ٹیلی فونک مسیحا


عمیر محمود

\"omairزوجہ محترمہ کو نصف بہتر کیا کہنا، کہ ہم سے تو وہ بدرجہا بہتر ہیں۔ خیر، انہیں جِلد میں خارش اور خراشوں کی شکایت ہوئی۔ غالباً برتن دھونے کے لیے جب ہمیں صابن پکڑایا ہو گا، تو کیمیکل انفیکشن بن کر جِلد پر جا بیٹھا ہوگا۔ لہذا فیصلہ ہوا کہ بدرجہا بہتر کو کسی جلدی ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے۔ واضح رہے کہ ماضی قریب اور بعید میں سر، آنکھوں اورگلے میں درد کی شکایت پر، وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کر چکی تھیں۔ لیکن جلد کے معاملات۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا، خود ہی ٹھیک ہو جائے گا، وغیرہ پر تو نہیں چھوڑے جا سکتے ناں! ایک اسپتال فون کر کے جِلدی ڈاکٹر کے اوقات معلوم کیے گئے۔ وہ شام کے اوقات میں بیٹھتے تھے۔

کئی شامیں ہماری سستی کی نذر ہوئیں۔ کبھی ہم سو رہے ہوتے، کبھی تھکے ہوتے، کبھی بھول جاتے۔۔۔ آخر ایک روز ہم انہیں لے کر ڈاکٹر کے یہاں پہنچ ہی گئے۔ بھاری فیس وصول کرنے کے بعد انتظار کی قطار میں بٹھا دیا گیا۔ ایک اسسٹنٹ نما انسان، ہاتھ میں کاپی پکڑی ہوئی، کاپی پر نام لکھے ہوئے، ادھر سے اُدھر گھومتا تھا۔ جب مطب کا دروازہ کھلتا، انتظار میں سوکھتے کسی ایک مریض کو اندر بھجوا دیتا۔ فضا دواؤں کی بو اور مریضوں کی سنجیدگی سے بوجھل تھی۔ کچھ ہی دور استقبالیہ کاؤنٹر پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے، پیسے وصولی کی مہریں لگنے اور اسپتال اسٹاف میں سے کسی کے کھلکھلانے کی آواز سنائی دیتی۔ تھوڑے انتظار کے بعد ہمیں بھی اذنِ باریابی ملا۔ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر داڑھی، آنکھوں پر عینک اور ہاتھوں میں سیل فون تھے۔ ایک سیل فون کے ذریعے کسی سے گفتگو، دوسرے سے شاید پیغام پڑھتے تھے۔ گھورتی آنکھوں اور سنتے کانوں ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا (ٹیلی فون تھامنے کی وجہ سے ہاتھ اشارہ کرنے سے قاصر تھے)۔ کچھ دیر میں کال ختم ہوئی۔ آنے کا مقصد پوچھا۔ بیگم بتانے لگیں تو انہوں نے فون پر ایک نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ بات نامکمل ہی تھی کہ کال مل گئی۔ کہنے لگے۔۔۔ ہیلو سیٹھ صاحب، کبھی غریبوں کو بھی لفٹ کرا دیا کریں۔ اس کے بعد سے معاملات کچھ گڈمڈ سے ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب بات تو فون پر کرتے، لیکن اشاروں سے ہمیں بھی اپنی بات جاری رکھنے کا کہتے۔ سمجھ نہ آتا کہ یہ جو انہوں نے زور سے اچھا کہا، اس کی وجہ بیماری کی علامات ہیں یا ٹیلی فون کی دوسری سمت موجود فرد کی گفتگو۔

کال ختم کرتے کرتے وہ پانچ چھہ دوائیں تجویز کر چکے تھے۔ فون رکھتے ہوئے پوچھنے لگے، اور کچھ؟ ہم حیراں سے دیکھا کیے۔ کہنے لگے گھر کا کوئی کام نہیں کرنا۔ معلوم نہ ہوا ہمیں کہہ رہے ہیں یا بدرجہا بہتر کو؟ مریضہ نے کچھ ذیلی گفتگو کرنی چاہی، مثلاً احتیاط کیا کی جائے، کب تک دوا استعمال کرنی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اتنی ہی دیر میں وہ ایک اور فون کال ملا چکے تھے۔ اب کی بار بھی گفتگو کا آغاز اسی جملے سے ہوا۔۔۔ ہیلو سیٹھ صاحب، کبھی غریبوں کو بھی لفٹ کرا دیا کریں۔ ہاں ہاں! اب تو میں وہ دوا بھی لکھنے لگا ہوں۔ ہم ہونقوں کی طرح دیکھا کیے، جب وہ کال بھی ختم ہوئی تو انہوں نے ہمیں یوں گھورا جیسے پوچھتے ہوں، آپ لوگ ابھی تک گئے نہیں؟ ہم دواؤں کے استعمال کی بابت کچھ منمنائے۔ انہوں نے بات کاٹ دی، کہنے لگے باہر جائیں، حاجی صاحب سب سمجھا دیں گے، اور فون پھر کان سے لگا لیا۔

فیس کی رقم یوں ٹیلی فون بل کی مد میں خرچ ہوتے دیکھی تو صبر کے کڑوے گھونٹ بھرتے باہر آگئے۔ سوچا تھا حاجی صاحب شاید ان کے اسسٹنٹ ہوں گے۔ معلوم ہوا اسپتال کی فارمیسی میں ہوتے ہیں۔ وہاں گئے تو ہمیں شاپنگ بیگ بھر کر دوائیں پکڑا دی گئیں۔ وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ خارش صرف ایک فرد کو ہے، پورے محلے کو نہیں۔ جواب ملا یہ دوائیں بھی ایک فرد کے لیے ہیں۔ بل بھی اتنا ہی بنا جتنی ڈاکٹر صاحب نے فیس وصول کی تھی۔ وہاں ہمیں اور حاجی صاحب کو ایک دوا کے طریقہ استعمال کے بارے میں کچھ الجھن ہوئی۔ انہوں نے رائے دی کہ ڈاکٹر صاحب ہی سے پوچھ لیا جائے۔ ہم پھر سے قطار میں آن کھڑے ہوئے۔ اسسٹنٹ نے کہا، ایک مریض اندر ہے، وہ فارغ ہوتا ہے تو آپ چلے جائیے گا۔ کچھ انتظار کے بعد دروازہ کھلا، ہم اندر گئے۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے سیل فون بدستور کان سے لگا رکھا تھا۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments