پاکستان میں صحافت کی آزادی


\"mujahidپیو (PEW) ریسرچ سنٹر کے ایک تازہ سروے کے مطابق پاکستان آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے معاملہ میں بدترین ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ 37 ملکوں میں کئے جانے والے اس سروے میں پاکستان کو چونتیسواں نمبر ملا ہے۔ صرف اردن اور سینی گال میں آزادی اظہار کے لحاظ سے پاکستان سے زیادہ برے حالات بتائے گئے ہیں۔ سروے میں سر فہرست امریکہ اور پولینڈ ہیں جبکہ بھارت کا پچیسواں نمبر ہے۔ ملک کا میڈیا اور سیاسی حکومت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ اظہار رائے پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے لیکن اس سروے میں یہ تاثر غلط ثابت ہؤا ہے۔ پاکستان کو اس سے پہلے ہی صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ملکوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خبر کی ترسیل کے حوالے سے بھی ملک کے صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

حال ہی میں روزنامہ ڈان کی ایک معمول کی خبر پر سامنے آنے والا ہنگامہ بھی پاکستان میں آزادی اظہار کے حوالے سے صورت حال کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومت اور طاقتور ادارے اپنی مرضی اور صوابدید کے مطابق خبریں اور تبصرے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں ان مسائل کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا جو مفاد عامہ سے متعلق ہوں۔ ٹاک شوز اور کالموں میں بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود مکمل آزادی اور غیر جانبداری سے خبر اور اس پر تبصرہ کرنے کا مزاج سامنے نہیں آسکا ہے۔ صحافیوں کو حکومت کے علاوہ طاقتور مذہبی گروہوں اور انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے بھی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر نے یہ سروے سات سوالوں کے جوابات کی بنیاد پر تیار کیا ہے۔ ان میں پانچ سوال آزادی اظہار اور تین آزادی صحافت کے بارے میں تھے۔ ہر مثبت جواب کا ایک نمبر اور منفی جواب کا کوئی نمبر نہیں تھا۔

اس سے قبل اگست میں سامنے آنے والے ایک سروے میں پاکستان کو شہرت کے اعتبار سے دنیا کے تین بدترین ملکوں میں شامل کیا گیا تھا۔ اس سروے میں صرف ایران اور عراق کو شہرت کے حوالے سے پاکستان سے بدتر قرار دیا گیا تھا۔ یہ سروے قوت برداشت، تحفظ و سلامتی، معیار زندگی اور سیاحوں کے لئے دلچسپی کی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا۔ لیکن پاکستان کو اس سروے میں بھی بہتر پوزیشن حاصل نہیں ہو سکی۔

اوڑی سانحہ کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کی تھی ۔ اس کے نتیجے میں بھارتی میڈیا نے سرکاری ہدایات اور پالیسی کے مطابق یک طرفہ اور جانبدارانہ پاکستان دشمن پروپیگنڈے کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ اس کے باوجود بھارت میں اظہار رائے کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔ پاکستانی میڈیا اور صحافی عام طور سے مختلف شعبوں میں بھارت کی مثال دیتے ہوئے پاکستان کو بہتر قرار دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن عالمی سطح پر سامنے آنے والے اشاریے اس رائے کی تصدیق نہیں کرتے۔ پاکستان میں ایک خاص طرح کی رائے اور بعض موضوعات پر مخصوص حدود کے اندر خبر دینے اور بات کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح عام لوگوں کے لئے بھی امور زندگی کے بارے میں متعدد موضوعات شجر ممنوعہ بن چکے ہیں۔ ایسے کسی موضوع پر یا تو بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے یا اس کے بارے میں مسلمہ تعصبات کو ہی بیان کرنے پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔

کسی بھی معاشرے میں سامنے آنے والی ساری آرا سود مند نہیں ہو سکتیں۔ لیکن اس بات کا فیصلہ ملک کی حکومت ، فوجی ادارے یا مذہبی گروہ نہیں کرسکتے کہ کون سے موضوع پر کس طرح بات کی جاسکتی ہے۔ فرد کو آزاد معاشرے کے شہری کے طور پر اور صحافیوں کو ایک ذمہ دار پیشہ سے منسلک ہونے کے ناطے اس بات کا حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ خود یہ فیصلہ کرسکیں کہ کون سی بات کس انداز میں کہنا یا پیش کرنا مناسب ہوگا۔ یہ آزادی پاکستان میں عنقا ہے۔ اسی لئے آزادی اظہار کے انڈیکس میں پاکستان کو بدترین پوزیشن حاصل ہوئی ہے۔

ملک میں بعض ’اعلی اقدار‘ اور مذہب کی خود بیان کردہ تفہیم کو فرد کی آزادی اور صحافیوں کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی پر سبقت حاصل ہے۔ جب بھی ان حدود کو کسی طرح وسیع کرنے یا مسلط کی گئی تشریحات سے اختلاف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسے ملک وقوم کے مفاد یا مذہب کے خلاف قرار دے کر کسی بھی فرد کا جینا حرام کردیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل اور اس کے قاتل کی سزا پر سامنے آنے والا تنازعہ ہے۔ ممتاز قادری نے ذاتی تفہیم اور تشریح کے مطابق سلمان تاثیر کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دے کر قتل کردیا اور مقدمہ کی سماعت اور سزا کے دوران ملک کی مذہبی جماعتیں قادری کے غیر قانونی اقدام کو اسلام کی خدمت قرار دے کر اسے شہید اور اسلام کے ہیرو کا درجہ دیتی رہی ہیں۔

اظہار کے حق کا تحفظ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی قانون شکنی کا فیصلہ کرنے کا حق صرف عدالتوں کو ہو اور ملک میں ایسا عدالتی نظام استوار ہو سکے جو دباؤ اور تعصب سے بالا ہو کر میرٹ کی بنیاد پر فیصلے صادر کرنے پر قادر ہو۔ اپنی رائے اور صوابدید کے مطابق اختلاف رائے کرنے والے کے خلاف اقدام اور فیصلے کرنے کا رویہ کسی بھی معاشرے میں فرد کے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان میں جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوگی اور حکومت ، ادارے اور گروہ من مانی تفہیم یا توجیہہ کے مطابق لوگوں کو سزا دینے یا ملک و مذہب کا دشمن قرار دینے کے طرز عمل پر گامزن رہیں گے، آزادی اظہار کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments