مرزا غالب بنام افضال جی


\"afzal-ahmed-azad\"افضال میاں!

اولینِ اول تو ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ نے اپنے نام میں یہ جی کی اضافت کیوں لگا رکھی ہے۔ اس نام سے پکارنے میں تو ہم خود مخمصے میں پھنس جایا کرتے ہیں کہ یہ ”جی“ کسی حکم کے مان لینے کا ہے یا وہ مالش ہوجانے والا ”جی“ ہے۔ یہ ذکر ہمارے زمانے میں دیالو خواتین کے ضمن میں رہتا تھا ۔ اب تو سنا ہے خواتین خاصا ارتقا پا گئی ہیں۔ ویسے تو ہمیں دنیا سے یہاں عالمِ بالا میں آئے ابھی کچھ ہی لمحے گزرے ہیں۔ لیکن دنیا سے ملنے والی خبریں بتارہی ہیں کہ دنیا میں خاصی تیزی آگئی ہے۔ ہم تو وہاں کلکتے میں دیا سلائی فرنگیوں کی جیبوں میں دیکھ کر ہی سمجھ گئے تھے کہ یہ قوم اس دھرتی کے حالات کو بدل دے گی۔ اس بدلے ہوئے دور کو دیکھ کر جی بہت خوش ہوا ہے۔

افضال میاں! یہاں پہنچ کر دم بھی نہ لیا تھا اور شرابِ طہور بھی میسر نہ آئی تھی کہ فرشتوں کو کہتے سنا ہے کہ بڑا ہنگام برپا ہے ہندوستان میں…. کہتے تھے کوئی گاندھی اور جناح صاحبان ہیں جنہوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی ہے۔ کچھ فرشتوں نے تو ہمارے جگر کے ٹکڑے کر ڈالے نقشہ دکھا کر۔ کہتے ہیں دلی اور ملتان علیحدہ علیحدہ حصوں میں چلے گئے ہیں۔ اچھا ہی ہوا میاں جو ہم یہاں آگئے۔ وگرنہ ہمارا تو رہنا وہاں مشکل ہوجاتا۔ ہم تو خچروں اور گھوڑوں پر بیٹھ ملتان سے پیٹیاں بھر لے آتے تھے۔ اب بھلا واں ہوتے تو ویزہ و پاسپورٹ کے جھنجھٹ ہی میں جان چھوڑ آتے یاں۔

یہاں کے حالات یہ ہیں کہ ہم یہاں بھی دنیا کی طرح ہی مسائل کا شکار ہیں۔ دربار میں اب تک جانے کی اجازت نہیں ملی ہے۔ ابراہیم ذوق نے وہاں بھی ہمارے داخلے کو رکوا رکھا ہے، روزانہ ویسے ہی دروازے تک جاکر ہو آتے ہیں جیسے اخیر وقت صبح تڑکے اٹھ کر مسجد سے ہو آتے تھے۔

یہاں آم اور بنتِ انگور بکثرت ملتے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ بنتِ انگور کی تقسیم کا یہاں رہتا ہے وہ یوں کہ یہاں کراچی و لاہور کے عجیب الجثہ \"mirza-ghalib\"و حلیہ شاعر جون ایلیا و ساغر صدیقی 10 لیٹر والے گیلن لے آتے ہیں۔ اور ہمارے پاس تو وہی چھوٹی چھوٹی صراحیاں اور پیمانے ہیں۔ پھر دوسرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ایک بار وہ اصلی حلیہ میں آکر لیتے ہیں اگلی بار نہا دھو کر لینے پہنچ جاتے ہیں۔ بڑی مشکل میں ہوں۔ سنا ہے شاعری اچھی کیا کرتے تھے دونوں۔ لیکن میاں یہ حرکت ان کی ذرا بھلی نہیں ہے۔

اگر ممکن ہو تو دونوں کے کلام کی جلدیں ہمیں بھجوادو۔ سنا ہے ساغر رواں کہتے تھے، لیکن جون ایلیا کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتے ہیں۔ میں ان کو یہاں ان کے شعر سنا کر پوچھوں گا کہ میاں! جون…. کچھ سمجھ آیا کہ کیا کرآئے ہو….

انور مقصود نے ہمارے ایک شعر میں تبدیلی کی تھی۔ وہ تھا تو یہ کہ

’مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‘

مگر اس نے ہماری مے خواری کے پیشِ نظراِس شعر کو کچھ یوں تبدیل کیا

”مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک Bar ہوتی“

کہنا کہ ہم نے ٹھیک ہی کہا تھا…. یہاں Barکا تصور نہیں ہے۔ البتہ ایک مشکی ضرور ہے جو اپنی مشک میں مے طہور بھر لاتا ہے۔ اور ہمارے پیمانوں میں انڈیل دیتا ہے۔

اس کے علم میں بس یہ لے آﺅ کہ مرزا اسد اللہ غالب نے کہا ہے ، ہماری خواہش ہے کہ تم عمرِ خضر پاﺅ، لیکن میاں یہاں تو سب ہی کو آنا ہے…. جب یہاں کا سفر باندھو تو اپنی مصوری کے چند شاہکار ضرور لے آنا۔ سنا ہے تم نے غربت پر بہت اچھے شاہکار پیش کئے ہیں۔

اور ہاں…. ہماری آم پسندی کے مطابق تم نے بھی ہمارے اشعار پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ ان کی بھی کچھ نقلیں ہمیں بھیجو۔ گر بھلی ہوئیں تو ہم \"mirza-ghalib-tomb\"تمہیں اجازت دیں گے کہ ہمارے جو اشعار ممکن ہوں آم پسندی و مے پسندی کے مطابق ڈھال کر دیوان غالب کی اشاعت کرلو۔

اب ساقیِ عالمِ بالا کے آنے کا وقت ہونے کو ہے، کیونکہ ابھی ابھی جون اور ساغر گیلن لئے ہمارے کواڑ کے آگے سے دوڑتے ہوئے گزرے ہیں….

امراﺅ نے یہاں بھی پورے صحن کو مسجد بنا رکھا ہے، ہمیں اکثر اپنی جوتیاں اٹھا کر گھر کے کواڑ تک پہنچنا پڑتا ہے۔۔ ابھی کلن میاں سے کہتے ہیں کہ دیکھ آئیں کہیں امراﺅ عبادت میں مشغول تو نہیں….

تم سے جواب کی توقع جلد رکھنا تو فضول ہے، لیکن ہاں جواب لکھ کر وہاں کے حالات سے ضرور مطلع کرنا۔

اسد اللہ خاں غالب

٭٭٭٭ ٭٭٭٭

بنام استاد مرزا غالب از طرف افضال جی

آداب استادِ محترم و گرامی قدر!!

انتہائی خوش ہوں آپ کی طرف سے اس خط کو پاکر…. اور مجھ سمیت تمام احباب جنہیں ادب و شعر و سخن سے لگاو ہے گرفتارِ حیرت ہیں \"ghalib-inside\"کہ شہنشاہِ ادب استاد مرزا غالب کا خط بھلا نالائقِ ازل (افضال جی) کے نام کیونکر آسکتا ہے۔ بہر صورت میں یہاں  خیریت سے ہوں اور آپ کے خط کے موصول ہونے کے بعد سے کچھ لوگوں کی نظر میں ادبی شخصیت نما کوئی شئے ہوگیا ہوں جس کا یقین تاحال مجھ ناچیز کو نہیں ہورہا ہے۔ آپ کی ذرہ نوازی پرانتہائی شکر گزارہوں۔

استادِ محترم !

نام سے متعلق آپ کے استفسار پر محض یہی کہ سکتا ہوں کہ میرا نام اصل میں خاصا طویل اور رعب دار قسم کا ہے اور میں ٹھہرا ایک انتہائی بے رعب و بے دبدبہ انسان۔ میری طبیعت آپ ہی کی طرح درویشانہ و رندانہ ہے۔ مجھے بھی آپ ہی کی طرح دیوالی اور عید کی مٹھائی میں تفریق کرنا نہیں آتی۔ اس لئے نام میں تصرف کرکے اسے افضال جی کردیا۔ اب رہا سوال کہ یہ افضال میں ”جی“ ہے کونسا تو حضور یہ ”جی“ وہ راجستھانی ثقافت والا ”جی“ ہے جو وہاں کے لوگ اپنے مہمانوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس جہانِ فانی میں ہم انسان مہمان کی طرح آئے ہیں جنہوں نے مٹی ہوجانا ہے۔ تو نام میں ”جی“ لگانے کا مقصد محض اپنی اوقات کو یاد رکھنا ہے۔

استاد محترم!

آپ نے جن دو اشخاص جون ایلیا اور ساغر صدیقی سے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔ وہ واقعی برصغیر کی شعر وادب کی قوی الجثہ شخصیات ہیں۔ جون ایلیا شاعری و نثر کے علاوہ عاشقی میں بھی مشاق گزرے ہیں۔ ان کی شاعری واقعی بہت اچھوتی ہے، ان کے پہلے مصرعے کو سن کر کوئی بڑے سے بڑا اردو داں بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ان کا اگلا مصرعہ کیا ہوگا مثال کے طور پر آپ یہ شعر سنیے!

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

جہاں تک بات ساغر صدیقی کی ہے تو استادِ محترم ان کی زندگی سے متعلق عجیب مخمصے میں ہوں۔ سمجھ یہ نہیں آتا کہ اس کی شاعری پر\"ghalib-grave\" داد دوں یا اس کی درویشی پر عقیدت کے پھول نچھاور کروں۔ عجیب مرد درویش تھا۔ کئی غزلیں ساغر کے کاسے میں ایسی ہیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن چونکہ ان میں ساغر و مینا کا ذکرِ”حرام“ موجود ہے اورپاکستان چونکہ اسلامی جمہوریہ ہے اس لئے اس کے کلام کو تراش خراش کے بعد چھاپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس معاملے میں تو میرا خیال ہے استاد کہ آپ ہی کو بہت سی چیزوں میں چھوٹ حاصل ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے کئی ایسے اشعار زبانِ زدِ عام ہیں جنہیں آج کل کے اسلام میں کلام کفریہ کا درجہ باآسانی دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

یا

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

استاد محترم! آپ کی کلکتے میں کی ہوئی پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی کہ زبانوں کو مذاہب سے منسلک کرنا اصل میں تفرقہ پیدا کرنا ہے اور آپ کے زمانے میں ڈالا گیا زبانوں کا تفرقہ جناح و گاندھی کے زمانے میں ہندو مسلم فساد کا سبب بن گیا۔ اس لئے دو قومی نظریئے کے ذریعے اس فساد کو دباکر تقسیم کے ذریعے حل کیا گیا۔ استاد آپ تو نگاہِ زمانہ شناس رکھتے ہیں، سمجھتے ہی ہوں گے تقسیم و ہجرت سے اس دھرتی پر کیا گزری ہوگی۔ منٹگمری ایک شہر آپ کے بعد آباد ہوا تھا لاہور اور ملتان کے درمیان، یہ پاکستان کے حصے میں آیا ہے اور آج کل اس کا نام ساہیوال ہوگیا ہے۔ ایک اچھی شاعرہ ہماری دوست ”رئیسہ ریج“ مقیم ہیں، ان سے ملاقات کی بہت خواہش ہے کہ ساہیوال جاکر ان سے ملیں،لیکن کیا کریں کہ ہمارے بھی حالات آپ کے حالات سے مماثل ہیں۔ سفر کے اخراجات آپ کے زمانے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ آپ اپنے وقت کی سرکار کی تاریخ نویسی کرتے تھے، ہم اپنے زمانے کی سرکار کے تاریخی پرچے میں ملازم ہوگئے ہیں۔ البتہ آپ ایسی جرات رندانہ تاحال مجتمع نہیں کرسکے کہ آپ کی ”چھ ماہی “ کے طرز کی شعری تخلیق سرکار کے نام لکھ سکیں۔

استادِ محترم! آپ کو انور مقصود کے متعلق معلومات کہاں سے ملیں، وہ تو اس وقت کے بہت مصروف اور معروف قلمکاروں اور فنکاروں \"anwar-maqsood\"میں شامل ہیں ان کو آپ کا پیغام پہنچانا جوئے شیر لانے جیسا ہے اور ہم اگر آپ کے دیوان اور شخصیت کو پڑھ نہ چکے ہوتے تو ان کی مصوری کے شاہکار میں دلچسپی پر آپ کے کردار کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتے، کیونکہ وہ اتنی غریب عورتوں کی تصاویر بناتے ہیں جن کے پاس پہننے کو کپڑے بھی نہیں ہوتے۔

استادِ محترم! شکر بجا لائیے کہ آپ کے زمانے میں ایک ہی ابراہیم ذوق تھے۔ آج کے زمانے میں تو ہر دوسرا شاعر ابراہیم ذوق بنا پھر تا ہے، اور اس میں اس کا قصور بھی کوئی نہیں کیونکہ آج ہر پہلا شاعر خود کو مرزا اسداللہ خاں غالب سمجھا بیٹھا ہے۔ زمانہ اتنا ترقی کرگیا ہے کہ اب آپ کو کاتب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ فرنگیوں کی ایک ایجاد کمپیوٹر بیک وقت کاتب و مولف بنا بیٹھا ہے اور اس پر مزید طرحدار کام انٹرنیٹ نے کردیا ہے۔ اس پر محض آپ کا نام لکھنے پر آپ کے دیوان کی ہزاروں نقلیں مختلف زمانوں اور مختلف غالب شناسوں کی تصدیق کے ساتھ میسر ہیں۔

آپ کی آم پسندی سے متعلق آپ کے اشعار میں جو تصرفات کی تھیں وہ اب ہمارے ذہن میںنہیں ہیں کیونکہ وہ ہم نے اپنے فیس بک کی نذر کردی تھی۔ اب آپ سے کیا چھپانا استاد کہ آپ تو خود زمانہ شناس انسان ہیں، سائنس کی ترقی کے باعث انسان کی رفتار تو تیز ہوگئی ہے لیکن انسان کی حسِ عمومی اور یادداشت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ اسی وجہ سے وہ تصرفات فی الوقت آپ کی خدمت میں ارسال کرنے سے قاصر ہوں لیکن یہ آپ سے وعدہ ہے کہ جلد ہی دوبارہ اس سلسلے کو شروع کروں گا تاکہ آپ کو ارسال کرسکوں۔

استانی اماں! امراوٓ کے زہد و تقویٰ سے متعلق تو آپ جانتے ہی ہیں کہ وہ آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی، بلکہ زندگی میں بھی آپ کی مئے نوشی کے باعث اپنے برتن آپ سے علیحدہ کرلیا کرتی تھیں۔ آپ دونوں وہاں بھی ساتھ ہیں یہ جان کر خوشی ہوئی…. وگرنہ یہاں تو آج کل کچھ ملاﺅں نے زمانے کوحور و قصور کے لالچ میں ڈال رکھا ہے۔

استادِ محترم ! اب آپ سے اجازت کا طلبگار ہوں کیونکہ اب دفتر کا وقت ختم ہوچکا ہے اور میں محض آپ کے خط کے جواب کے سلسلے میں \"jaun-elia\"تاخیر سے گھر جا رہا ہوں۔

اپنا اور استانی ماں کا بہت خیال رکھئے!

امید ہے کہ میرے قاصد کے پہنچنے تک آپ میرے جوابی خط کا جواب بھی لکھ چکے ہوں گے جیسے اپنے زمانے کی اس ڈومنی کے نام لکھتے تھے جسے آپ سے عشق ہو گیا تھا۔

نالائقِ ازلی

آپ کا شاگرد

افضال جی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments