پاکستانی حقہ، جرمن اسٹوڈنٹ یونین اور فیسوں میں اضافہ


لیکن یہاں شدید سے شدید تر اختلافات کے باوجود سبھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔ یہ کہہ کر اٹھ جاتے تھے کہ یہ آپ کی رائے ہے، میں فی الحال اس سے متفق نہیں ہوں لیکن میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں، آپ کو مجھ سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان میں میں نے یہی سیکھا تھا کہ بس میں ٹھیک ہوں۔

ہمارے فلیٹ پر ساری ساری رات بحث و مباحثے چلتے تھے۔ کورینہ اور ہارالڈ ملحد تھے، فلوریان اور اس کا دوست اسرائیل کے لیے لابنگ کرتے تھے۔ میں ہمیشہ اسلام، فلسطین اور اپنی ثقافت کی بات کیا کرتا تھا۔ میں اصل میں کوئی اتنا اچھا مسلمان نہیں تھا لیکن جرمن مجھے سے پہلا سوال یہ کرتے تھے کہ تم مسلمان ہو لیکن مسلمان تو ایسا نہیں کرتے۔ مجھے تھوڑا بہت مسلمان جرمنوں کے ایسے سوالوں نے بنایا اور مجھے سنجیدہ ہو کر سوچنا پڑا کہ میری شناخت کیا ہے؟ بھیرٹی مسیحی اقدار کا حامی تھا۔ کچھ دوست لیسبین اور گیز کے حقوق کے لیے کوشاں تھے اور اکثر اپنے دوستوں کو لے کر ہمارے فلیٹ پر وارد ہو جاتے تھے۔

شروع شروع میں میں دوران بحث جذباتی ہو جایا کرتا تھا لیکن چند ماہ بعد ہی احساس ہوا کہ نظریات اور خیالات کی بحث پرامن طریقے سے بھی کی جا سکتی ہے۔ ایک دوسرے کے موقف کو سنا جا سکتا ہے لیکن جبری طور پر کسی کو منوایا نہیں جا سکتا۔ میں نے بحث کرنے کا انداز اس یونین کا حصہ بن کر سیکھا، مخالف کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کرنے کا حوصلہ مجھے یہاں سے ملا۔ میں نے سیکھا کہ دوسرے کا موقف ٹھیک بھی ہو سکتا ہے، اسے ایسے ہی رد نہیں کر دینا چاہیے۔ مجھے پتا چلا کہ میں بھی غلطی کر سکتا ہوں اور جب غلطی کا معلوم ہو تو اس کا اعتراف کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے بلکہ غلطی قبول کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔

خیر یونیورسٹی الیکشن ہوئے تو مجھے اپنی سیاسی جماعت کے ٹاپ امیدوار سے بھی زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ جب الیکشن رزلٹ آیا تو یونیورسٹی میں ہر کوئی پوچھ رہا تھا کہ یہ امتیاز احمد کون ہے؟

مجھے ہارالڈ کا فون آیا کہ تم نے کیا کیا ہے، تمہیں اتنے زیادہ ووٹ کیسے ملے؟ میں اس وقت ایک اطالوی ریستوران میں برتن دھو رہا تھا لیکن خوشی ہوئی کہ میں پارلیمان کا رکن بن گیا ہوں اور اب فیس ادا نہیں کرنی پڑے گی۔ یونیورسٹی میں اراکیں پارلیمان کو اضافی سمیسٹرز کے ساتھ ساتھ فیسیں بھی معاف کر دی جاتی ہیں تاکہ وہ طالب علموں کے مسائل پر توجہ دے سکیں۔

اسی دوران ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک جرمن لڑکی نئی نئی مسلمان ہوئی تھی۔ میرے ایک ساتھی نے اسے کہا کہ ووٹ امتیاز کو دینا کیوں کہ یہ مسلمان ہے۔ اس نے کہا صرف اس بنیاد پر ووٹ دے دوں کہ یہ مسلمان ہے؟ میں اس بنیاد پر ووٹ دوں گی کہ یہ پارلیمان میں جا کرکرنا کیا چاہتا ہے، اس کا ایجنڈا کیا ہے، یہ اسٹوڈنٹس کی فلاح کے لیے کیا کرے گا؟ تب مجھے پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ مذہب، رنگ، نسل بعد میں آتے ہیں۔ ووٹ دینے سے پہلے برادری، رنگ یا نسل نہیں بلکہ کارکردگی اور مستقبل کا لائحہ عمل دیکھنا چاہیے۔

خیر میں دو برس تک یونیورسٹی پارلیمان میں رہا۔ پہلی مرتبہ پتا چلا کہ فیصلے کیسے ہوتے ہیں۔ لابنگ کیسے کی جاتی ہے؟ اسٹوڈنٹس کے لیے فلاحی پروگرام کیسے ترتیب دیے جاتے ہیں اور شدید اختلافات کے باوجود کسی ایک اہم مسئلے پر سب نے کیسے اختلافات بھلا کر ایک ہونا ہے۔

ایک مرتبہ سب سے مشکل مرحلہ اس وقت آیا، جب یونیورسٹی میں اسرائیل کی قابضانہ پالیسیوں کے حوالے سے ایک سیمینار کروانے کی تجویز پیش کی گئی۔ یہ تجویز کسی اور نے نہیں بلکہ ایک جرمن یہودی لڑکی نے پیش کی تھی۔ اس کا موقف تھا کہ اسرائیل کی حکومتی پالیسیوں کو سب کے سامنے عیاں ہونا چاہیے اور اس کا مطلب سامیت دشمنی نہیں ہے۔ یہ مشکل ترین قرار داد تھی کیوں کہ جرمنی میں ہٹلر کی وجہ سے ابھی تک یہ موضوع انتہائی حساس تصور کیا جاتا ہے۔ خیر لابنگ کے بعد پارلیمان نے اس کی منظوری دی اور تل ابیب سے ایک پروفیسر کو مدعو کیا گیا۔

خیر میرا سفر فیسوں سے شروع ہوا تھا، میں دو سال تک پارلیمان میں رہا لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود صوبائی حکومت نے فیسیں ختم نہ کیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ طالب علموں نے آئندہ صوبائی انتخابات سے پہلے آگاہی مہم شروع کیے رکھی۔ چار سال بعد دوبارہ پرانی حکومت آئی تو اس نے فیسیں ختم کر دیں۔ اب یونیورسٹی آف بون میں کوئی فیسیں نہیں وصول کی جاتیں۔ لیکن مجھے اس دوران جمہوریت کے حسن کا پتا چلا، یونیورسٹی سطح کے سیاسی معاملات کو سمجھنے کا موقع ملا، احتجاج کرنے کا طریقہ سیکھا، دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ پیدا ہوا، شکست تسلیم کرنے کا ڈھنگ سیکھا اور جمہوری طریقے سے اپنے حقوق مانگنے اور مطالبات منوانے کا ہنر آیا۔

پاکستان میں گزشتہ روز طلبہ کی ریلی دیکھی تو دل میں امید کی کرن پیدا ہوئی۔ یہ احساس ہوا کہ کسی یونین کا حصہ نہ ہونے کہ وجہ سے میں کتنا کچھ نہیں سیکھ پایا تھا۔ دوسرا یونیورسٹیوں میں یونین کا صرف ایک رنگ نہیں ہونا چاہیے، اس میں سبھی رنگ ہونے چاہئیں، لال، پیلا، نیلا، سبز سبھی ہونے چاہئیں، یہی تنوع یونینز کو خوبصورت بناتا ہے۔

ایک فرق جو میں نے کل پاکستانی طلبہ اور جرمن طلبہ کے احتجاجی مظاہروں میں دیکھا وہ موضوعات کا ہے۔ پاکستان میں گزشہ روز جو نعرے لگائے گئے وہ معاشرتی مسائل سے متعلق بھی تھے، وہ نعرے بھی تھے، جو روایتی طور پر این جی اوز اور سیاسی پارٹیاں لگاتی ہیں۔ لیکن جرمن طلبہ کے نعرے صرف اسٹوڈنٹس کے مسائل اور تعلیمی نظام کے اردگرد ہی گھومتے تھے۔ لیکن اس سال میں نے دیکھا کہ جرمن طلبہ نے بھی تحفظ ماحول کے لیے احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں اور وہ عالمی ماحولیاتی تحریک کا حصہ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔

میرے خیال سے اگر مختلف طلبہ یونینز کو اچھے طریقے سے چلایا گیا، تو یہ پاکستانی طلبہ کی شعوری بیداری میں اہم کردار ادا کریں گی۔ شاید اس طرح ہی پاکستان میں نجی کالجوں اور اسکولوں کی وباء پر کنٹرول حاصل ہو سکے، شاید اس طرح ہی غریب اور امیر کے بچے کو ایک جیسے اسکول جانے کا موقع مل سکے، شاید یہی یونینز تعلیم کے مساوی حق کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں، شاید یہی غریب طالب علم کبھی ملکی پارلیمان کا حصہ بنیں اور ہمیں کرپٹ سیاستدانوں سے نجات مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2