پاکستان کی خارجہ پالیسی اور بدلتے زمینی حقائق


عالمی طاقتوں کی تاریخ بتاتی ہے، کہ ان کے دشمن سدا ایک رہے نہ دوست۔ وقت اور حالات کی غلام گردشوں نے کبھی کے دوستوں کو \"Rizwanدشمن، اور کبھی کے دوستوں کو دشمن بنا دیا۔ مگر ہم من حیث القوم ہم عشروں سے ایک ہی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہمارا دشمن بھی ایک ہی رہے گا، اور دوست ہم سے کبھی جدا نہ ہوں گے۔ جب کہ حقیقت اور ہے، ریاستیں دوست دشمن نہیں ہوتیں، صرف اپنے مفاد کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں۔

ریاستوں کے مفاد کیا ہوتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے کسی کو افلاطون کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی تجارتی مفاد تھے، جس کے لیے چنگیز خان نے 1216ء میں خوارزم کے شہنشاہ علاء الدین محمد دوئم کو خط بھیج کر، ایک دوسرے کی ریاستوں کا احترام اور باہمی تجارت کی حوصلہ افزائی کی بات کی۔ کچھ اسی طرح کا خط اسپین کی طرف سے دباؤ کا شکار ملکہ برطانیہ نے ١٥٥٨ء میں سلطنت عثمانیہ کے حکمران سلطان مراد سوئم کو لکھا، جس میں سلطان کی تعریفوں کے پل باندھنے کے بعد عثمانی سلطنت میں اپنے تاجروں کو مفت تجارتی رسائی دینے کی بات کی، اور بالآخر عثمانیوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے۔ جو 300 سال تک قائم رہے۔ ملکہ الزبتھ نے نہ صرف عثمانیوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے، بلکہ عثمانیوں کے حریفوں، فارس کے شاہ اورمراکش میں مسلمان حکمرانوں کے ساتھ، سفارتی، تجارتی اور فوجی تعلقات بڑھائے، تاکہ مشرق کے منافع بخش منڈیاں اپنے تاجروں کے لیے حاصل کر سکیں۔ یہ وہی تجارتی اور دفاعی مفاد ہیں، جس کے لیے چین گوادر اور انڈیا چہار بہار بنا رہے ہیں۔ اور مفاد صرف اور صرف اپنی معیشت کو مضبوط کرنا، اپنی مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں ڈھونڈنا، اور سیاسی خارجی خطرات کو کم کرنا ہوتا ہے۔

امریکا اور چین تقریبا ہر معاملے میں ایک دوسرے کے مقابل ہیں، مگر ایک دوسرے کی مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار بھی ہیں۔ یہی معاملہ چین اور تائیوان، چین اور جاپان کا بھی ہے۔ ہم کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ دنیا کا کارخانہ کہلانے والا ملک چین، دنیا میں تنہا ہوتے ملک پاکستان کے لیے اپنے ابھرتے ہوئے خریدار انڈیا کو ناراض کرے گا۔ نہ صرف چین بلکہ دنیا کا کوئی ملک چاہے جاپان، جرمنی، برطانیہ، روس اور خطے کے چھوٹے ممالک انڈیا اور اس کی ابھرتی ہوئے مارکیٹ کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔

ہم خطے میں توازن کی بات کرتے نہیں تھکتے یہ بات ہمیں اس وقت ہی سمجھ میں آ جانی چاہیے تھی جب جون ١٩٨٥ء میں عین افغان جہاد میں امریکا نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں خطاب کے لیے بلایا تھا، یا تب جب صدر بل کلنٹن 2000ء میں بنگلہ دیش کے ایک دن اور ہندوستان کے پانچ دن کے دورے کے بعد پاکستان کے چھہ گھنٹے کے دورے پر ائے تھے۔ خطے میں توازن نہ پہلے کبھی تھا اور نہ آیندہ کبھی ہوگا۔ ہماری اندرونی اور شتر مرغ خارجہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے آنے والی کئی دہایوں میں یہ ممکن بھی نظر نہیں آرہا۔

ہم نے دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ کبھی بھی تجارتی بنیادوں پر تعلقات استوار ہی نہیں کیے۔ ہم نے ہمیشہ دفاعی تعلقات ہی پر زور دیا۔ دنیا سے لین دین کے لیے ہی کیا، صرف یہ کے ہمارا گھر گلی کی اس نکڑ پر ہے جہاں سے ہر کسی کو گزر کر جانا پڑتا ہے، یہ بھی سدا ایک جیسا نہیں رہے گا۔ محلے والوں کو اگر کسی اور جگہ سے رستہ مل گیا، تو ہم محلے کی بند گلی کا وہ گھر ہوں گے جس کے اپنے مکین کو وہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ سافٹ امیج، اور قوت کی بات رہنے ہی دیں۔ سیدھی سی بات ہے بھائی، محلے کا کوئی بھی دکان دار بارہ افراد کے امیر اچھی شہرت رکھنے والے گھر کے مقابلے میں صرف دو افراد کے لڑاکے اور ادھار مانگنے والے مقروض گھر کو کیوں کر ترجیح دے گا۔

زرا سوچیں تو سہی ہم اپنے قیمتی پچاس ہزار لوگوں اور پانچ ہزار فوجی افسروں اور جوانوں اور اربوں ڈالر کے نقصان کی قربانی دے کر بھی دنیا سے وہ ہم دردی اور ساتھ حاصل نہ کر سکے، جو بھارت اپنے حالیہ حملوں میں ہلاک ہونے والے 26 جوانوں سے حاصل کرگیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ زمانہ صرف ہمارا ہی بیری ہے۔

زمانہ بدل گیا ہے مگر ہم آج بھی تین دہائیوں پہلے کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ وہ زمانے اب نہیں رہے، جب شہر کے دکان داروں کو آپ کی ضرورت تھی۔ اب آپ اپنے گھر کی فکر کریں، اور مقابلہ بھول جائیں، کچھ وقت کے لیے سہی۔ اپنے بچوں کو پڑھائیں اور انھیں پڑوس کے گندے بچوں سے دور رکھیں، اور ہاں اپنے گھر کے بڑوں کو بھی تھوڑا سمجھائیں کہ نیا زمانہ ہے عشروں پہلے والی سوچ کل بھی کامیاب نہ تھی، اور آج تو بالکل بھی کارآمد نہیں ہے۔ سمجھائیں شاید کچھ سمجھ آجائے۔ یہ دنیا ممکنات کی جگہ ہے، جہاں تک ہماری سوچ جا سکتی ہے اُتنا ہی ہم اسے ممکن بھی بنا سکتے ہیں، سوچنا مگرشرط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments