ایک شاعر کی سیاسی یادیں


\"basir-sultan-kazmi\"’’کیا آپ سیاست میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

یہ سوال معروف و مقبول ’غیر سیاسی‘ شخصیات سے اکثر کیا جاتا ہے۔ سوال کرنے والوں کے نزدیک سیاست سے مراد سیاسی جماعت بنانا یا کسی جماعت میں شمولیت اختیار کر کے انتخابات میں حصہ لینا اور اقتدار میں آکر یا حزب اختلاف میں رہ کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس لفظ کو وسیع تر معنوں میں استعمال کیا جائے تو زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جہاں اس کا اطلاق نہ ہو سکتا ہو۔ سیاست، معیشت، سماجیات، فلسفہ، دین و مذہب، انتظامی امور آپس میں اس طرح آمیخت ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ کو ان موضوعات سے دلچسپی ہے تو اس کتاب میں اپنی دلچسپی کا کچھ نہ کچھ سامان ضرور پائیں گے اور اگر آپ صرف حسن وعشق کی داستانیں پڑھنے کے شائق ہیں تو مجھے امید ہے کہ یہ کتاب پڑھ کے آپ اول الذکر موضوعات میں بھی دلچسپی لینے لگیں گے۔ آخر ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سلیم اور انارکلی اور رومیو جولیٹ جیسے المیے سیاسی مصلحتوں، طبقاتی کشمکش اور خاندانی جھگڑوں کے باعث ہی تو رونما ہوئے تھے۔ اس کے برعکس ان گنت شادیاں ماضی میں ریاستوں کے درمیان جنگوں کو ختم کرنے کے لئے کی جاتی رہیں اور موجودہ دور میں خاندانی تنازعوں کو نمٹانے یا دوستیاں قائم کرنے کے لئے طے پاتی ہیں۔

اس طرح دیکھیں تو سیاست سے ہر شخص کا تعلق ہے، یعنی ہر شخص ’سیاست میں‘ ہے۔ کسی سیاسی جلسے میں کچھ لوگ سٹیج پر ہوتے ہیں جو سیاست دان یا رہنما کہلاتے ہیں اور باقی جلسہ گاہ میں سیاسی کارکن اور حاضرین ہوتے ہیں۔ فی زمانہ کروڑوں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس سرگرمی میں شریک ہوتے ہیں۔ جوعدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں وہ بھی ایک طرح سے شریک ہی ہوتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ میں کسی قرارداد یا بل پہ ووٹنگ کا نتیجہ بتایا جاتا ہے تواس کے حق اور مخالفت میں ووٹ دینے والے اراکین کے ساتھ ساتھ ووٹ دینے سے اجتناب (abstain)  کرنے والوں کی تعداد بھی بتائی جاتی ہے اور غیر حاضر ہونے والوں کی بھی۔ کچھ نہ کرنا بھی کچھ کرنا ہوتا ہے، جس کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ اپنی پسندکی زندگی گذارنے کے لئے دنیا بھی اپنی پسندکی چاہئے۔ آپ دنیا کو نہیں بدلیں گے تو یہ آپ کو بدل دے گی۔ دنیا کو اپنے آدرش کی دنیا بنانے کی کوشش کا نام سیاست ہے اور انسان کا ہر قابل تفہیم عمل اس کوشش میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔

ہوش سنبھالنے سے اب تک کی اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو یہ دنیا مجھے ایک کمپیوٹر کی طرح نظر آتی ہے جس میں بہت سے پروگرام feed  کیے گئے ہوں۔ اس کے استعمال کرنے والے (users) ، اس دنیا میں نئی دنیاؤں کے موجد ہو سکتے ہیں لیکن اس بڑی دنیا کو چلانے والے قوانین کو نہیں بدل سکتے۔ وہ جتنا زیادہ اس کمپیوٹر کو سمجھ لیں گے اتنا ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ کوئی user کسی key کے function کو جانتے ہوئے اسے دبائے گا تو مطلوبہ نتائج پائے گا اور اگر وہ اپنی اپج کی پیروی کرتے ہوئے trial & error کے طریقے پر عمل پیرا ہو گا تو نتیجہ کبھی اس کی منشا کے مطابق نکلے گا کبھی مخالف۔ غلطی کرنے پروہ کہیں کا کہیں نکل سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پروگرام respondکرنا چھوڑ دے۔ ایسی صورت میں user کو track back کرنا ہو گا اور جس جگہ غلط key دبی تھی وہاں پہنچ کر درست لائن لینی ہو گی۔

اِس سے قطع نظر کہ یہ کائنات کسی قادرِ مطلق ہستی نے تخلیق کی ہے یا یہ خود بخود وجود میں آئی ہے، اِس بات سے کسی نے انکار نہیں کیا کہ یہ کچھ اٹل قوانین کے تابع ہے۔ ان قوانین کے عمل پذیر ہونے کا احساس مجھے بچپن ہی میں ہونا شروع ہو گیا تھا۔ جو کہانیاں نانی اماں سے سنیں یا رسالوں میں پڑھیں ان میں برے کردار کچھ عرصہ پھلنے پھولنے کے بعد بھیانک انجام سے دوچار ہوتے اور اچھے کرداربہت سی سختیاں جھیل کر، نقصان اٹھا کے اور قربانیاں دینے کے بعد سرخرو ہوتے۔ فلمیں دیکھنی شروع کیں تو ان میں بھی یہی ہوتا۔ لیکن یہ سمجھ میں نہ آتا کہ ہمیشہ ایسا ہی کیوں ہوتا تھا۔ کیا محض اس لئے کہ لوگوں کو اچھا بنانا مقصود تھا اور برائی سے باز رکھنا؟ ایسا ہونے کی کچھ ’ٹھوس‘ وجوہات یونانی المیے اور شیکسپئر کے ڈرامے پڑھ کر سامنے آئیں۔ شاعرانہ عدل (poetic justice)  اور تقدیر کی ستم ظریفی (irony of fate ) جیسی اصطلاحوں کا پتہ چلا۔ برے کردار تو ایک طرف، اچھے کردار بھی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ بھگتتے نظر آئے۔ ہیرو پہلے تو اپنے کسی کارنامے کی وجہ سے سرفراز اور مقبول ہوتا ،پھر اس سے اپنی کسی خامی (tragic flaw) کے سبب یا کسی اور وجہ سے اندازے کی کوئی غلطی (error of judgment) سرزد ہوتی جو اس کے زوال کا باعث بنتی۔ کہانی کے کرداروں اور کہانی پڑھنے والوں کو افسوس ہوتا،ایک اچھے اور بلند مرتبت شخص کو ایک معمولی سی غلطی کے نتیجے میں تباہ ہوتے دیکھ کر۔ لیکن جو غلطی تخت سے تختے تک لے جائے وہ معمولی کیسے ہو سکتی ہے؟

روایتی کہانیوں کی طرح یونانی ڈراموں اور شیکسپئر کے زیادہ تر اہم کردار بھی بادشاہ، شہزادے شہزادیاں یا اونچے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کی مثبت وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ عام لوگ یہ دیکھیں کہ اگر مطلق العنان بادشاہ بھی غلطی کر کے سزا سے نہیں بچ سکتے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں۔ منفی وجہ یہ کہ عام لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ تم اگر وسائل کی کمی اور مسائل کی افراط کا شکار ہو تو اس پہ کڑھنے کی بجائے شکر کرو۔ تم اگر گرو گے تو بچ جاؤ گے کیونکہ زیادہ بلندی سے نہیں گرو گے۔ حکومت کرنا کچھ خاص لوگوں کے لئے رہنے دو۔ ان کے ٹھاٹھ باٹھ قابل رشک ہیں لیکن ان کا زوال باعث عبرت ہوتا ہے۔ حکومت کرنے کو ایک موروثی حق بنانے میں ان کہانیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی بڑے سے بڑے سیاست دان کو کچھ نہ کچھ سکھا سکتا ہے۔ ایک مشہور روایت کے مطابق، سکاٹ لینڈ کا بادشاہ، ان کی جنگ آزادی کا ہیرو، رابرٹ دی بروس مسلسل کئی جنگوں میں شکست کھانے کے بعد، دشمنوں سے بچتا ہوا، ایک غار میں پناہ گزین ہوا۔ اس نے دیکھا کہ جالے کے تار سے لٹکتا ہوا ایک مکڑا اس کوشش میں تھا کہ وہ تار کے اس سرے کو غار کی چھت تک لے جائے اور اسے وہاں چپکا کے دوسرا تار بنے اور جالا بننے کا عمل جاری رکھے۔ اس کاوش میں وہ متعدد بار ناکام ہوا۔ اس کی ہر ناکامی کے بعد رابرٹ یہ سوچتا کہ بس یہ اس کی آخری کوشش تھی۔ لیکن مکڑے نے ہار نہ مانی اور جالے کا تار وہاں پہنچانے میں کامیاب ہوگیا جہاں وہ پہنچانا چاہتا تھا۔ رابرٹ نے سوچا کہ اگر ایک مکڑے کا عزم اتنا پختہ ہو سکتا ہے تو انسان تو پھر انسان ہے۔ اس خیال نے اس کی کایا پلٹ دی۔ وہ باہر آیا، اپنے بکھرے ہوئے لشکر کو اکٹھا کیا اور فتح یاب ہوتا چلا گیا۔

میں نے کبھی روزنامچہ یا ڈائری نہیں لکھی لیکن میں اپنے کاغذات غیر ضروری طور پر سنبھال کے رکھنے کا عادی رہا ہوں۔ ان میں دفتری دستاویزات ، موصول ہونے والے خطوط ، لکھے گئے خطوط کی کاپیاں، سکول کالج کے سرٹیفیکیٹ، تصاویر، رسائل و جرائد، اخبارات کے تراشے، تقریبات کے اشتہار، نوٹ بکس، سفری دستاویزات بشمول ٹکٹ وٖغیرہ شامل ہیں۔ تصاویر تو سبھی محفوظ کرتے ہیں۔ ان سب کی وجہ سے مجھے اپنی یادوں کو زمانی ترتیب دینے میں بہت مدد ملی۔

ہنری فیلڈنگ نے لکھا ہے کہ فکشن میں سب کچھ سچ ہوتا ہے، تاریخوں اور ناموں کے علاوہ اور تاریخ میں کچھ بھی سچ نہیں ہوتا، تاریخوں اور ناموں کے علاوہ۔ دلچسپ بات ہے لیکن صرف بات کی حد تک۔ میں نے ایسی فکشن لکھنے کی کوشش کی ہے جس میں تاریخیں اور نام حقیقی ہیں اور ایسی تاریخ جس میں تاریخوں اور ناموں کے سوا بھی بہت کچھ سچ ہے۔ اسے قابل اعتبار بنانے کے لئے میں نے اس میں بیسیوں ناموں کا اندراج کیا ہے تاکہ دوران تحریر میرے ’بہکنے‘ کا امکان کم سے کم ہو جائے۔ جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے بیشترحیات ہیں اور میرے حافظے یا نیت کی کوتاہی پہ گرفت کرسکتے ہیں۔ البتہ مجھے اعتراف ہے، اور اس پہ میں معذرت خواہ بھی ہوں، کہ دوران مطالعہ قاری کو اتنے بہت سے ناآشنا نام دیکھ کے کوفت ہو سکتی ہے اور یہ خواندگی میں رکاوٹ بھی بن سکتے ہیں۔ میں نے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے واقعات کے عنوانات دے دیے ہیں تاکہ وہ عنوان دیکھ کے مضمون بھانپ لیں اور اس میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں تو اگلے حصے پہ چلے جائیں، اگرچہ ایسا کرنے سے کہیں کہیں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی ایسا جملہ چھوڑ جائیں جس کا بعد میں بیان کی گئی کسی بات سے تعلق ہو لیکن یہ ہرج کم ہو گا،وقت کی اُس بچت کے مقابلے میں جو وہ کر چکے ہوں گے۔

(زیر طبع کتاب سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments