مرغی خانوں میں سوچ کی بیماری کیسے آئے


\"Rashidایک استاد اور پولیس والے کو ڈھول کی طرح پیٹا جاتا ہے۔ پیٹنے والے خود کو جس مقدس دنیا کا باسی سمجھتے ہیں۔ یہیں سے استاد بھی نکلتا ہے اور پولیس والا بھی یہیں سے برآمد ہوتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک قطار میں پاک باز کھڑے ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف یہ دو افراد کسی مجرم کی طرح ملامتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ بات بات پہ عدالت لگتی ہے کٹہرے میں استاد کو کھڑا کر کے کئی طرح سے آزمایا جاتا ہے۔ استاد آخر تھک کیوں نہیں جاتا؟ وہ باز کیوں نہیں آ جاتا، کیا وہ اتنا عادی ہو گیا ہے کہ ہر قسم کی تنقید و طعنہ سنے اور برا نہ مانے؟ یا پھر استاد کو ایسا کردار بننے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ آئیے استاد کو انسان سمجھتے ہیں، پھر اسے یقین دلاتے ہیں کہ \’استاد جی آج کے بعد آپ کو بطور انسان ہی جانا جائے گا، خیالی فرشتے کا رتبہ آپ کو نہیں درکار یہ ہم مانتے ہیں۔\’ ایسا کرنے سے ہو سکتا ہے کہ ہماری دانشوری کو وجہ مل جائے۔

ایک استاد کی قدرو منزلت کو بیان کرنے سے استاد کا پیٹ نہیں بھرتا، اس کی بھوک کم بخت ویسی ہی سفاک ہے جیسی آپ کی میری۔ اس کی عزت کو دو بول کا اعتراف نہیں بلکہ اسے عملی تکریم درکار ہے۔ جس اندھے کنویں میں استاد کو پھینکا گیا ہے، وہاں سے باہر نکلنے کے لیے \’شاباش\’ ہی نہیں بلکہ اقدام کی ضرورت ہے۔پہلے استاد سب کا تھا، آج غریب اور امیر کا استاد علیحدہ ہے۔ دونوں کے ذمے جو کام ہے وہ اس کام کو پورا کر رہے ہیں۔ ایک نے دولت کا حصول اور آداب حکمرانی کی تعلیم دینی ہے جب کہ دوسرے نے اپنی محرومیوں کے قصے بیان کرنے ہیں۔ اندھا دھند احکامات کی پیروی کرنی ہے بصورت دیگر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سرکاری سکولوں کی تابناک تاریخ بتا نے سے آج کی حالت زار کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ کھنبیوں کی طرح اگتے نجی سکولوں کی خبریں بھی بہت عام ہو چکی ہیں۔ مویشیوں کے باڑوں، غلے کے گوداموں، شکستہ عمارتوں اور باورچی خانوں کے نقشے کھینچنے کے بعد اب مرغی خانوں کی تشبیہ بھی استعمال کر لی گئی۔ مگردرس گاہیں ابھی تک جوں کی توں ہیں۔ سب خیر کے کلمے اور جہاں بھر کی ملامتیں اس لحاظ سے بے سود رہی ہیں۔ مصور تصویر کشی کرتے رہے ہیں اور قلم قبیلہ الفاظ تراش تراش کر نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔ تازہ خبروں پہ مصالحے دار جگتوں کا چھڑکاو کر کے پرزے بکتے رہے اور قاری واہ وا کرتے رہے۔ سوچنے کی بیماری سے بچنے کا انجام یہی ہوتا ہے کہ پس ماندگی کا مرض پھوٹ پڑتا ہے۔ چاروں طرف گھومتی اٹھتی انگلیوں میں کاش یہ جادو ہوتا کہ وہ اسباب کھوج لیتیں۔ وہ عوامل کہ جن کے سبب یہ سماں بندھا ہوا ہے ان کا پتا ملتا۔ اس کردار کو بے نقاب کیا جاسکتا کہ جس نے خیرخواہی کے لباس میں چھپ کر تقدیر کی ساتھ کھلواڑ کیا۔ اس داستان کے پس منظر میں کیا ہے، حاصل نا آشنائی ہے، یا پھر دانستہ اس گلی سے نہیں گزرا جاتا کہ جہاں تدبیر گھر واقع ہے۔

وجوہات دفن ہیں اور ان سے تعفن پھیل رہا ہے۔ چوراہے پہ کھڑے شرفا اور اہل دانش کب سے خبروں پہ خبریں سنا رہے ہیں۔ یہ جانتے نہیں کہ ماضی کی مثالوں سے صرف یاد کی رسم ادا ہوتی ہے، لیکن صورت احوال نہیں بدل رہی۔ ہم جیسے \’کم علم\’ ایسی تاریخی تفصیلات کو ایک آس پہ جاننا چاہتے ہیں کہ \’حالات ضرور بدلیں گے۔\’ تعلیم کی اہمیت کا چرچا ہے اور جہالت سے نفرت کا نعرہ مقبول ہے۔ نظام کی خرابی کا اشتہار ہر جریدے میں نظر آتا ہے۔ اسے درست کرنے کا اعادہ بھی ہوتا ہے۔ الٹنے، پلٹنے اور بدلنے کی باتیں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ سمجھنے کا تذکرہ ابھی باقی ہے اور یہی المیہ ہے۔ مسئلہ استاد میں نہیں بلکہ اس سلوک میں ہے جو روا رکھا جاتا ہے۔ بیس یا پچیس ہزار کا ملازم استاد چاہتا ہے کہ اسے جینے کا گر سکھایا جائے۔ وہ اپنے متعلقین کو کچھ کھلا کے، مکان کا کرایہ دینا چاہتا ہے۔ اسپتال میں علاج اور ادویات کے لیے بندوبست کرنے کا سوچتا ہے۔ یہی پیسے ہیں، گیس اور بجلی کے بل بغیر کہے ادا کرنے ہیں۔ سال میں دو عیدوں پہ اس کے بچے جوتوں اور کپڑوں کی ضد کرتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو وہ نہیں سمجھا سکتا کہ استاد صرف روحانی پیشوا ہے۔ ایسے لوگ کسی منافع بخش عمل کاحصہ نہیں ہوتے، لہذا انہیں تعریفی و توصیفی مقام پہ روایتا بٹھا دیا جاتا ہے۔ اسے دیانت داری اور راست بازی کی تلقین کرتے ہوئے خود کو قناعت پہ قائل کرنا ہے۔ اپنے شاگردوں کو سمجھانا ہے کہ استاد بن کر اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ مگر وہ بچوں کو استاد بننے کا درس نہیں دیتا۔ اس سے بڑی بھلائی اور کوئی کیا کر سکتا ہے۔ وہ اپنے پیٹ کو کاٹ سکتا ہے مگر خود سے منسوب افراد کی خوشیوں کو پاؤں تلے کیسے روند سکتا ہے۔ صبح سکول جاتے ہوئے ایک تیز رفتار گاڑی دھول اڑاتی ہے تو کھل کے کھانس بھی نہیں سکتا۔ اگر کیچڑ کی چھینٹ اسک ے نیم سفید کپڑوں پہ پڑ جائے تو شرم سے آنکھیں جھکا لیتا ہے۔ یہ سب جھیلنے کے بعد اس مجاہد استاد کو اسک ا شاگرد ڈی سی یا ونگ کمانڈر گاڑی سے اتر کر جپھا بھی ڈالے تو اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہیں۔ ان آنسووں کو خوشی کے آنسو نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ اس کرب کا اظہار ہیں جو روز ایک استاد سہتا ہے۔ اب ایسی عزت کو اپنا اعزاز سمجھے یا اپنی کم تری کی تصدیق سمجھے یہ فیصلہ استاد کر سکتا ہے۔ ہم صرف اندازے قائم کر سکتے ہیں۔

آج کے استاد میں کم اعتمادی کی وجہ یہی ہے کہ زندگی کی دوڑ میں بلکہ حیوانی ضروریات کی تلاش میں چور ہو جاتا ہے۔ نام نہاد انسانوں کی بستی بہت کم وقت گزارتا ہے۔ تمام معیار اور آداب اسے مطمئن نہیں کر پائے ہیں۔ ایک شکست خوردہ آدمی کو عہد رفتہ کی میراث سے بہلایا نہیں جا سکتا۔ قرض لے کر مکان کا کرایہ ادا کرتا ہے اور انکریمنٹ کے انتظار کی وجہ یہ ہے کہ دس فیصد کرائے کو ادا کرے، باقی ماندہ سے بڑھتی مہنگائی کا منہ بند کر سکے۔

نجی سکولوں کا جواز تو طبقاتی نظام تعلیم کے ساتھ منسلک ہے۔ جب کہ ادنی درجے کے نجی اداروں کا وجود سرکاری سکولوں میں ارباب اختیار کی متعارف کردہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ورنہ نجی سکولوں اور اسپتالوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ یہ کرما فرماؤں کی عوام دوستی کا ثبوت ہے جنہوں نے سرکاری اداروں کو صرف اپنے احکامات کی بجاآوری کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ یا پھر بیرونی امداد کے لیے ان خدماتی اداروں کے نمونے قائم رکھے گئے ہیں۔ ملازمین کا جو حال نجی اداروں میں ہے، اس سے چشم پوشی کی وجہ بھی یہی ہے کہ سرکار اپنی ذمہ داریوں سے جان بچا رہی ہے۔ ورنہ بے روزگاروں کی ایک اور بڑی فوج میدان میں اتر سکتی ہے۔ جب اتنے وسیع پیمانے پہ حق تلفی ہو گی اور پھر تقاضا یہ کیا جائے گا کہ آگے سے صرف اخلاقیات اور تربیت کو مدِ نظر رکھا جائے، تو ایسی خواہش کو کیا مانا جا سکتا ہے۔ ایک سرکاری استاد کو جب اپنے پیشے میں تحفظ محسوس نہیں ہو گا تو دل چسپی کہاں سے آئے گی، اور کتنے ایسے اساتذہ کو سامنے لایا جا سکتا ہے جن کا جذبہ صرف رضاکارانہ ہو۔ بھرے ہوئے پیٹ کی ڈکاریں دور تک سنائی دیتی ہیں۔ جن گھروں میں ناامیدی اور محرومی ناچ رہی ہو وہاں صرف اس پہ فخر کیا جا سکتا ہے کہ اس کے شاگردوں میں 4 ڈی سی بنے، 2 ونگ کمانڈر ہوئے اور 5 ڈاکٹر ہیں۔ لیکن اگر کوئی استاد گھر میں یہ کہے کہ اس کے شاگردوں میں ایک استاد ہے، تو مجال ہے کسی کی باچھیں کھلیں۔ محترم اشفاق احمد صاحب خدا ان کے درجات بلند کرے انہیں بھی استاد کی اعلی شان بیان کر نے لیے باہر سے مثال برآمد کرنا پڑی ہے۔ حالاں کہ ان جیسے آدمیوں کے بارے میں اپنے ہاں بھی ہمیشہ بہترین رائے کا اظہار ہوا ہے۔

عرض یہ ہے کہ استاد کے گھر میں حسرت اور نا امیدی بدستور راج کر رہی ہے۔ اس کا بھرا ہوا پیٹ ہی تجویز کرے گا کہ اس نے انگریزی کی تعلیم کتنے بہتر انداز سے دینی ہے۔ وہ انگریزی نہیں جانتا تو وہ سیکھ لے گا۔وہ اپنے شاگردوں کو فخریہ بتائے گا کہ اگر تم \’ڈی سی\’ نہ بھی بننا چاہو تو استاد بن سکتے ہو۔ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ پولٹری فارموں میں خدا کرے کہ سوچ کی وبا پھوٹ پڑے تو ان مرغی خانوں کو درس گاہ بننے میں دیر نہیں لگے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments