امن پسندوں کے خلاف بھارت اور پاکستان کی جنگ


کوئی آٹھ برس پہلے کا قصہ ہے۔ مجھے دلی کے ایک ٹیلی ویژن سٹوڈیو میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے کا تجربہ پیش آیا۔ \"MohammedHanif\"جوش اور جذبے سے بھری ہوئی بلند آوازوں کے جلو میں جب میں اسٹوڈیو سے باہر نکلا تو میری امن کی خواہش دم توڑ چکی تھی اور میرے اندر سے آواز آرہی تھی، لڑنے دو ان گدھے کے بچوں کو! پاکستان اور ہندوستان کو نصاب کی کتابوں میں دو انسانی گروہوں ہی کا نام دیا جاتا ہے تاہم یہ دونوں گروہ لڑنے مرنے کے موڈ میں ہوں تو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ان کے درمیان صلح کرانے سے گریز کرنا چاہئے۔

میں 2008 کے ممبئی حملوں کے فوراً بعد دہلی پہنچا تھا۔ میرے پبلشر نے کسی طرح مجھے آمادہ کر لیا کہ پاک بھارت تعلقات پر ایک ٹیلی ویژن بحث میں شریک ہوجاؤں۔ پروگرام میں کوئی آدھ درجن شرکا میں سے بیشتر سابق جنرل اور دفاعی تجزیہ کار تھے اور میں اس ہجومِ عاشقان میں واحد پاکستانی تھا۔ ہر طرف سے جنگ کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ اور کہیں کہیں تو نعروں میں پیش آمدہ فتح کی گونج بھی سنائی دیتی تھی۔

پروگرام کے شرکا تربیت یافتہ نیزہ بازوں کی طرح ایک ایک کر کے آگے بڑھتے تھے اور اپنے اپنے دلائل دیتے تھے۔ اسٹوڈیو کی اسکرین پر ایک بڑا سا نقشہ آویزاں تھا۔ ایک خستہ حال متحرک اسکرین کے ذریعہ بھارتی میزائل اڑتے نظر آرہے تھے جو یکے بعد دیگرے پاکستانی شہروں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ پروگرام کے شرکا ان شہروں کو ٹارگٹ قرار دے رہے تھے۔ پروگرام میں ایک براہ راست رائے عامہ کا جائزہ بھی لیا جا رہا تھا۔ اس جائزے میں ناظرین سے ایک سادہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا بھارت کو پاکستانی اہداف پر حملہ کرنا چاہئے؟ بغیر کسی خواہش کے یہ ذمہ داری میرے کندھوں پر آن پڑی کہ میں لاکھوں بھارتی ناظرین کو قائل کرنے کی کوشش کروں کہ کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔

میں خاصا گھبرایا ہوا تھا مگر میں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ میں نے تقریباً بڑبڑانے والے لہجے میں یاد دلایا کہ دیوار پر لگے نقشے میں جو شہر دکھائے جا رہے تھے وہ دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپ نہیں تھے بلکہ عام شہر اور بستیاں تھیں جہاں گوشت پوست کے بنے ہوئے لوگ روزمرہ کی زندگیاں گزارتے تھے۔ میں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں دہشت گرد پائے جاتے ہیں تاہم میں ان کے ٹھکانوں سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا۔ میں نے امن کے لئے درخواست کی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ جیسے کچھ ملک دوسرے ملکوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اسی طرح کچھ لفظ بھی دوسرے لفظوں سے زیادہ زور دار ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کے شرکا جو الفاظ استعمال کر رہے تھے مثلاً سرجیکل اسٹرائیک، گرم تعاقب، منہ توڑ جواب، نفسیاتی جنگ وغیرہ ان لفظوں میں ایک خاص طرح کا زور تھا۔ ایک بحران کی سی ہنگامی کیفیت تھی اور یہ لفظ بولنے والے بڑے اہم افراد معلوم ہورہے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک ہاتھ اٹھا کر ایک لشکر کو میدان جنگ کی طرف بلا رہا تھا۔

ان کے لہجوں میں ایسی عجلت تھی گویا گہرے سمندروں میں گرے ہوئے اپنے بچے کو بچنے کے لئے پانی میں کودنا چاہ رہے ہوں یا ہاتھ میں بالٹی لئے ہوئے جلتے ہوئے مکان کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہوں۔ دوسری طرف میں بھی کچھ الفاظ دہرا رہا تھا جیسے امن، مکالمہ اور انسانیت وغیرہ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا میں اپنی ناکردہ کاری کا جواز پیش کر رہا تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ ممبئی میں 160 افراد مارے جا چکے تھے اور دونوں ملکوں میں جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو چکا تھا۔ چنانچہ میں نے مرنے والوں کے احترام میں ایک منٹ کی خاموشی کی درخواست کی۔ میں نے یہ بھی تجویز کیا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد ہمیں توتکار سے گریز کرنا چاہئے۔ میری تجویز کو غیر سنجیدہ گردانا گیا۔ اتفاق رائے یہی تھا کہ اگر ہم جنگ کے بارے میں بات چیت کر سکتے ہیں اور نقشے پر نظر آنے والے شہر انگلی کی ایک جنبش سے تباہ کر سکتے ہیں تو مرنے والوں کی یاد میں خاموشی اختیار کرنے جیسا بے معنی کام کیوں کیا جائے۔ پروگرام ختم ہونے تک نوے فیصد سے زیادہ ناظرین حملہ کرنے کے حق میں فیصلہ دے چکے تھے۔

گزشتہ مہینے کشمیر میں ایک بھارتی چھاؤنی پر حملے کے بعد ہندوستان اور پاکستان ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ پاکستان کی پشت پناہی سے کام کرنے والے دہشت گردوں نے کیا ہے۔ بھارت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں جوابی حملہ کیا ہے۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ جوابی حملے کا بھارتی دعویٰ ایک جھوٹ ہے۔ در حقیقت لائین آف کنٹرول کے دونوں طرف معمول کی فائرنگ جاری تھی۔

اس دوران ٹی وی اسٹوڈیوز میں کھلی جنگ چھڑ گئی۔ فدائین کے حملے، سرجیکل اسٹرائیک اور منہ توڑ جواب جیسے نعرے ہوا میں تیر رہے تھے۔ کم از کم ایک ٹی وی میزبان ایسا بھی تھا جو ایک مصنوعی وار روم میں جھوٹ موٹ کے نقشے اٹھائے پھر رہا تھا۔ جب جنگ کے یہ شوقین سورما حقیقی جنگ شروع کرنے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں امن پسندوں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ سرحد کے دونوں طرف نام نہاد پنڈت اور دانش ور گلا پھاڑ پھاڑکر چلا رہے تھے کہ تم لوگ حالت جنگ میں ایسی باتیں کیسے کر سکتے ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ حالت جنگ قطعاً موجود نہیں تھی اور دوسرا یہ کہ دونوں ملکوں میں امن پسند ہونا فیشن ایبل نہیں رہا۔

پاکستان میں امن پسند ماضی میں کسی قدر رشک کے ساتھ بھارت کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ بھارت رنگا رنگی کی زمین ہے۔ وہاں درجنوں دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی ہے۔ اور پھر یہ کہ اس ملک کی فوج اپنی منتخب حکومت کو جواب دہ ہے۔ پاکستان کے یہ امن پسند اب آنکھیں پھاڑے بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کے وہ امن چاہنے والے جو پاکستان کے امن پسندوں کے ممکنہ دوست ہوسکتے تھے اب انتہا پسندی کی بھاشا بول رہے ہیں۔ بھارت بھی پاکستان جیسا ہی ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں لوگوں کو شیعہ ہونے کی وجہ سے مارا جاتا ہے اور بھارت میں گائے کا گوشت کھانے پر انسان مارے جا رہے ہیں۔ بھارت پاکستان جیسا بنتا جا رہا ہے۔ اور پاکستان میں جنگ پسندی، جھنجھلاہٹ اور غم و غصہ کی حدود پھاندی جارہی ہیں۔

بھارت کے ایک اہم ٹیلی وژن چینل نے ایک سابق وزیر داخلہ کا انٹرویو نشر کرنے سے انکار کر دیا کیوںکہ مذکورہ سابق وزیر نے بھارتی فوج کے دعوؤں پر کچھ سوال اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ این ڈی ٹی وی نے اپنی ادارتی پالیسی بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہم سیاسی مقصد کے لئے کسی کو فوج پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ سب بھارت میں ہوا اور یہ تکلیف دہ حد تک ہمارے پاکستانی تجربات سے مماثلت رکھتا تھا۔

پاکستان میں معروف صحافی سیرل المیڈا کی شامت آگئی کیوںکہ انہوں نے ڈان اخبار میں خبر دی تھی کہ سویلین حکومت نے فوج سے کہا ہے کہ جہادی گروپوں کو لگام دی جائے ورنہ پاکستان کو عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سرل المیڈا کی اس خبر میں حافظ محمد سعید کا ذکر کیا گیا جنہیں 2008 کے ممبئی حملوں کا منصوبہ ساز قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم اور چوٹی عسکری قیادت نے ایک خصوصی اجلاس منعقد کر کے سیرل المیڈا کی خبر کو جھوٹ کا پلندہ اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ خبر دینے والے صحافی کو عارضی طور پر ملک چھوڑنے سے روک دیا گیا ہے جب کہ حافظ سعید صاحب ملک کے طول و ارض میں بھارت کے خلاف شعلے اگلتے پھر رہے ہیں۔

پاکستان بھارت تناؤ کے بارے میں شائع ہونے والی بیشتر خبروں میں ہمیں یاد دلایا گیا ہے کہ یہ دونوں ملک کشمیر کے سوال پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ تاہم ایسی کسی خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں سے ہر جنگ کشمیری عوام کی امنگوں کو کچلنے پر منتج ہوئی ہے۔ ہر موقع پر تصادم شروع ہوتے ہی کشمیریوں کی آواز دبا دی جاتی ہے۔موجودہ حالات میں کسی کو یاد نہیں رہا کہ جولائی کے مہینے سے اب تک ایک ہزار کشمیری اپنی آنکھیں گنوا بیٹھے ہیں کیوںکہ بھارتی فوج نے ان پر چَھرے دار بندوقوں سے فائرنگ کی۔

تجربہ کار تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں تصادم بڑھنے کا کو امکان نہیں۔ یہ نعرے بازی محض دکھاوے کا ہنگامہ ہے۔ دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں اور وہ جنگ شروع نہیں کریں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ صاحبانِ عقل و دانش ٹھیک کہتے ہیں لیکن مجھے یاد کرنے دیجئے کہ 1947 میں بٹوارے کے موقع پر ہمارے پاس ایٹم بم نہیں تھے۔ آٹو میٹک بندوقوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی لیکن ہم نے چُھروں اور لاٹھیوں سے دس لاکھ افراد مار ڈالے۔ تب ہمارے پاس اشتعال پھیلانے کے لئے ٹویٹر بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو زبانی طور پر مطلع کیا۔ چھوٹے چھوٹے پمفلٹ بانٹے اور افواہیں پھیلائیں کہ ہمیں دشمن کا خاتمہ کر دینا چاہئے ورنہ دشمن ہمیں کچل دے گا۔ اب تو افواہیں ہمارے گھروں میں آن پہنچی ہیں اور ہمارے پاس متحرک نقشے بھی موجود ہیں۔

مشکل یہ ہے کہ امن کی بنیاد پر ایک کامیاب ٹیلی وژن پروگرام تیار نہیں کیا جا سکتا۔ آگ اگلتی ہوئی بندوقوں اور چیخیں مارتے ہوئے بچوں کی تصویریں امن کے مکالموں سے زیادہ پر جوش ہوتی ہیں۔ کشمیر کی تاریخ کو ٹویٹر کے ایک سو چالیس حروف میں سمونا مشکل ہے۔ پاکستان بھارت سرحد کے دونوں طرف امن پسند ایک نئی لغت کی تلاش میں ہیں۔ اس دوران ہمیں مرنے والوں کے سوگ میں چند لمحوں کی خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔

__________________________

نیو یارک ٹائمز کے لئے لکھے گئے مضمون کا ترجمہ ہم سب کے لئے عمید ملک نے کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments