نادرا کا مشکوک پاکستانی


\"omair

مودبانہ گزارش ہے کہ زبیر اور نادیہ کو معاف کر دیا جائے۔ وہ بھول گئے تھے کہ رشتے چاہے آسمان پر طے ہوتے ہوں، لکیریں تو زمین والوں نے ہی کھینچ رکھی ہیں۔ آسمان سے تو سرحد نظر بھی نہیں آتی، لیکن دھرتی پر دیوار کی مانند ایستادہ ہوتی ہے۔ آر پار دیکھنے دیتی ہے۔۔۔ آنے اور جانے نہیں دیتی۔ زبیر اور نادیہ یہ بھی بھول گئے تھے کہ اوپر والا جوڑے تو بنا دیتا ہے، نیچے والے جڑنے نہیں دیتے۔ آسٹریلیا میں رہتے رہتے انہیں یہ خیال بھی نہ رہا کہ پاکستانی لڑکے اور ہندوستانی لڑکی کی شادی پر فلمیں بنانے والے خواب بیچ کر چلے جاتے ہیں۔ فلم ختم ہو جاتی ہے، پاکستان اور بھارت کی کشیدگی ختم نہیں ہوتی۔

صاحبان نادرا! آپ کچھ دیر کے لیے زبیر اور نادیہ کو بھول جائیے۔ ان کے پانچ ماہ کے بیٹے علی محمد کی آنکھوں میں جھانکیے۔ یہ اپنی شناخت کے لیے آپ کے سرخ فیتے میں الجھ چکا ہے۔

زبیر اسے پاکستانی شناخت دینا چاہتا ہے۔ آپ کے ہاں عرضی گزارے عرصہ ہونے کو آیا ہے۔ علی محمد کی والدہ بھارتی شہری ہیں لہذا آپ چونکہ چنانچہ کر رہے ہیں۔ درخواست وصول کرتے ہیں، انتظار کا کہتے ہیں۔ اقرار نامہ مانگتے ہیں کہ علی محمد کی بھارتی شہریت کے لیے درخواست نہیں دی گئی۔ یہ فراہم کر دیا جائے تو مزید انتظار کا کہتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ توقع سے زیادہ وقت لگے گا۔

زبیر کی آسٹریلیا میں قیام اور کام کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ آسٹریلوی حکام نے مزید کچھ عرصہ رہنے کی اجازت تو دے دی ہے، کام کرنے کی نہیں دی۔ گزارا مشکل ہو چلا ہے۔ اس سال اٹھائیس اکتوبر کو اسے ہر صورت واپس پاکستان جانا ہے۔ علی محمد کی شناختی دستاویزات نہ بنیں تو آسٹریلوی ریاست اسے اپنی تحویل میں لے لی گئی۔

آپ اپنے کوائف میں زبیر کی ازدواجی حیثیت \’غیر شادی شدہ\’ سے \’شادی شدہ\’ کرنے سے بھی انکاری ہیں۔ کہتے ہیں تحقیقات کے لیے مزید وقت چاہیے۔ کس چیز کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں آپ؟ کیسے یقین دہانی کرائی جائے کہ پانچ ماہ کا علی محمد کسی کے لیے خطرہ نہیں بنے گا؟

حضرت! کیا معصومیت کی بھی کوئی سرحد ہوتی ہے؟ کیا آپ کے بھولپن کی بھی کوئی سرحد ہے؟
تعلقات تو پاکستان اور بھارت میں کشیدہ ہیں، آپ یہ تلخی عوام کی زندگیوں میں کیوں گھولتے ہیں؟

زبیر اور نادیہ فرضی نام ہیں، فریقین کی سہولت کے لیے بدل دیے گئے۔ لیکن صاحبان نادرا کے علم میں ضرور ہو گا کہ آسٹریلیا کا بچہ علی محمد ان سے اپنی پاکستانی شناخت مانگ رہا ہے، جس کا باپ پاکستانی اور ماں ہندوستانی ہے اور جو نہیں جانتے تھے کہ رشتے تو اوپر والا طے کرتا ہے، لیکن زمین والے لکیریں کھینچ دیتے ہیں۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments