اپوزیشن بنام حکومت۔۔۔ ملزم (عوام) حاضر ہو


\"mujahidملک کی مذہبی جماعتیں اور پاکستان تحریک انصاف اس ماہ کے آخر میں اسلام آباد میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے والی ہیں۔ ان میں سے دفاع پاکستان کونسل کو براہ راست عسکری حلقوں کی نمائندہ آواز سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے بارے میں بھی اسی قسم کے شبہات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں ہونے والے ایک اجلاس کی خبر شائع ہونے کے بعد گزشتہ ایک ہفتے سے اس پر ردعمل کا سلسلہ جاری رہا۔ کور کمانڈرز کانفرنس نے اس خبر کو قومی سلامتی کے خلاف قرار دے کر ایک سنسنی خیز ماحول پیدا کیا ہے۔ اس لئے جب فوج کے براہ راست یا بالواسطہ حمایت یافتہ گروہ اور سیاسی جماعت ملک کے دارالحکومت میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کریں گی تو یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اس کا ملک میں مستقبل کی سیاست اور موجودہ حکومت پر کیا اثر مرتب ہو گا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ اگلے ہفتے کے دوران وزیراعظم کی نااہلی کے بارے میں تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں اور گروہوں کی درخواست پر بھی غور کرے گی۔ یہ فیصلہ بھی دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ کی سرکردگی میں تین رکنی بنچ ان درخواستوں کو رجسٹرار کی رائے کے برعکس قابل غور قرار دیتا ہے یا نہیں۔ ملک کے سیاسی ماحول کی الجھنوں سے بہت دور اس وقت گوا میں دنیا کے پانچ اہم ترقی پذیر ملکوں کے سربراہ جمع ہیں۔ بھارتی وزیراعظم انہیں پاکستان کی دہشت گردی کے بارے میں لیکچر دینے میں مصروف ہیں۔

عالمی سطح پر پاکستان کی مشکلات کا اندازہ کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ ملک کے سیاست دان اور مختلف ادارے کیوں کر ایسے مشکل وقت میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے میں مستعد ہیں جبکہ ملک کا بدترین دشمن سفارتی سطح پر مسلسل پاکستان کے لئے کانٹے بچھانے میں مصروف ہے۔ گوا کی برکس BRICS سربراہی کانفرنس اس وقت اس کا بہترین نمونہ پیش کررہی ہے۔ یہ تنظیم دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی پانچ معیشتوں پر مشتمل ہے۔ برکس میں برازیل ، روس ، بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان ممالک کے سربراہ آٹھویں کانفرنس کےلئے بھارت کے ساحلی شہر گوا میں مل رہے ہیں۔ ملاقات کا مقصد عالمی معیشت کی صورتحال اور باہمی مالیاتی اور تجارتی تعاون کے بارے میں غور کرنا ہے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایسے اقدام کئے جا سکیں جن میں ان ملکوں کو عالمی منڈیوں میں بہتر سہولتیں حاصل ہو سکیں۔

البتہ میزبان ملک بھارت نے اس اہم معاشی کانفرنس کو پاکستان کے خلاف سفارتی محاذ آرائی کےلئے استعمال کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ وہ ہر ملک پر یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا منبع ہے اور اس کے خلاف مل کر اقدامات کرنا معاشی شعبہ اور تجارتی محاصل کے بارے میں تعاون کی بات کرنے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ اس بھارتی رویہ سے اگرچہ بھارت کے بڑا ملک اور اعلیٰ مقاصد کا حامل ہونے کا پول تو کھلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ 1.3 ارب آبادی اور دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی ہوئی معیشت کے باوجود وہ اپنے سے کئی گنا چھوٹے اور کم مالی وسائل والے پاکستان کے ساتھ تصادم کو ہی سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ لیکن چین ، روس ، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ملک یہ تاثر قبول کر بھی لیں تو بھی بھارت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نریندر مودی کی سرکردگی میں بھارتی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان کو دنیا کی نظروں میں گرا کر جنوبی ایشیا میں اپنی بالا دستی قائم کر سکتی ہے۔ یہی مقصد حاصل کرنے کےلئے اس نے بنگلہ دیش ، بھوٹان اور افغانستان کے ساتھ مل کر سارک SAARC سربراہی کانفرنس کو سبوتاژ کیا ہے۔ اور اب وہ برکس کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف تندہی سے استعمال کر رہا ہے۔

بھارت کو یقین ہے کہ ایک چھوٹے ہمسایہ ملک کے ساتھ اس کی معاندانہ اور کم ظرفی پر مبنی حکمت عملی کے باوجود دنیا کے سارے بڑے ملک اور تجارتی مقاصد رکھنے والی حکومتیں نئی دہلی کے ساتھ معاملات طے کرنے پر مجبور ہوں گی۔ بھارت کی سالانہ شرح پیداوار 7 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس سے اگرچہ وہ اپنے غریبوں کا پیٹ بھرنے کا مقصد تو پورا نہیں کرسکا کیونکہ علاقے میں اس کے جنگی عزائم کی تکمیل پر کثیر ملکی وسائل صرف ہوتے ہیں۔ لیکن آبادی اور معیشت کے حجم کی وجہ سے امریکہ سمیت تمام بڑے ملک بھارت میں سرمایہ کاری کرنے اور اس کی منڈیوں میں حصہ وصول کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ بھارتی حکومت نے دہائیوں پرانی غیر وابستہ رہنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھائی ہیں اور دفاعی معاہدہ کے ذریعے بحر ہند میں اپنی قوت میں اضافہ کرنے کےلئے نئے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ بظاہر بحر ہند میں بھارت کی قوت میں اضافہ چین کا راستہ کاٹنے اور بحر جنوبی چین میں چین کا دباؤ کم کرنے کی امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے لیکن بھارت اس نئی عسکری صلاحیت اور قوت کو پاکستان کو نیچا دکھانے اور اسے کمزور کرنے کےلئے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کی معیشت اور آبادی کے سبب ہی مقبوضہ کشمیر میں تین ماہ سے بھی زیادہ مدت سے جاری عوامی تحریک اور بھارتی افواج کے مظالم کے بارے میں کسی بڑے عالمی فورم پر ابھی تک کوئی موثر آواز سنائی نہیں دی۔ حالانکہ 8 جولائی سے جاری اس عوامی جدوجہد میں 120 شہری جاں بحق اور پندرہ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارتی سکیورٹی فورسز معصوم بچوں اور خواتین کو بھی اپنے جبر و ستم کا نشانہ بنا رہی ہیں۔

برکس سربراہی اجلاس میں بھی بھارت کو کشمیر میں جاری عوامی تحریک کے بارے میں کسی ناخوشگوار سوال کا سامنا نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس اجلاس کے پہلے روز ہی روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور نریندر مودی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں ملک 16 معاہدوں پر دستخط کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت روس اور بھارت انرجی ، شپ بلڈنگ ، سپیس اور دفاعی شعبوں میں متعدد منصوبے شروع کریں گے۔ روس کے تعاون سے بھارت میں لڑاکا ہیلی کاپٹر کاموو KAMOV بنانے کا کارخانہ لگایا جائے گا۔ اس طرح بھارت کو روسی ساخت کے 200 جدید ہیلی کاپٹر میسر آ سکیں گے۔ اس کے علاوہ روس بھارتی فوج کو جدید میزائل سسٹم فراہم کرنے پر بھی آمادہ ہو گیا ہے۔ یہ معاہدے اس حقیقت کے باوجود پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں کہ بھارت نے روس کے ساتھ دہائیوں پرانی رفاقت کو خیر آباد کہہ کر امریکہ کا حلیف بننے اور اس کی حکمت عملی کے مطابق اپنا دفاعی اور فوجی نظام استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

آج شام ہی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چین کے صدر ژی جنگ پنگ کے ساتھ بھی ملاقات کی اور بعد میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ یہ ملاقات بہت مفید رہی ہے۔ اس ملاقات کا محور بھی پاکستان ہی تھا۔ اگرچہ چین کے صدر اپنے دیرینہ حلیف اور اب اس کی معیشت کےلئے اہم ترین منصوبے سی پیک CPEC کے معاون پاکستان کے خلاف زیادہ بات کرنے پر راضی نہیں تھے لیکن بھارتی وزیراعظم کا موضوع گفتگو پاکستان ہی تھا۔ خبروں کے مطابق نریندر مودی نے چینی صدر کو پاکستان کے خلاف اکساتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ جو انتہا پسند مذہبی گروہ بھارت کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں، پاکستان میں ان کی موجودگی چین اور پاکستان کے سی پیک معاہدے کےلئے بھی نیک شگون نہیں ہے۔ اس لئے بیجنگ کو اسلام آباد سے ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بات کرنی چاہئے۔

نریندر مودی نے ایٹمی مواد فراہم کرنے والے گروپ این ایس جی NSG میں بھارتی رکنیت کا سوال بھی اٹھایا۔ چین کی مزاحمت کی وجہ سے بھارت اس اہم گروپ کا رکن بننے سے قاصر ہے حالانکہ امریکی صدر باراک اوباما بھارت کو این ایس جی کا رکن بنوانے کےلئے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ مودی نے مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی بھارتی کوششوں کے خلاف چین کی رائے تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی اور بتایا کہ اس شخص کے خلاف واضح شواہد موجود ہیں کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ہے۔ چین کے صدر ژی جنگ پنگ نے بھارتی وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تصادم ختم کر کے مذاکرات کا آغاز کریں۔ انہوں نے بتایا کہ چین اور بھارت کے درمیان سرحد پر باقاعدہ باڑ نہ ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان اشتعال انگیزی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سخت نگرانی اور خار دار باڑ نصب کرنے کے باوجود وہاں سے تصادم کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ تاہم بھارتی وزیراعظم پاکستان کے خلاف مقدمہ مضبوط کرنے میں مصروف رہے۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ چینی صدر نے پاکستان کی مکمل حمایت کی ہے لیکن چین کو بھی پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشانی لاحق ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سرکاری سطح پر ہونے والی مواصلت میں صرف خوشگوار اعلانات ہی کئے جاتے ہیں لیکن چین بارہا پاکستانی حکام کو سی پیک کے حوالے سے سکیورٹی صورتحال پر اپنی تشویش سے آگاہ کر چکا ہے۔ چینی قیادت بھی اصولی طور پر ان باتوں سے متفق ہے جو بھارت پاکستان کے خلاف سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان میں صورتحال بہتر نہ ہوئی تو سی پیک کی تکمیل میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے یا اس کے انفرا اسٹرکچر کے بعض منصوبوں کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے قطع نظر پاکستان میں سی پیک کے سوال پر شدید سیاسی اختلافات موجود ہیں اور حکومت ابھی تک اتفاق رائے پیدا کرنے اور بعض عملی اور قانونی ضرورتیں پوری کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

بھارت کی طرف سے پاکستان دشمن سرگرمیوں اور ہر سطح پر اسے بدنام کرنے اور اس کےلئے مشکلات پیدا کرنے کی کوششوں سے قطع نظر وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر بھارت سے مذاکرات شروع کرنے کے بارے میں اپیل کی ہے۔ حالانکہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو خبر ہونی چاہئے کہ بھارت صرف اس وقت پاکستان سے بات چیت کرے گا جب پاکستان میں سیاسی استحکام اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک نکاتی اتفاق رائے موجود ہو گا۔ پاکستان اس وقت جس سیاسی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور حکومت نہ صرف سیاسی اپوزیشن کے ہاتھوں بلکہ فوج جیسے طاقتور ادارے کے مقابلے میں جس طرح گوناں گوں مسائل کا سامنا کر رہی ہے ۔۔۔۔۔ اس صورتحال میں بھارت صرف انتظار کرے گا اور عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف فضا سازگار کرتا رہے۔

پاکستان کی اندرونی کشمکش بھارت کےلئے ایک ایسے وقت میں کسی تحفہ سے کم نہیں ہے جس وقت اسے مقبوضہ کشمیر میں نہایت مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ نئی دہلی کا خیال ہے کہ پاکستان داخلی مسائل اور بھارت کی طرف سے سنگین الزام تراشی کے بعد بھارت کو کسی بات پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو ملک کی حفاظت اور کشمیریوں کی اعانت سے پہلے اپنی حکومت بچانے کی فکر لاحق ہوگی۔ ان پر پاناما پیپرز کے حوالے سے بدعنوانی کا الزام ہے اور عدالتوں سے انہیں نااہل قرار دلوانے کی تگ و دو ہو رہی ہے۔ فوج نے بطور ادارہ ایک خبر کو بنیاد بنا کر وزیراعظم کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے جو خفیہ اور حساس اجلاس کی خبر باہر پہنچاتے ہیں۔ اکیلا نواز شریف کس کس کو راضی کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ ساری صورتحال حکومت کی کارکردگی کو متاثر کر رہی ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ 28 اکتوبر کو بھارت کے خلاف جہاد کے داعی اور لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواہشمند اسلام آباد میں دھمال ڈالیں گے اور اس کے ساتھ ہی عمران خان اپنے جاں نثاروں کے ساتھ اسلام آباد کو بند کرنے کےلئے شہرمیں پہنچ جائیں گے۔ بھارت جن عناصر پر ممبئی ، پٹھان کوٹ اور اوڑی حملوں کا الزام عائد کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے دارالحکومت میں انہیں اسٹیج فراہم کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج بھارتی الزام اور مبینہ حکومتی خواہش کا جواب دینے کی بجائے یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کر رہی ہے کہ ڈان کو خبر کس نے ’’فیڈ‘‘ Feed کی تھی۔ بھارت ہی کیا دنیا کے غیر جابندار ملک بھی کیوں اور کیسے ان حالات میں پاکستان کی کسی بات پر یقین کریں گے۔ پاکستان لاکھ شور مچاتا رہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کرتا ہے، ملک میں جاسوس بھیجتا ہے، دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقدمہ تو خود اسی کے خلاف مضبوط ہو رہا ہے۔ ہم بطور قوم اس سے بے خبر اپنی اپنی لڑائیاں لڑنے اور حساب برابر کرنے میں مصروف ہیں۔

اپوزیشن بمقابلہ حکومت مقدمہ جاری ہے۔ \”ملزم (عوام) حاضر ہو\” کی صدائیں چہار جانب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments