اللہ بڑا کارساز ہے


\"raziبلاول میدان میں آ گئے۔ ہم دو روز سے یہ پیغامات دیکھ رہے ہیں اور کراچی میں شہدائے کارساز کی یاد میں نکالی جانے والی ریلی بھی ٹیلی ویژن کیمروں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو کو اس سے پہلے ہم نے جلسوں میں سنا۔ مختلف اجلاسوں میں ان کی سرگرمیاں دیکھیں اورٹوئٹر پر پیغامات بھی بارہا نظر سے گزرے۔ لیکن یہ ان کی سیاسی زندگی کی پہلی ریلی ہے۔ یہ ریلی بلاول کے سیاسی مستقبل کا کس حد تک تعین کرے گی اور کیا مستقبل میں وہ سندھ سے باہر بھی کوئی ریلی نکال سکیں گے؟ اس سوال کاجواب سردست ہمیں معلوم نہیں اور اس بارے میں کچھ کہنا بھی قبل ازوقت ہو گا۔

بلاول کی ریلی ہمیں 18 اکتوبر2007ء کی یاد دلا رہی ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے کراچی پہنچی تھیں اور ان کے استقبال کے لیے ملک بھر سے پارٹی کارکنوں کی بڑی تعداد بھی کراچی پہنچ گئی تھی۔ کراچی ایئرپورٹ پران کی آمد اوراستقبالیہ جلوس کی لمحہ لمحہ کوریج دیکھتے ہوئے ہمیں ان کا 10 اپریل 1986ء کا استقبال یاد آ گیا تھا جب وہ ضیا دور میں طویل جلاوطنی ختم کرکے لاہورآئی تھیں۔ یہ سب یادیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ یہ ان خوابوں کی کہانیاں ہیں جن کے ساتھ ہم نے اپنی زندگیوں کو وابستہ کیے رکھا۔ 1986ءمیں ہم نے اور ہماری نسل کے نوجوانوں نے بے نظیر بھٹو کی آمد پر جو خواب دیکھے تھے وہی خواب 2007ء میں اگلی نسل کو منتقل ہوئے اور اب انہی خوابوں کو لے کر آج کے نوجوان اور کارکن آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں۔ ہمارے خواب تو ریزہ ریزہ ہوگئے۔ ہمارے خوابوں کو تعبیر نہ مل سکی۔ اور ہماری نسل کے بہت سے لوگ اپنی ویران آنکھوں میں یہی خواب سجائے اس جہان کی جانب رخصت ہوگئے جہاں شاید خواب ہوں گے اور نہ ان کی تعبیریں۔ لیکن ہمار ے پیروں میں جو زنجیریں ہیں وہ آج بھی اسی طرح سلامت ہیں۔

\"karsaz-tragedy\"2007ء میں بے نظیر بھٹو جس قافلے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ اسے بہت سے خطرات کا سامنا تھا۔ وہ ایک ایسا دور تھا جب اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویزمشرف کی قیادت میں دہشت گردوں اور قاتلوں کے ٹولے نے ایک خاص طرح کے انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی اور اے این پی کے کارکنوں پر زندگی تنگ کر رکھی تھی۔ ان کے جلسوں اور جلوسوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔ کارکنوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ ان دوجماعتوں کے جلسے اور اجتماعات بم دھماکوں کی زد میں تھے۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ ہم میں سے کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ ان حالات میں بھی پیپلزپارٹی کے کارکن اپنی قائد کے استقبال کے لیے اتنی بڑی تعداد میں کراچی پہنچ جائیں گے۔ 18اکتوبر کی رات 12 بجے تک ہم یہ استقبالیہ مناظر دیکھتے رہے۔ بے نظیربھٹو کاقافلہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ مزارقائد پر جلسے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ کارکن روایتی انداز میں پارٹی پرچموں والے لباس پہنے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے تھے اور نعرے لگاتے تھے۔ وہ سب یہ سمجھتے تھے کہ اس قافلے کی منزل مزار قائد ہے لیکن ان میں سے کسی کومعلوم نہیں تھا کہ قافلہ موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ قافلے کی منزل کا تعین کسی اور نے کر رکھا تھا۔ ان لوگوں نے جو چن چن کر روشن خیال اور جمہوریت پسند قوتوں کو ختم کررہے تھے اور جو انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے۔

قافلے کو اپنی منزل کی جانب بڑھتا دیکھ کر ناجانے کس وقت میں سو گیا۔ اس کے بعد کے مناظر میں نے اگلے روز دیکھے تھے۔ کارساز کے \"karsaz-bilawal\"قریب جمہوریت کے اس قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ جس کنٹینر پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور دیگر قائدین سوارتھے وہ دھماکوں کی زد میں آیا۔ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔ وہی کارکن جن کی یاد میں آج ویسی ہی ریلی بے نظیر کے لخت جگربلاول کی قیادت میں کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں ہے۔ اور مجھے یاد آ رہا ہے کہ اس دھماکے میں بے نظیر بھٹو کے بال بال بچ جانے پر پارٹی کے ایک کارکن نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا دیکھئے اتنے بڑے حملے میں بھی بی بی کس طرح بال بال بچ گئیں۔ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقت ورہوتا ہے۔ رضی بھائی ، میں تو یہی کہوں گا اللہ بڑا کارساز ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کو بی بی کی شہادت کے بعد میں نے پارٹی کے اس کارکن کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ کئی ماہ بعد معلوم ہواکہ وہ کارکن بی بی کے ساتھ ہی راولپنڈی میں شہید ہو گیا تھا لیکن اس کایہ جملہ آج بھی میرے ذہن میں گونجتا ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ رضی بھائی، اللہ بڑا کارساز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments