عبدالسلام کی بچی اٹلی نہ جا سکی


پروفیسر صاحبہ کی بیٹی راشدہ سے میری بڑی دوستی تھی۔ وہ تھی بھی ایسی کہ اس سے دوستی کی جاتی۔ ذہین، تیز طرار اور ہروقت کچھ نہ کچھ کرنے کو تیار۔ اس کی کمپنی کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ اس کے ساتھ وقت اس طرح سے گزرتا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ ہم دونوں فزکس میں ماسٹرز کررہے تھے۔ سائنس سے مجھے حد درجہ لگاؤ تھا۔ کاسموس، کائنات، ستارے اورایٹم سے میری دلچسپی تھی۔ کارل سگاں اور اسٹفن ہاکنس کے مضامین پڑھتا اور اسی پر بحث و مباحثہ کرتا تھا۔

راشدہ کی اچھی بات یہ تھی کہ سائنس کے ساتھ ساتھ اسے اُردو ادب کا بھی اِدراک تھا۔ غالب، مومن، میر، درد اقبال کے بے شمار اشعار اسے یاد تھے۔ پریم چند سے کرشن چندر اور عصمت چغتائی سے جیلانی بانو اور ساتھ میں اے آر خاتون سے لے کر رضیہ بٹ تک ہر ایک میں اس کو دلچسپی تھی۔ یہاں تک کہ ابن صفی اوراکرم الہ آبادی کے جاسوسی ادب کو بھی اس نے پڑھا ہوا تھا۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ ابن صفی کی بیماری کے دوران کتنی بڑی تعداد میں صفی نام کے جاسوسی ناول نگار بازار میں آگئے تھے۔

ایچ اقبال نے کس طرح سے ابن صفی کے کرداروں پر ناول لکھ کر نام پیدا کیا تھا۔ پڑھنے لکھنے میں اس قسم کی حوصلہ افزائی گھر میں ہی ہوتی ہے۔ پڑھے لکھے ماں باپ کے بچے پڑھے لکھوں کی طرح ہی نظر آتے ہیں۔ اگر گھر میں اسمگلنگ، بھتہ، چوربازاری، چاقو بازی کی باتیں ہوں گی تو بچے بھی عملی زندگی میں یہی سب کچھ کریں گے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے۔

راشدہ ایسی تھی کہ اسے پسند کیا جاتا اور اس کے خواب دیکھے جاتے مگر پسند کرنے کی منزل سے قبل اورخواب دیکھنے سے بہت پہلے مجھے پتہ چل گیا کہ وہ لوگ قادیانی ہیں۔ قادیانی چاہے قادیان کے ہوں، ربوہ کے ہوں یا لاہوری گروپ کے، قادیانی ہی ہوتے ہیں۔ اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہیں اوراپنے شہر کو اسلام آباد کا نام دیں، چلتے پھرتے اسلامی نظرآئیں تو بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ انہیں مذہبی فتوؤں اور پاکستان کے قوانین کے مطابق مسلمان نہیں کہا جاسکتا ہے۔

ہمارے خاندان میں یہ ممکن نہیں تھا کہ میں کسی قادیانی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوکر اس سے شادی کرپاتا۔ ہنگامہ ہوجاتا، طوفان کھڑا ہوجاتا۔ گھر تو چھوڑنا ہی پڑتا۔ میں ذہنی طور پر اتنے بڑے ایڈونچر کے لئے تیار نہیں تھا، نہ طوفان کھڑا کرنے کا شوق تھا مجھے اور نہ ہی میں گھر چھوڑنا چاہتا تھا۔ لہٰذا میں نے اس شعلے کو بھڑکنے سے قبل دبادیا۔ ایک ایسی جنگ کا فائدہ نہیں تھا جس میں شاید میں جیت تو جاتا مگر اس جیت کی قیمت بڑی ہوتی۔ لوگ شاید مجھے بزدل کہیں لیکن میں اپنے طورپر مطمئن ہوں۔

ہماری دوستی دوستی ہی رہی، کسی قسم کی جذباتی محبت میں تبدیل نہیں ہوئی۔ شاید یہ میری زندگی کا بہترین حادثہ تھا۔ کسی قسم کی جذباتی وابستگی نہیں تھی تو میں کسی بھی طرح کی کشمکش کا بھی شکار نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ میری دوستی بڑی بارآور رہی۔ ہم دونوں گہرے دوست بن گئے۔ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہوئے ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے، ایک دوسرے کے کام آتے رہے۔

میرے خیال میں راشدہ کے بھی یہی خیالات تھے۔ ہم سنیّوں میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ قادیانی لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور مذہبی طور پر انہیں اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ غیرقادیانی لڑکوں کو پھنسائیں اور ان سے شادی کرکے انہیں قادیانی بنائیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر بندہ قادیانی نہیں بنتا ہے تو نہ بنے یہ لڑکیاں بچوں کو ضرور قادیانی بنادیتی ہیں۔ دوستوں گھروں اور ہماری مسجدوں میں اس قسم کی بات کسی نہ کسی طرح سے ضرور کی جاتی ہیں۔ اس وقت میں اتنا بے وقوف تھا کہ ان باتوں کو من و عن صحیح بھی سمجھتا تھا۔

مگر راشدہ اور اس کے خاندان کے رویے سے مجھے ایسا کبھی بھی محسوس نہیں ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے کبھی بھی احساس نہیں ہوا کہ راشدہ مجھ پر کسی قسم کے ڈورے ڈال رہی ہے۔ ایک دفعہ تو میں نے اس سے ہنس کر کہا بھی کہ تم مجھے پھنسا نہیں رہی ہو، عبدالسلام کی بچی؟ اپنے مذہبی فرائض سے روگردانی کررہی ہو، ابھی تک تم نے مجھے پھنسانے کی کوشش نہیں کی۔ لگتا ہے کہ ہمارے مولوی جھوٹ بولتے ہیں۔

وہ ہنس دی، یہ ہنسنے کی ہی بات تھی۔ جہالت کی باتوں پر ہنسی ہی آسکتی ہے اورکچھ بھی نہیں۔

فزکس میں اس کی غیر معمولی دلچسپی اور نت نئے مسائل پر بحث کرنے کی وجہ سے میں اکثر و بیشتر اسے عبدالسلام کی بچی پکارا کرتا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ایک دن وہ ضرور کسی یونیورسٹی میں فزکس پڑھارہی ہوگی اور پاکستان کے مشہور قادیانی سائنسدان عبدالسلام کے بنائے ہوئے اٹلی میں موجود فزکس کے ادارے میں کام کرے گی۔ وہ اس نام سے چڑتی نہیں تھی بلکہ ایک طرح سے خوش ہوتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے کہا بھی کہ اگر اسے موقع ملا تو وہ اٹلی جائے گی۔ فزکس اس کا خواب تھی۔ مجھے بھی یقین تھا کہ ایک دن وہ ضرور کوئی قابل قدر کام کرے گی۔

وقت گزرتا گیا، میں یونیورسٹی سے ماسٹرز کرکے امریکہ چلا آیا۔ تھوڑے مہینوں تک راشدہ سے رابطہ رہا پھر مجھے پتہ لگا کہ اس کی شادی اپنے ہی برادری میں ہوگئی ہے اور وہ خوش ہے۔ میں نے مبارکباد کے کارڈ بھیجے۔ ایک دفعہ پاکستان گیا تو ملنے کی کوشش کی مگر اس سے ملاقات نہیں ہوسکی کیونکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی تقریب میں شرکت کے لئے کراچی گئی ہوئی تھی۔ پھر اس سے رابطہ نہیں ہوا اور پھر یوں سالوں گزرگئے۔

تین دن کے بعد میں نے دوبارہ فارمرز مارکیٹ پہنچا تو وہ وہاں موجود تھیں۔ وقت ایسا تھا کہ اس وقت کوئی خاص ہجوم نہیں تھا اور آسانی سے بات چیت ہوسکتی تھی۔ پہچان کرانے پر وہ مجھے فوراً ہی پہچان گئی تھیں۔ میں نے جیسے ہی راشدہ کا پوچھا تو ایسا لگا جیسے ان کے چہرے پر تاریکی کا سمندر اُتر گیا ہے۔ ایک کربناک اُداسی تھی جو اس کا ذکر کرتے ہی ان کے وجود پر طاری ہوگئی تھی۔

گھر آنا۔ گھر پر بتاؤں گی لمبی کہانی ہے۔ انہوں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا اورایک چھوٹے سے کاغذ پر اپنا پتہ اور فون نمبر لکھ کر دیا۔ اِس اتوار کو ضرور آنا شام کے وقت۔ مجھے بڑی خوشی ہوگی راشدہ کے دوست سے مل کر۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3