روٹی واقعی بندہ کھا جاندی اے


رضوان اسد خان

\"rizwan-asad-khan\"

\’ناں بیٹا ناں، یہ روٹی نہ کھا۔۔۔\’
ننھے 4 سالہ سعد کے ہاتھ میں روٹی کا نوالہ دیکھ کر، اس کی ماں سعدیہ اس کی طرف ایسے لپکی، گویا اس کے ہاتھ میں زہر کی شیشی دیکھ لی ہو۔
\’آ میں تجھے چاول دیتی ہوں۔\’
\’ماما میں نے چاول نئیں تھانے۔ میں احمد سے بشکٹ لے لوں؟\’ سعد معصومیت سے اپنی توتلی زبان میں بولا۔
\’نہیں بیٹا، میں نے بتایا تھا ناں کہ بسکٹ تو گندے ہوتے ہیں۔\’ سعدیہ بے چارگی سے بولی۔
\’اچھا پھر مجھے دلاب جامن دے دیں۔ فاطمہ بھی تھا لئی ہے۔\’
\’بیٹا، تجھے تو پتہ ہے تو یہ چیزیں نہیں کھا سکتا۔۔۔۔\’ بے بسی سے سعدیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔!

اس کی نگاہوں میں دو سال پہلے کا منظر گھوم گیا، جب وہ ڈاکٹر خان کو اپنا دکھ سنا رہی تھی۔ \’ڈاکٹر صاحب، اسے دیکھیں ناں۔ یہ چھہ ماہ تک اتنا صحت مند تھا کہ سال کا لگتا تھا۔ اور اب یہ دو سال کا ہو گیا ہے پر چھہ ماہ کا لگتا ہے۔۔۔!!! رنگ دیکھیں کیسا پیلا پھٹک ہو گیا ہے۔ ماس تو جسم پہ رہا ہی نہیں۔ قد بھی نہیں بڑھ رہا۔ میں کتنے ہی ڈاکٹروں کو دکھا چکی ہوں۔ طاقت کا، فولاد کا، پیٹ کے کیڑوں کا کوئی شربت نہیں چھوڑا۔ اور ہاں، موشن تو اسکے رُکتے ہی نہیں۔ روز کے چار پانچ کرتا ہے، اور بڑے بڑے، نہایت بدبودار۔ ڈاکٹر صاحب میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ پلیز اسے ٹھیک کر دیں۔\’
اس وقت اس کی آواز میں جو کرب اور یاس تھا، ڈاکٹر خان اس سے واقف تھے۔ انہوں نے بچے کا تفصیلی معائنہ کیا تو واقعی اس میں خون گویا تھا ہی نہیں۔ \’بہن، اسے بھوک لگتی ہے؟ آپ نے اسے ٹھوس غذا کب شروع کروائی تھی؟ الٹی تو نہیں کرتا؟ پیٹ پر ہاتھ رکھ کر روتا تو نہیں جیسے بتا رہا ہو کہ پیٹ میں درد ہے؟\’ ڈاکٹر خان نے اپنے مخصوص پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا۔
\’بھوک ٹھیک لگتی ہے ڈاکٹر صاحب، روٹی بڑے شوق سے کھاتا ہے اور چھہ ماہ کی عمر ہی سے ڈاکٹر سے پوچھ کر شروع کروائی تھی۔ الٹی کبھی کبھی کرتا ہے اور پیٹ درد تو تقریباً روزانہ ہی ہوتا ہے۔ بہت چڑچڑا ہو گیا ہے۔ پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی ہے اس کو۔\’ وہ روہانسی ہو کر بولی۔
\’کیا آپ کی شادی خاندان میں ہوئی تھی؟\’
\’جی ڈاکٹر صاحب، اس کے بابا میری خالہ کے بیٹے ہیں۔\’
\’دیکھیں بی بی، مجھے لگتا ہے کہ آپ کے بچے کو گندم سے الرجی ہے۔ لیکن اس کو کنفرم کرنے کے لیے ایک بلڈ ٹیسٹ کروانا پڑے گا۔ ٹیسٹ مہنگا ہے، پر تشخیص کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور خدا نخواستہ ٹیسٹ پازیٹو آیا تو معدے میں کیمرا ڈال کے دیکھنا پڑے گا کہ بیماری کس سٹیج پر ہے۔\’
\’ڈاکٹر صاحب، آپ تو مجھے ڈرا رہے ہیں۔ کہیں خدانخواستہ اسے کینسر تو نہیں؟\’ اب کی بار اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
\’ارے نہیں نہیں۔ آپ پریشان نہ ہوں، یہ کینسر ہرگز نہیں۔ ایک خاص قسم کی الرجی ہے بس، اور قابل علاج ہے۔\’ ڈاکٹر خان نے اسے تسلی دی۔ بچے کو ٹیسٹ لکھ کر دیا اور دو دن بعد کا ٹائم دے دیا۔ دو دن بعد وہ رپورٹ لے کر آئی، تو ڈاکٹر خان کا خدشہ درست نکلا۔ خون کی شدید کمی کے لیے انہوں نے بچے کو خون لگوایا، ایک دو شربت لکھے اور پھر سعدیہ کو سمجھا کر اینڈوسکوپی اور بائیوپسی کے لیے چلڈرن ہاسپیٹل ریفر کر دیا۔ دو ہفتے بعد وہ رپورٹ لے کر پہنچ گئی جس کے مطابق اب بچے میں \’سیلیَک ڈزیز\’ (Celiac Disease) کی موجودگی کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں بچا تھا۔ ڈاکٹر خان نے ایک سرد آہ بھری اور اس کو سمجھانے لگے۔ معصوم فرشتوں کے والدین کو بری خبر دینا کس قدر مشکل کام ہوتا ہے، ڈاکٹر خان اس سے خوب واقف تھے۔ ان کے پیشے کا یہ نہایت تکلیف دہ پر لازمی جزو تھا۔
\’دیکھیں بہن، مجھے پتا ہے کہ آپ کو ٹیسٹوں کے سلسلے میں کافی تکلیف اور خرچہ برداشت کرنا پڑا لیکن یہ بہت ضروری تھا کیوں کہ اس کی بنیاد پر ہم نے آپ کے بچے کے بارے میں بہت اہم فیصلہ کرنا تھا۔ اس کی پوری زندگی کے بارے میں ایک اہم فیصلہ، اور ٹیسٹوں کے مطابق اب یہ بات کنفرم ہو گئی ہے کہ آپ کے بچے کو واقعی گندم سے الرجی کی بیماری \”سیلیَک ڈزیز\” ہی ہے۔ یعنی بچے کی آنتیں گندم اور اس سے بنی چیزوں کو ہضم کرنے کے قابل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کے موشن اب تک ٹھیک نہیں ہوئے۔ اور اسی مرض کے باقی جسم پر اثرات کی وجہ سے اس میں خون اور نشوونما رک گئی۔ اب پہلے تو میں آپ کو اچھی خبر سنانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ یہ مرض قابل علاج ہے، اور یہ کہ آپ کا بچہ بالکل دوسرے بچوں کی طرح ذہنی اور جسمانی نشوونما پا کر ایک نارمل انسان جیسی زندگی گزار سکتا ہے۔ اور بری خبر یہ ہے کہ یہ ساری عمر گندم اور اس سے بنی اشیاء نہیں کھا سکے گا۔ اسے روٹی، نان، ڈبل روٹی، جو، دلیہ، بیکری کی تمام چیزوں، مٹھائیوں چاکلیٹس وغیرہ سے مکمل طور پر پرہیز کروانا پڑے گا۔ البتہ مکئی کی روٹی، چاول، دالیں، گوشت، سبزیاں، انڈہ، مکھن، دودھ، پنیر وغیرہ یہ کھا سکتا ہے۔ اگر اسے سخت پرہیز نہ کروایا گیا تو اس بیماری کی علامات ختم نہیں ہوں گی اور اس کا جسم خون نہیں بنائے گا، اس کا قد نہیں بڑھے گا، اس کے موشن ٹھیک نہیں ہوں گے اور یہ بلوغت کے عمل سے بھی نہیں گزر پائے گا۔ اس کی شادی خاندان میں نہ کیجئے گا کیوں کہ کزن میرج سے اس بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کا تعلق جینز سے ہے۔ میں نے اس کی خوراک سے متعلق ہدایات اس کی فائل میں لگا دی ہیں، وہ آپ دوبارہ دیکھ لیجیے گا۔ کوئی مذید سوال ہو تو میں حاضر ہوں۔\’

\’\’ڈاکٹر صاحب یہ تو روٹی کے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ کیا ساری عمر کے لیے اسے ان چیزوں سے محروم رہنا ہو گا؟۔
\’جی میری بہن۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ پرہیز ساری عمر ہی کرنا ہو گا۔ بلوغت کے بعد کچھ لوگ پرہیز چھوڑ دیتے ہیں کہ اب کون سا قد میں اضافہ ہونا ہے، پر یہ بات اہم ہے کہ اس طرز عمل سے آنتوں کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔ اگر یہ ایک ماہ مکمل پرہیز کرے، مگر ایک دن گندم کھا لے تو سمجھیں پورے مہینے کی محنت ضائع گئی۔\’ اور یوں سعدیہ بھاری دل کے ساتھ چلی آئی تھی۔ ڈاکٹر نے تو بڑی آسانی سے گندم بند کرنے کا کہہ دیا تھا، پر یہ جس قدر مشکل کام تھا، یہ وہی جانتی تھی۔ اور اب دو سال اسے سعد کی سخت نگرانی کرتے، اس کی معصوم خواہشات کا گلا گھونٹتے اور اپنے جذبات کا قتل کرتے گزر گئے تھے۔ ڈاکٹر خان نے اسے بتایا تھا کہ شہر کے سب سے بڑے سٹور سے گندم کے الرجی پیدا کرنے والے جزو \’گلوٹن\’ سے پاک آٹا اور کچھ بیکری آئٹم دستیاب ہیں۔ پر وہ اتنے مہنگے تھے کہ سعدیہ کے لیے یہ \’عیاشی\’\’ ممکن نہ تھی۔ پھر ویسے بھی وہ سعد کو ایسا \’متبادل\’ نہیں دینا چاہتی تھی جس کا وہ عادی ہو جائے اور ایک نئی ضد کو پورا کرنا سعدیہ کیلئے ناممکن ہو جائے۔ اچانک اسے سعد کی معصومیت سے بھری التجا نے جھنجھوڑا۔ \’اچھا ماں پھر سیب ہی دے دے۔ وہ تو کھا سکتا ہوں ناں۔\’
\’ہاں میری جان، کیوں نہیں۔ میں ابھی لائی، میرے لعل۔\’ اور وہ آنسو پونچھتی کچن میں چلی گئی۔

احباب سے درخواست ہے کہ دیکھیں کہ کہیں ان کی فیملی میں اس بیماری میں مبتلا کوئی بچہ تو نہیں۔ اور اگر ایسا کوئی بچہ ہو تو خدارا اس کے احساسات کا خیال رکھیں اور خود بھی اس کے سامنے کوئی ایسی چیز نہ کھائیں جس سے وہ بے چارہ محروم ہو اور اپنے بچوں کو بھی اس بات کی تربیت دیں۔ یہ بہت بڑی مدد ہو گی جو آپ اس بچے کی کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments