شٹ اپ : ترقی کرو غدارو
اسلام آباد میں چینی حکومت کے سفیر مسٹر لی جیان کی ثنا بلوچ (ایک سینیٹر ، جو عوامی نمائندگی کے منصب پر فائض ہیں ) سے ٹویٹر پر ہونے والی بحث نے مجھے چونکا دیا ہے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ چینی سفیر کے لب و لہجے سے کیا معنی اخذ کروں ۔ پہلے ذرا ان کی آپس میں بزریعہ ٹویٹر بات چیت ملاحضہ فرمائیں ۔
چینی سفیر نے پہلے گوادر میں کھلنے والے ایک سکول کے بارے میں ٹویٹ کیا : \”چھوٹا اور خوبصورت! سی پیک کے تحت پہلا منصوبہ بلوچستان میں مکمل ہوا۔ (حصہ اول): گوادر دوستی اسکول، پیارے بچے، پیارا اسکول!\”
ثنا بلوچ کا ٹویٹ پر ریپلائی : \”کیا آپ Diaoyu/Senkaku کے جزیروں کو جاپان کو دینا پسند کریں گے اگر وہ آپ کو ایک (sic) یونیورسٹی بنانے کی پیشکش کردیں؟ پھر ایک اسکول کے لیے گوادر کیوں؟\”
لی جیان نے جواب دیا \”Diaoyu کے جزائر چین اور جاپان کے مابین متنازع علاقہ ہیں۔ کیا گوادر متنازع ہے؟ چینی گوادر کو ترقی دینے کے لیے یہاں ہیں۔ برائے مہربانی معتدل بنیں۔ \” اس کے بعد چینی سفیر مزید گویا ہوئے \”\”چینی یہاں گوادر کو ترقی دینے کے لیے ہیں۔ کیا تم نسلاً پاکستانی ہو؟ کیا گوادر میں ترقی کی مخالفت آپ کے خون میں ہے؟\”
سینیٹر ثنا بلوچ نے اس تلخ و تند مزاج اور نسل و خون کے متعصبانہ جواب پر بھی اپنا لہجہ نرم رکھا اور جواب دیا : \”محترم زائو! ہمیں مدد اور خیرات کی ضرورت نہیں۔ ہم ترقی میں حصہ دار بننے کے لیے تیار ہیں جس میں کہ بلوچوں سے جائز بات چیت ہو (؟) نہ کہ صرف اسلام آباد سے۔ \”
( ترجمہ بشکریہ حال احوال )
چینی سفیر کے اس لہجہ نے مجھے حیران اور پریشان کر دیا ہے ۔ اقتصادی راہداری یقینا پاکستانی معیشت کے لئے فائدہ مند ہے مگر اتنی بھی نہیں جتنا اس پر ڈھول پیٹا جا رہا ہے ، دوم : اقتصادی راہداری کو ریاستی بیانیہ بنا دینا اور اس پر حب الوطنی و غداری کے سرٹیفکیٹ دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ یہ تو سراسر فاشزم ہے ۔ اور کیا چینی سفیر کا اس لب و لہجہ میں بات کرنا چہ معنی ؟ سوم : اس راہداری سے متعلق تین صوبوں بلوچستان ، کے پی ، اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی نمائندہ حکومتوں کو سخت تحفظات ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ہمیں اور کچھ نہ بتایا جائے صرف یہ بتا دیا جائے کہ ہمارا اس میں حصہ کیا ہے اور ہمارے بعد از راہداری فرائض کیا ہوں گے کہ کل کو آپ کہیں کہ اتنے اخراجات میں سے اتنی رقم آپ فراہم کریں ۔ مگر ظلم دیکھئے کہ سب باتیں راز بنا کر چند لوگوں نے اپنے سینے میں یوں دفن کی ہوئی ہیں کہ پورے ملک سے وفاق کو دی جانے والی صدائیں ان کے کانوں کے پردوں میں ارتعاش تک پیدا نہیں کر رہیں ۔
سب سے زیادہ کنفیوژن اور بے چینی اس راز داری کے سبب ہے جس کے پس منظر میں ریاستی مزاج کے عوام پر اعتماد کا زوال ہے۔ خدارا سچ بتا دیجئے کہ اصل کہانی کیا ہے ۔ یہ پروجیکٹ اصل میں کیا ہے ۔ تین صوبوں کی عوام غدار نہیں ۔ ان کی سرزمین اگر استعمال ہو گی تو سوال پوچھنے کا حق بھی وہ استعمال کریں گے ۔ وفاق صوبوں پر اپنی آمریت آئینی و اخلاقی و جمہوری بنیادوں پر نافذ نہیں کر سکتا ۔
راہداری تو جب بنے گی سو بنے گی اور اللہ کرے کہ اس قوم کے لئے کامیابیاں لائے مگر اب تک اس نے بقول مائیکل Kugelman پاکستانی وفاق کو ان معانی میں کمزور کیا ہے کہ تین صوبوں میں موجود تمام شناختیں احساس محرومی کا شکار ہو گئی ہیں اور وفاق کو شک کی نظرسے دیکھنے کا رجحان مزید بڑھ گیا ہے۔
ایک طرف مجھے حیرت چینی سفیر کے لب و لہجے پر ہے کہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ اب ہمیں وہاں سے بھی لینے پڑیں گے ۔ دوسری حیرت مجھے وفاق اور ہیئت مقتدرہ کے اس ضدی رویے پر ہے کہ صوبوں سے اور دیگر شناختوں سے اہم نوعیت کے منصوبے چھپائے جائیں اور وہاں سے اگر سوال کیا جائے تو اسے حب الوطنی و غداری کے ترازو میں تولا جائے ۔ تاریخ سے متعلق اس ہٹ دھرمی کا رویہ ہم میں اتنا راسخ ہے کہ آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر بھی آئینے کو جھٹلاتے ہیں ، آئینے کو توڑ دینے کے درپے ہیں مگر اپنے چہرہ پر جو اذیت ناک زخم ہم دیکھ رہے ہیں اس کے علاج سے خائف ہیں ۔
خدارا ، یہ ملک چینیوں کا نہیں ، یہ ہیئت مقتدرہ کا مقبوضہ بھی نہیں ، اور وفاق کا فاشزم بھی پاکستانی آئین و جمہوریت کی رو سے باطل ہے ۔ خدا را تینوں صوبوں کی عوام اور ان کے نمائندوں کی سنئے، ان کے شکوے شکایتوں پر دھیان دیجئے ، اور سب کو ساتھ لے کر چلئے ۔ یاد رکھئے اس کے بغیر نہ معیشت ترقی کر سکتی ہے ، نہ سماجی ہم آہنگی ممکن ہے اور نہ ہی ترقی پسند سیاسی تمدن قائم ہو سکتا ہے ۔
- حماس اسرائیل قضیے میں چند گزارشات - 19/05/2021
- مولانا طارق جمیل سے اختلاف کس بات کا ہے؟ - 03/05/2021
- کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟ - 28/03/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).