کشمیر کا اوجھل ہوا سانحہ



جرنلسٹ: سعود شربانی
مترجم: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ایم ڈی

\"nyla(سعود شربانی ایک جرنلسٹ ہیں جن کا تعلق مڈل ایسٹ سے ہے۔ انہوں‌ نے جن مسائل کے بارے میں‌ رپورٹنگ کی ہے ان میں‌ فلسطین بھی شامل ہے۔ یہ ان کے نائلہ علی خان سے حالیہ انٹرویو کا اردو ترجمہ ہے۔)
سعود شربانی: مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ میں‌ طویل عرصے سے ایک جرنلسٹ ہوں اور دنیا میں‌ انڈیا سمیت کئی ملکوں‌ کا سفر کیا ہے لیکن میں‌ کشمیری عوام کے حالات اور ان پر انڈیا کے جبر سے نا واقف تھی۔ میں نے کشمیر کے حالات پر ڈاکٹر نائلہ خان سے بات چیت کی جنہوں‌ نے کشمیر کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔

سعود شربانی: یہ واضح نہیں‌ ہوتا کہ انڈیا کشمیر پر کیوں قابض رہا؟

نائلہ علی خان:انگریز کو نکال دینے کے بعد انڈیا اور پاکستان کی تخلیق اس علاقے کے شہریوں‌ کے لئے ایک ایسی فتح‌ تھی جس کی بھاری قیمت ادا کی گئی تھی۔ اس تاریخی تقسیم میں‌ جو انسانی بحران پیدا ہوا وہ آج تک اس علاقے کے سیاسی، سماجی، نفسیاتی اور تہذیبی تانے بانے میں‌ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آج نسل کشی، ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ، غریبی اور پر تشدد مظاہرے بر صغیر پاک وہند کی بنیادیں ہلا رہے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات شروع ہی سے دشمنی پر استوار ہیں جس کے بارے میں‌ ان آزاد مملک کی تشکیل کے بعد سوال نہیں‌ اٹھائے گئے ہیں۔ انگریز کے نکلنے کے بعد انڈیا کی تقسیم ان دو ممالک کے درمیان بے رحم تشدد کی بنیاد پر ہوئی اور انسانی جان کے زیاں کو قوم پرستی کے زاوئیے سے معنی دینے کی کوشش کی گئی۔ 1947 میں‌ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی مشترکہ کامیابی پر اس پرتشدد تقسیم کی نفرت حاوی ہوگئی جس کے زخم بھرنا ابھی باقی ہیں۔

سعود شربانی: ہم اکثر کشمیر کے بارے میں‌ تبھی سنتے ہیں‌ جب انڈیا اور پاکستان کے مابین تناؤ میں‌ اضافہ ہوجائے۔ ایسا کیوں‌ ہے؟

نائلہ علی خان: انڈیا اور پاکستان کی قومی ریاستوں کا کشمیر میں‌ کردار ان ممالک کی تقسیم سے پیدا ہونے والی دشمنی سے جڑا ہوا ہے۔ 1947 کے سیاسی اور سماجی بحران سے جن کہانیوں‌ نے جنم لیا وہ آج بھی ان ملکوں‌ کے شہریوں کا پیچھا کر رہی ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے دوران تشدد اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی بے گھری نے اس علاقے کے تاریخی، تہذیبی اور سماجی تانے بانے کو اس طرح‌ بکھیر دیا جس کی تلافی آج تک شروع بھی نہیں‌ کی گئی ہے۔ تیسری دنیا کے دانشور برطانوی راج کی ناکامی اور اس کی دور اندیشی کی کمی کو ان مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‌ لیکن یہ بات قابل بحث ہے اور جو چودہ اور پندرہ اگست کو 1947 میں‌ ہوا اس کے لئے صرف برطانیہ کو الزام نہیں‌ دیا جاسکتا۔
کانگریس اور مسلم لیگ کے ہندوستانی اور پاکستانی قوم پرست عناصر کے درمیان ناکام مذاکرات سے اس نفرت اور قوم پرستی کو ہوا ملی جس کے نتیجے میں 1947 کے بدقسمت حالات پیدا ہوئے۔ تاریخ دان اوما کورا کے مطابق کانگریس کی لیڈرشپ کی غلطیوں، مسلم لیگ کی لیڈرشپ کی جھنجھلاہٹ اور کڑواہٹ اور برطانوی وائسرائے کی مدافعانہ سیاست نے ایسے حالات پیدا کئیے جن کی وجہ سے تقسیم کا مطالبہ کیا گیا۔ مسلمانوں کی لیڈرشپ نے 1857 کی جنگ آزادی سے ہی مسلمان شناخت پر زور دیا۔ کورا ہندو قوم پرست لیڈرشپ کو اس مسلمان شناخت کو جگہ نہ دینے کا قصوروار ٹھہراتی ہیں۔ برباد گھر، خون کے دھارے، تباہ شدہ زمین اور جان کا بلاوجہ زیاں‌ ان اقوام کی تشکیل کی قیمت بنا۔ سیاسی نفسیات کے ماہر آشس نانڈے کے مطابق تقسیم کی قومی اور مذہبی بنیاد پرستی کی سیاست نے اس علاقے کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئیے ہیں۔

سعود شربانی: کشمیر کے عوام کی کیا خواہشات ہیں؟ کیا کشمیر کی لیڈرشپ نے اپنے عوام کی خواہشات کو حقیقی جامہ پہنانے کے لئے قدم اٹھائے ہیں؟ کیا کشمیر میں‌ قبضے کے خلاف کوئی مظاہرے ہوئے ہیں؟

نائلہ علی خان: ہنگامے اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ 1947 میں‌ انتظامیہ کے ہاتھوں‌ ہونے والے بٹوارے میں‌ خون خرابا ہوا اور تاریخ کو مسخ کیا گیا جس سے تہذیب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ انڈیا کے لئے کشمیر کی اہمیت اس لئے ہے کیونکہ اس سے انڈیا کے سیکولر قومی امیج کو سہارا ملتا ہے۔ پاکستان کے لئے کشمیر وہ مسئلہ ہے جس سے اسلامی جمہوریت کے نظرئیے کو مزید تقویت ملتی ہے۔ جب کشمیر کے مسئلے کو ایک نظریاتی جہت ملی تو مہاتما گاندھی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ \”ساری دنیا کے مسلمانوں‌ کی کشمیر کے تجربے پر نظر ہے۔ کشمیر ہی انڈیا کے سیکولرزم کا اصلی ٹیسٹ ہے۔\”
جنوری 1948 میں‌ انڈیا نے کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں‌ پیش کیا۔ جب انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو یکم جنوری 1949 میں‌ جموں‌ و کشمیر کی ریاست کو دو حصوں‌ میں‌ تقسیم کردیا گیا۔ پونچھ، میرپور، مظفرآباد، گلگت اور بلتستان کے علاقے پاکستان میں‌ شامل کردئیے گئے اور کشمیر کی وادی، لداخ اور جموں‌ کا بڑا علاقہ انڈیا کا حصہ بنے۔ اس وقت، جموں‌ و کشمیر کا ایک بڑا علاقہ انڈیا کے زیر انتظام ہے اور کچھ حصہ پاکستان کے۔ چین نے زمین کا ایک ٹکڑا 1962 میں‌ کاٹ کر اس میں‌ سے روڈ نکالی جو تبت کو زیاجیانگ سے ملاتی ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام جموں‌ و کشمیر کا جغرافیہ انڈیا اور پاکستان دونوں‌ کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست کی سرحدیں چین اور افغانستان سے ملتی ہیں۔1980 کی مردم شماری اور حساب کے مطابق کل 236222 مربع کلومیٹر میں‌ سے 78114 مربع کلومیٹر پاکستان کے زیرانتظام ہے۔ 5180 مربع کلومیٹر پاکستان نے چین کو دے دیا تھا۔ 37555 مربع کلومیٹر علاقہ لیح ڈسٹرکٹ میں‌ چین کے زیر انتظام ہے اور باقی انڈیا کے۔
اپنی علاقائی حدود کو محفوظ بنانے کے لئے دونوں‌ ممالک کے لئے ضروری تھا کہ وہ جموں‌ و کشمیر کی ریاست کو سیاسی اور فوجی طاقت سے قابو میں‌ رکھیں۔ حالانکہ علیحدگی پسند تحریکیں‌ اور تنظیمیں‌ 1947 کے پارٹیشن کے بعد جموں‌ و کشمیر کے مختلف حصوں‌ میں‌ ابھرتی رہی ہیں، کچھ علاقائی عناصر ہیں جن کو انڈیا اور پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور ان کے باعث ایک متحدہ تہذیبی شناخت کی کاوشیں‌ کامیاب نہیں‌ ہو پائی ہیں۔ تہذیبی، لسانی اور مذہبی سطوحات پر بٹے ہوئے انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام جموں‌ و کشمیر کی ریاست کے شہری اس علاقے کے مستقبل کے لئے کسی فیصلے پر متفق نہیں‌ ہوپائے ہیں۔
حق خودارادیت کی انقلابی تحریک جموں‌ و کشمیر کے تمام سماجی اور معاشرتی طبقوں میں‌ اتحاد حاصل نہیں‌ کر پائی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیری علاقہ جات میں‌ موجود شہریوں‌ کے تہذیبی اقدار کے چہرے اور الفاظ کو ایسی نئی جہت دی گئی ہے جس سے انڈیا اور پاکستان کے مخصوص تعصب اور پروپیگنڈے کو شہہ ملے۔
انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں‌ کے نزدیک، کشمیری ان دونوں‌ ممالک کے شہریوں سے مختلف ہیں۔ جموں‌ و کشمیر میں‌ موجود کشمیری مسلمانوں‌، کشمیری پنڈتوں، ڈوگرا اور لداخیوں‌ نے بارہا کوشش کی کہ کشمیر میں‌ ایک مجموعی شعور بیدار کیا جاسکے جس سے اس قوم کو منفرد شناخت ملے۔ چونکہ علاقائی جذبات اس خطے کے شہریوں کی نفسیات کا ایک گہرا حصہ بن چکے ہیں، یہ جدوجہد اب تک نوزائیدہ ہے۔ جموں‌ و کشمیر کی قومیت کی علامات، اس کا جھنڈا، ترانہ اور منشور سب ابھی تک ایک قومی شناخت پیدا نہیں‌ کر پائے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ قومی اور مذہبی شدت پسندی سے بھڑکا ہوا ہے، جس میں‌ ہر فریق دوسرے کے تشدد اور ناانصافی اور اپنے دکھ درد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ عدم اعتماد، شبہے، اور دماغی توازن کے بگڑے ہونے کی فضا نے جموں‌ و کشمیر اور انڈین یونین کے افراد کے درمیان تعلقات پر منفی اثر ڈالتے ہوئے اس تنازع کو ہوا دی ہے۔ 1990 سے لے کر ریاست میں‌ گوریلا جنگ کئی ادوار سے گذری لیکن سیاسی اور فوجی طاقتیں‌ ایک ظالمانہ حقیقت رہی ہیں جن کو بظاہر جمہوری خیالات اور امیدوں‌ کے ساتھ نظر انداز نہیں‌ کیا جا سکتا ہے۔ جموں و کشمیر میں‌خود مختاری اور سیاسی مخالفت کی منظم تباہ کاری نے اختلاف رائے کو غیر قانونی بنا کر ریاستی اداروں‌ اور تنظیموں‌ کی مخالفت کو ہوا دی ہے۔

سعود شربانی: کیا ہندوستانی جانتے ہیں‌ کہ ان کی حکومت کشمیر میں‌ کیا کررہی ہے؟ یا پھر وہ خود بھی حکومتی پروپیگنڈے کا شکار بن چکے ہیں؟

نائلہ علی خان: انڈیا کے کشمیر پر جارحانہ قبضے سے متعلق آگاہی میں‌ پہلے سے بہتری آئی ہے۔ نوجوانوں کو گولیوں سے مارنے اور اندھا کرنے کے واقعات سے انڈیا کے شہریوں‌ میں‌ غم و غصہ پایا جاتا ہے جنہوں‌ نے ان اقدامات کی مذمت کی ہے۔ اب بھی کافی سارے لوگ ہیں‌ جو انڈیا کی حکومت کے قومی بیانیے پر آنکھیں‌ بند کرکے یقین کرتے ہیں۔ میں‌ نے یہ بات کافی نوٹ کی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے لوگ کشمیریوں‌ کو ذہانت اور نسل میں‌ خود سے کمتر اور ان کو کوئی پراسرار شے سمجھتے ہیں جن کو مفتوح رکھنے کی ضرورت ہو۔ مخصوص مقاصد کے ساتھ ایک کشمیری کو باغی شناخت دی گئی جس کو اس کی متضاد فطرتوں‌ سے پہچانا جائے۔ جنگجو اور وفادار، چالاک اور معصوم، پراسرار اور ہیرا پھیر۔
نائن الیون کے بعد کی دنیا میں‌ عراق اور افغانستان کے انسانوں‌ کی خامیوں‌ کو اجاگر کر کے روشنی پھیلانے کا عزم لے کر پہنچنے والی طاقتوں‌ نے ان علاقوں میں‌ جو بربادی اور تباہی مچائی وہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں‌ ہونے والے عزت کے نام پر قتل مغرب کے تعلیمی اداروں‌ میں‌ ان علاقہ جات کی جہالت کو نمایاں‌ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جو لوگ قوم پرست دشمنی کو ہوا دیتے ہیں، وہ 2002 کے گجرات کے فسادات کی طرح‌ کے واقعات کے ذمہ دار بنتے ہیں۔ جب \”تیسری دنیا\” کے افراد باہمی تعاون سے اپنی دنیا کو پرسکون نہیں‌ رکھ سکتے تو طاقتور خارجی عناصر ان کو نہ صرف اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے مثال بناتے ہیں‌ بلکہ ان کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ تاریخ ہمارے سامنے ہے جس میں‌ شخصیات کا امیج توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور مرضی کی حدود کھینچی گئیں۔
میں‌ اپنے دور اندیش، ترقی پسند اور بھلا چاہنے والے انڈین دوستوں‌ سے یہی کہنا چاہوں‌ گی کہ انڈیا کا منشور قانون کی بالادستی، اس کی عزت اور سیاسی طریقے کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن بار بار کشمیر میں‌ ان قوانین کو توڑا گیا ہے اور جن آدرشوں کو لے کر ان قوانین کی تشکیل کی گئی تھی، ان کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
کشمیر میں‌ شہریوں‌ کے جان، مال، عزت اور آزادی اظہار کے جن حقوق کی منشور میں‌ ضمانت دی گئی ہے، ان کو پامال کیا گیا ہے۔ ہندوستانی جمہوریت کشمیر میں‌ حقیقی جمہوریت قائم کرنے میں‌ ناکام ہو چکی ہے۔ انڈیا کی حکومت جموں‌ و کشمیر کی ریاست کے سربراہوں‌ کو خود طاقت میں‌ لا کر یہ دعویٰ‌ نہیں کرسکتی کہ یہ ایک جمہوریت ہے۔ حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے نے انڈیا میں‌ مزید بے حسی پیدا کی ہے۔ ریاستوں‌ کے سربراہ، خاص کر مشکلات میں‌ گھری ہوئی ریاستوں‌ کے سربراہ اپنی ذمہ داریوں‌ سے منہ نہیں موڑ سکتے ہیں۔
انڈیا کا تکثیری اور سیکولر امیج ایک اقلیتی گروہ کو تنہا کر دینے سے قائم نہیں‌ رہ سکتا۔ مسلح شورش، فوجی اقدامات، بے روزگاری، سیاسی قید اور معاشی بدحالی! کیا یہی ہے وہ کشمیر جس کے لئے ہمارے بزرگوں‌ نے دندان شکن لڑائی کی تھی؟ کیا یہی ہے وہ کشمیر جس کے لئے ہماری گذری ہوئی نسلوں‌ نے اپنے نوجوان قربان کئیے؟ کیا کشمیر کو انڈین یونین میں‌ ملا دینے کے لئے ان قربانیوں‌ کو نظر انداز کر دیا جائے گا؟

سعود شربانی: ہم پاکستان کے کردار کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں‌ سنتے؟ اس کے بارے میں‌ بتائیے۔

نائلہ علی خان: انڈین نیشنل کانگریس نے جموں‌ و کشمیر کے راجہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے عوام کو اس بات کے لئے تیار کریں کہ وہ انڈیا یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں۔ جواہر لعل نہرو کا بیانیہ کہ کشمیر انڈیا کے سیکولر چہرے کے لئے ضروری ہے، بعد میں‌ سامنے آیا۔ جناح‌ نے اس بات کی تردید کی کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ثابت کرنے کے لئے کشمیر کی اس میں‌ شمولیت ضروری ہے اور انہوں‌ نے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لئے پارٹیشن کے لمحے تک اصرار نہیں کیا تھا۔ جیسا کہ بہیرا نے 2006 میں‌ لکھا کہ اگر کشمیر پاکستان کے نظرئیے کا اتنا اہم حصہ تھا تو پھر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ مسلم لیگ اور مسلم کانگریس نے مہاراجہ سے پاکستان میں شمولیت کی درخواست 25 جولائی 1947 تک نہیں‌ کی تھی۔ کانگریس کے پارٹیشن کو قبول کرنے سے ایک متحد انڈیا کے خیال کو ٹھیس پہنچی۔
کشمیر میں‌ بغاوت انڈیا کے سیاسی، سماجی اور معاشی جارحانہ روئیے سے ضرور بھڑکی لیکن اس کو قائم رکھنے میں نہ صرف علاقائی قوم پرست عناصر کا بلکہ پاکستان کے علاقائی عزائم اور منتخب کردہ حکومت کی ناکامی کا ہاتھ بھی ہے۔
ایک عرصے سے جاری مسلح شورش میں‌ انڈین ملٹری کو بلا احستاب کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ جموں‌ و کشمیر میں‌ نیم فوجی طاقتیں ایک بے مہار توپ بنی ہوئی ہیں‌ جن پر سیاسی طاقتیں تک سوال اٹھانے سے قاصر ہیں۔ ان نیم فوجی دستوں‌ کو مقبوضہ علاقے میں‌ جدید ہتھیاروں‌ کے ساتھ مزید شورش پھیلانے کی اجازت نہیں‌ دی جاسکتی ہے۔
دسمبر 2007 میں‌ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان میں‌ سیاسی بحران، فوج کی جارحانہ کارروائی اور بنیاد پرست عناصر کے عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے سے ایک ناکام لیڈرشپ کے سائے میں‌ جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان سے یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا اور پاکستان ایسے دوراندیش لیڈر پیدا کرسکتے ہیں جو جنگ و جدل سے آگے کچھ سوچ سکیں۔ کیا پاکستان کی لیڈرشپ کمشیر کو آنے والی نسلوں‌ کے لئے حل کرنے والا مسئلہ بنا کر شیلف پر رکھ دے گی؟
انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کی کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے مختلف ترجیحات اختیار کرنے کی تاریخ‌ لمبی ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی جموں و کشمیر کے بارے میں‌ منظور قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے چیخ چیخ کر اپنا گلا خراب کرتا دکھائی دیتا ہے اور دوسری طرف انڈیا بھی اسی شدت سے پارٹیشن سے پہلے جموں‌ و کشمیر کے علاقے سے پاکستان کے فوج کے انخلا کا یا پھر لائن آف کنٹرول کو ایک مستقل بین الاقوامی سرحد تشکیل دئیے جانے کا تقاضہ کرتا ہے۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments