خارجہ پالیسی کسی کی خواہشات کے تابع نہیں ہوتی


آئیے پہلے آج کے تین اہم بیانات پڑھتے ہیں جنہیں روزنامہ جنگ نے آج شائع کیا –\"zeeshan

چین اور بھارت کو اسٹریٹجک پارٹنر شپ مسلسل بہتر بنانی چاہئے – چین اور بھارت کے مستحکم تعلقات نہ صرف دونوں ملکوں کی ترقی کے لئے ضروری ہیں بلکہ ترقی پزیر ممالک کے لئے بھی فائدہ مند ہیں – چینی صدر

بھارت اور چین کو ہاتھ ملا کر اس صدی کو ایشیا کی صدی بنانا چاہئے – مودی

پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں بھارت کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف تھیں – ان فوجی مشقوں سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آئی – روس نے کوئی ملٹری سازو سامان پاکستان کو نہیں دیا ، صرف سفری سہولیات کے کچھ ہیلی کاپٹر دیئے ہیں – روس

یاد رہے کہ یہ تینوں بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب بھارت چین اور روس سمیت برکس ممالک بھارت میں اکٹھے ہیں – باہمی مفادات اور معاشی دوڑ میں ایک دوسرے کی معاونت اس کانفرنس کا موضوع ہے –

مجھے یاد پڑتا ہے جب ایک روسی فوجی دستہ پاکستان میں مشترکہ فوجی مشقوں کے لئے آیا تھا تو اس وقت پاکستان میں خارجہ پالیسی پر جو تحریریں لکھی گئی تھیں، ان میں اکثریت کا لب لباب یہ تھا کہ اب سب بدل رہا ہے ، خطے کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی آ رہی ہے اب روس ہمارے بلاک میں ہے تو امریکہ بھارت کے بلاک ، میں یوں ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے- اس وقت میں نے روزنامہ دنیا میں جو کالم لکھا تھا اس کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں –

 \” مگر اس کے لئے اول ہمیں خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیحات سمجھنا ہوں گی۔ ہم پر عسکریت کا بھوت اتنا سوار ہے، ہم اس طرز کے تجزیے پر مجبور ہیں کہ اگر فلاں کی فلاں سے جنگ ہوگئی تو ہمیں کس کا ساتھ دینا ہو گا اور اگر ہماری کسی سے لڑائی ہوئی تو ہمارا کون ساتھ دے گا۔ مثال کے طور پر آج کل روسی فوج کا ایک دستہ پاکستانی فوج کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے لئے آیا ہوا ہے، اس سے ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ شاید اب روس انڈیا کے خلاف ہمارے کیمپ میں آ کر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا ہے اور اب وہی کرے گا جو ہمارے مفاد میں ہوگا، مگر دوسری طرف صورت حال یہ بھی ہے کہ بھارت اور روس کی مشترکہ مشقیں \’اندرا ـ 2016‘ کے نام سے روسی شہر Vladivostokمیں ہو رہی ہیں۔

ہم خارجہ پالیسی کے بنیادی رجحانات سے بے خبر ہیں۔ دنیا بھر کی خارجہ پالیسی پر معاشی مفادات کو ترجیح حاصل ہے اور پھر بین الاقوامی سیاست میں آپ کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اس کا نمبر آتا ہے۔ دونوں عوامل کی بنیاد پر پاکستان دنیا میں پرکشش ملک نہیں۔ پوری دنیا کے ممالک بشمول چین و ایران و افغانستان بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں کیونکہ بھارت کی سوا ارب افراد کی ابھرتی ہوئی معیشت میں ان کے کاروباری مفادات ہیں۔ دوسرا بھارت وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاست میں اپنا مقام و

مرتبہ مستحکم کرتا جا رہا ہے۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت اس وقت جی20 کا حصہ ہے کوئی بھی ملک بھارت سے پاکستان دشمنی میں دوستی نہیں کرتا اور نہ ہی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے ممالک بھارت سے دشمنی کرنا چاہتے ہیں، سب اپنے اپنے قومی مفادات کے اسیر ہیں۔ \”

(روزنامہ دنیا – انتیس ستمبر 2016 )

ہم نے یہ سوچنے کی زحمت نہ گوارا کی کہ آخر خارجہ پالیسیز کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ روس کیونکر بھارت کی دوستی چھوڑ دے گا ؟ ہمیں روسی بلاک میں شامل ہو کر آخر ایسا کیا ملے گا یہ جاننے کے باوجود کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد روسی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ اس بار اس کی جی ڈی پی میں تبدیلی کی شرح منفی رہے گی- اگر ہم روس سے تجارتی تعلقات قائم کرتے ہیں تو اسے کیا بیچ سکیں گے اور سوائے اسلحہ ، تیل و گیس کے اور کیا خرید سکیں گے؟ ثقافتی و علمی اعتبار سے دیکھیں تو وہ کون سے علوم و فنون اور نئی ٹیکنالوجی ہے جو ہم روس سے سیکھ سکیں گے ؟ تو ان سوالوں کے جواب میں سوائے خاموشی کے اور کچھ سننے کو نہیں ملے گا سوائے اس کے کہ آپ فوجی تعاون پر غور کر سکتے ہیں- فوجی تعلقات کے حوالے سے بھی عرض ہے کہ روس کی اس سلسلے میں پالیسی اپنی نوعیت میں aggressive ہے تو کیا روس کے اتحاد میں رہ کر ہم امریکی اتحادیوں سے aggressive رویہ رکھنے کے قابل ہیں؟ اب بھی جواب ناں ہی ہے –

حقیقت یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کے مباحثوں پر پر بھی دفاعی تجزیہ کاروں کا قبضہ ہے خاص طور پر وہ جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے ہر سال ایک بڑی تعداد میں ہمیں دفاعی پالیسیز میں الجھانے کے لئے میدان میں آ رہے ہیں –

یاد رہے کہ جب تک دنیائے علم و معیشت پر مغرب کو سبقت و برتری حاصل ہے دنیا کے تمام ممالک کی خارجہ پالیسیز کا رخ مغرب کی طرف رہے گا سوائے ان ممالک کے جو جھوٹی نیشلسٹ سوچ کے تحت اپنے شہریوں کا جذباتی و معاشی استحصال کرتے رہتے ہیں –

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments