیان وسیع اختلاف کم کرنے کی ایک علامتی کاوش ہی ہو سکتا ہے اور یہی قیاس لگایا جا رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں فلمی ادب، جاسوسی ادب اور ڈائجیسٹوں کے ادب پر ابھی تک سوالیہ نشان ہے اور اسے ادب کے مرکزی دھارے کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ بہرحال باب ڈلن کا نوبیل انعام دنیا بھر کے گیت کاروں اور نیم ادبی نیم شعری تخلیقی اسلوب اختیار کرنے والے کمرشل آرٹسٹوں  کے لیے نئے امکانات، نئے تعینات کی نوید لایا ہے اور اقلیمِ ادب کا حدودِ اربعہ بڑھانے کا واضح اعلان ہے۔ تاہم ادب کی سرحدوں کا پھیلاؤ اپنی جگہ لیکن یہ سوچنا بھی برحق ہے کہ کیا باب ڈلن کے گیتوں کو ٹی ایس ایلیٹ، گارشیا مارکیز، ٹونی موریسن، سیموئل بیکٹ، پابلو نیرودا وغیرہم کے ادبی کام کے ہم پلہ کہا جا سکتا ہے؟ کیا دنیا حقیقی اُدبا و شعرا سے خالی اور ادبیاتِ عالیہ میں اضافہ کرنے سے قاصر ہوتی جا رہی ہے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments