انجمن ترقی پسند مصنفین: اسلامی روشن خیالی یا اشتراکی ملائیت


\"fateh\"برصغیر میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام سے سالہا سال پیشتر ترقی پسند ادبی تحریک اپنے عروج پر تھی- علامہ اقبال ، مولانا حسرت موہانی اور منشی پریم چند کے سے تخلیق کار سامراج دشمنی اور عوام دوستی کو اپنی تصنیفات میں مرکزی اہمیت دیتے چلے آ رہے تھے-انجمن کے اختتام کے بعد بھی یہ تحریک رواں دواں ہے- ترقی پسندادب کے موضوع پر عزیز احمد، خلیل الرحمن اعظمی اور علی سردار جعفری کی تصنیفات اِس حقیقت کا بیّن ثبوت ہیں- سیّد سجاد ظہیر اور اُن کے ہمنوا ان ہی خلاق دانشوروں کے ادبی فیضان سے تربیت پا کر اشتراکیت کے حلقہ بگوش ہوئے تھے-بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز کے لندن میں جن ادیبوں اور شاعروں نے انجمن کی بنیاد رکھی تھی اُن میں سیّد سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور پروفیسر احمد علی بھی سرگرمِ عمل رہے تھے- یہ لوگ ترقی پسند تو تھے مگرسوویٹ یونین کے اشتراکی نظام کی مکمل پیروی سے انکاری تھے-

چند برس بعد جب برطانوی ہند میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آیا تب یہ انجمن مختلف الخیال ادیبوں کا متحدہ محاذ تھا- انجمن میں مارکسی ادیب بھی تھے اور مولانا حسرت موہانی کے سے مسلمان اور منشی پریم چند کے سے ہندو ادیب بھی تھے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے تصورات کو اپنے اپنے روحانی اصول و اقدار کی روشنی میں عام کرنے میں مصروف تھے- یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں منعقدہ بھیمڑی کانفرنس میںاشتراکی نظریہ سازوں کی جانب سے انتہاپسندی کی پالیسی کو اپنانے کا عزم باطل ہو کر رہ گیا تھا-میری اِس مختصر کتاب کا موضوع پاکستان میں انجمن کے قیام کے محرکات و عوامل اور اختتام کے اسباب و نتائج ہیں-
\"title1\"
ترقی پسند ادیبوں کے پہلے کل پاکستان کنونشن میں چونکہ کوئی حسرت موہانی موجود نہ تھے اِس لیے انتہا پسندی اور مختلف الخیال ادیبوں کے بائیکاٹ کی پالیسی بہت آسانی کے ساتھ منظور کر لی گئی تھی- انجمن اپنے دوسرے کنونشن میں اِس حکمتِ عملی کے منفی اثرات کا ادراک کر کے انتہا پسندی اور بائیکاٹ سے تائب ہو گئی تھی- خود احتسابی کے اس عمل کے باوجود انجمن زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی-

برطانوی ہند اور آزاد ہندوستان میں ترقی پسند ادب پر خوب دادِ تحقیق دی جا چکی ہے- میں نے اِس ادبی تنقید و تحقیق سے اکتسابِ فیض کیا ہے مگر یہ احساس ہمیشہ دامن گیر رہا ہے کہ اِس موضوع پر اب تک جتنا کچھ لکھا گیا ہے اُس کا دائرہءکار بڑی حد تک لندن ،لکھن¶ اور دیگرہندوستانی مراکز تک محدود ہے- پاکستان میں ترقی پسند ادب اِن کتابوں کا مرکزی موضوع نہیں ہے اِس لیے قدرتی طور پراِن میں پاکستان کے آغاز کے چند ایک سال کے احوال و مقامات کے سرسری سے ذکرپر اکتفا کیا گیا ہے- یہی احساس میری اِس کتاب کا محرک ہے-

آج یہ کتاب قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کرتے وقت مجھے احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض اور ڈاکٹر ایوب مرزا بہت یاد آ رہے ہیں- میں نے اِن کی تحریروں کے ساتھ ساتھ اِن کی باتوں کی خوشبو سے بھی پاکستان میں ترقی پسند ادیبوں کے مصائب و آلام کو اپنے دل میں اُتارا ہے- اس کتاب میں شامل چند دستاویزات خود احمد ندیم قاسمی کی عطا ہیں اور احمد ندیم قاسمی کے نام چند ترقی پسند ادیبوں کے خطوط محترمہ ڈاکٹر ناہید قاسمی نے فراہم کیے ہیں-

(پیش لفظ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments