ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے


آج ہمیں ڈاکٹر طارق صاحب نے ایک تصویر بھیجی جس میں بن مانس اور انسان کے کروموسوم کا تقابل کیا گیا تھا۔ غالباً وہ بھی ہماری طرح ان گمراہ سائنسدانوں سے تنگ ہیں جو کہ یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ سمندر میں خود بخود بے جان زندگی سے ایک خلیے والے جرثومے وغیرہ پیدا ہوئے اور ان سے بڑے ہوتے ہوتے انسان اور ہاتھی وغیرہ تک خود بخود بن گئے۔ ڈاکٹر طارق صاحب کی تصویر پر غور کرتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ بن مانس کا کروموسوم، انسان کے کروموسوم سے سائز میں تقریباً آدھا ہے۔ ہمیں آخری مرتبہ سائنس کی کتاب پڑھے ہوئے کوئی تیس سال کا عرصہ ہو چکا ہے، اس لئے پیچیدہ تکنیکی اصطلاحات اس وقت یاد نہیں ہیں۔ اب یہی یاد پڑتا ہے کہ جینز کا پیچیدہ سائنسی نام کروموسوم ہوتا ہے۔ یا ممکن ہے کہ جینز کے مجموعے کو کروموسوم کہتے ہوں۔
بن مانس اور انسان کے کروموسوم کو دیکھ کر فرق صاف دکھائی دے جاتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ بن مانس کا کروموسوم، انسان کے کروموسوم سے آدھا ہے۔ دونوں انواع میں سب سے پہلا فرق تو بالوں کا ہوتا ہے۔ بن مانس کے جسم پر انسان سے دس گنا زیادہ بال ہوتے ہیں۔ اگر یہ جینز کے ارتقا کے باعث بن مان (جنگلی انسان) کا ”اربن مانس“ (شہری انسان) بنا ہوتا تو بن مانس کی جینز لمبائی میں  انسان سے دگنی نہیں بلکہ کم از کم دس گنا چھوٹی ہوتیں۔ اسی سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ مخلوقات ہیں اور ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ہیں۔
ویسے بھی ارتقا محض ایک نظریہ ہے۔ ہم نے جماعت سوئم کی سائنس کی کتاب میں ہی پڑھ لیا تھا کہ سائنسی طریقہ کار کے چار مراحل ہوتے ہیں، مشاہدہ، نظریہ، تجربہ، اور قانون۔ اب ایک سرسری نظر سے ہی دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی نے یہ مشاہدہ کر لیا کہ بندر اور انسان دونوں کے ہاتھ پاؤں ایک ہوتے ہیں، تو نظریہ قائم کر لیا کہ شکل عقل میں باقی فرق ارتقا کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن سائنٹیفیک میتھڈ کے مطابق اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی تجربہ نہیں کیا گیا جس سے یہ حتمی طور پر تسلیم کر کے قانون بن جائے۔
چھوٹی موٹی تبدیلی تو آ سکتی ہے، مگر مچھلی کا بھینس بننا ناممکن ہے یہ بس ویسی ہی خام خیالی ہے جیسی اپنے زمانے کے مانے ہوئے سائنسدان ارسطو نے پیش کی تھی کہ بے جان چیزوں سے جاندار چیزیں پیدا ہو سکتی ہیں، اور اس نے تجربے کے طور پر گوبر اور دہی کا آمیزہ رکھ دیا تھا تو اس میں کیڑے پیدا ہوگئے اور یوں اس نے اپنے تئیں ”ثابت“ کر دیا کہ بے جان چیزوں سے جاندار چیزیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ جیسے آج ہم ارسطو کے اس نظریے پر ہنستے ہیں، کل ویسے ہی ارتقا کے نظریے پر ہنسا کریں گے۔
بہرحال ہم ارتقا کے حامیوں کے چند بے بنیاد دلائل کا سائنسی اور منطقی تجزیہ کرتے ہیں۔

ارتقا کے حامیوں کی جانب سے سب سے پہلے تو یہ بے بنیاد دعوی کیا جاتا ہے کہ تمام سائنسدان ارتقا کے قائل ہیں۔ ادھر ہمارے پاکستان میں تو مدارس میں سائنس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، مگر مغرب میں چرچ کے قائم کردہ اداروں کی ارتقا کی سائنس پر بھرپور توجہ ہے اور ادھر سے بے شمار قابل سائنسدان نکل رہے ہیں جو کہ اس بات کے قائل ہیں کہ ارتقا کی تھیوری نری گمراہی ہے۔ لیکن بفرض محال اگر تمام سائنسدان ایک گمراہی پر متفق بھی ہو جائیں تو ان کی بات پھر بھی غلط ہی رہے گی۔ ارسطو کے مشاہدے پر بھی اس وقت کے تمام سائنسدان متفق تھے مگر جب دو ہزار سال بعد سائنس نے ترقی کی تو معلوم ہوا کہ اس کا نظریہ غلط تھا۔ یہی معاملہ ارتقا کے نظریے کا بھی ہے۔
ارتقا کے حامیوں کی جانب سے یہ بتایا جاتا ہے کہ بن مانس اور انسان کا ڈی این اے 98 فیصد ایک جیسا ہے اور اس سے یہ دلیل نکالی جاتی ہے کہ بندر اور انسان کا جد امجد ایک ہی تھا۔ اگر ارتقا میں کوئی حقیقت ہوتی، تو آج یہ بن مانس اس بدلی ہوئی دنیا میں، جس میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہو رہا ہے، یہ چھوٹی سی دو فیصد تبدیلی کر کے انسان کیوں نہیں بن جاتے ہیں؟
جانوروں میں مختلف حالات کی وجہ سے معمولی سی تبدیلی تو آ سکتی ہے، جیسے دیو قامت بالدار ہاتھی میمتھ کے بال جھڑ گئے اور خوراک کی کمی یا دیگر مسائل کی وجہ سے اس کا قد چھوٹا رہ گیا۔ یا ممکن ہے کہ برفانی علاقے میں رہنے کی وجہ سے اس کے ویسے ہی زیادہ بال ہوتے ہوں جیسے یاک نامی برفانی گائے کے ہوتے ہیں، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ڈائنوسار کی چڑیا بن جائے اور وہ اڑنے لگے؟ بالوں کا معاملہ تو آپ نے انسانوں میں بھی دیکھا ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ انسانوں کے بال بھی کم ہوتے رہتے ہیں، حتی کہ بعض تو گنجے بھی ہو جاتے ہیں، لیکن رہتے تو وہ انسان ہی ہیں ناں۔

یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جراثیم سے مچھلی بنی، مچھلی سے چوپائے بنے، چوپائے سے بندر بنے اور بندر سے انسان۔ خدا کی حکمت ہے کہ اس نے جانداروں کو پتھر بنا کر فوسل کی شکل میں محفوظ کر دیا ہے تاکہ ارتقا کے ایسے حامی سائنسدانوں کی گمراہی پر گرفت کی جا سکے۔ کیا آج تک ایسے فوسل مل سکے ہیں جو کہ اس ساری تبدیلی نوع کی گواہی دے سکیں؟ لاکھوں سال پرانے ڈائنو سار کے فوسل مل جاتے ہیں، نہیں ملتے تو بس اس بندر سے انسان بننے کے نہیں ملتے۔

یہ ٹھیک ہے کہ انسان سے ملتی جلتی چند مخلوقات ملتی ہیں، مگر وہ انسان تو نہیں تھیں، جیسے تو بن مانس بھی انسان سے ملتا جلتا ہی ہے، مگر انسان تو نہیں ہے۔

اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ یہ فوسل آخر ہوتے کیا ہیں؟ جب کوئی جاندار شے مر جائے تو اس کی لاش پر ریت مٹی پڑتی رہتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ پتھر کی شکل اختیار کر جاتی ہے جس پر اس جاندار شے کا نقش باقی رہ جاتا ہے۔

ایسا عام طور پر پانی کی تہہ کے نیچے ہوتا ہے۔ کیا یہ نہیں سوچا جا سکتا ہے کہ یہ تمام فوسل کروڑوں سال کے وقفے سے نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں طوفان نوح کے وقت اس موقعے پر وجود میں آئے تھے جب کرہ ارض سے سیلاب کے باعث حیات تقریباً ختم ہو گئی تھی؟

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
18 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments