حضرت مولانا عبداللہ غازی رحمۃ اللہ علیہ


\"yaqoob-ghazi\"زندگی میں ایسوں سے ضرورواسطہ پڑتا ہے جن کی زندگی یا مرنے کےبعد خواہ مخواہ تعریف کرنی پڑتی ہے۔ اگر مجبور ہو کر ان کی تعریف کرنے کی کوشش کروتو زبان لڑکھڑا جاتی ہے اعضاء کانپ جاتےہیں کہ تم تعریف کرتے ہوئے اتنا مبالغہ کیوں کر رہے ہو؟ کسی کی اتنی تعریف کر جتنا وہ تعریف کا حقدار ہے کیا ضرورت ہے اتنی تعریف کرنے کی۔ یا پھر سننے والے کہنے پر مجبور ہوجاتےہیں بس کر! بھائی تمہیں اتنی تعریف کرنے سے کیا ملے گا؟ ہمیں سب پتہ ہے ۔

لیکن ایسے بہت ہی ناپید ہیں ان کی شخصیت بیان کرنے لگو تو سننے والا کہہ اُٹھے بھائی چپ ہو! اگر ڈھنگ سےان کی شخصیت بیان نہیں کرسکتے تو خاموشی اختیا کرو! کم از کم اپنے بے ڈھب اور بے تکے الفاظ سے ان صاحب کی شفاف شخصیت داغدار نہ کرو ۔

جس پر آج میں لکھنے پر مجبور ہوں ان کی شخصیت وہ ہے کہ پڑھنے والا یقینا کہے گا غازی بھائی! آپ کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نے ان کی شخصیت کو دھندلا دیا ،سستی شہرت کے لئے؟ ان کی شخصیت پر نہ لکھتے تو اچھا ہوتا ۔ چون کہ ان کی شخصیت پرلکھنےکا مجھے حکم ہوا جس کو میں ٹال نہیں سکتا تھا تو لکھنے کیلئے قلم اٹھا لیا اور لکھنا شروع کیا ۔

جس کے بارے لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں وہ ہیں حضرت شہیدِ اسلام مولانا عبداللہ غازی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ جن کی شخصیت کا ہر پہلو سنت نبوی ﷺ میں ڈھلا ہوا تھا۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا میں نے دادی اماں اور نانی اماں ( چون کہ شہیدِاسلام کی رشتہ میں بہن ہیں ) سے یہ سننے کو بار بار ملتا ادا (بھائی) حافظ نے \”یہ کہا \” اور ادا (بھائی) حافظ نے \”وہ کہا \” ادا حافظ نے فلاں مشکل کیلئے یہ وظیفہ دیا۔ بہنوں کو حضرت شہیدِ اسلام سےانتہا درجہ کی محبت شاید بھائی ہونےکی بنیاد پہ تھی؟ لیکن میرا یقین ہے بہنوں کومولانا سے اتنی زیادہ محبت تقویٰ اورپرہیزگاری کی بنیاد پہ تھی۔ اور بلا مبالغہ مولانا کی بہنیں بھی تقویٰ اور پرہیزگاری میں مولاناسے کم نہیں ۔ دادی تو فوت ہوچکیں لیکن نانی اماں ابھی بھی حیات ہیں اورعمررسیدہ ہونے کے باوجود کھبی تہجد قضاء نہیں کی اور یہی حال ان کی دوسری بہنوں کا ہے اسی طرح حضرت شہیدِاسلام کی بیٹیاں بھی تقویٰ و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ ہیں اللہ ان سب کا سایہ تا دیر سلامت رکھے آمین ۔

پنجاب کے ضلع راجن پور کے پس ماندہ علاقہ روجھان میں مزرای قبیلے کے مولوی غازی مرحوم سڈوانی کے ہاں پیدا ہوئے (حضرت شہیدِ اسلام کی تاریخ پیدائش معلوم نہ ہوسکی )

قرآن مجید حفظ اور درجہ کتب کے ابتدائی درجات خدام القرآن میں حاصل کرنے کے بعد بڑی کتب کی تعلیم کیلئے ملتان چلے گئے اور جامعہ قاسم العلوم میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ سے ایک سال فیض حاصل کرنے کے بعد گھر آئے اور دورہ حدیث کیلئے جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے اسی اثناء میں حضرت شہیدِاسلام کی شادی طے ہوئی اور بڑی سادگی سے شادی ہوئی کہ نہ نئے کپڑے تھے اور نہ ہی نئے جوتے اور نہ ہی بارات اس کے بعد حضرت شہیدِ اسلام جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن تشریف لے گئے اور فراغت تک حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ سے کسب علم کیا۔ سنہ1957 میں فراغت کے بعد اپنے آبائی علاقہ روجھان میں آگئے چونکہ حضرت شہیدِ اسلام طب نبوی ﷺ بھی اچھی طرح جانتے تھے اس لئے طب کا کام شروع کیا۔ ایک دفعہ حضرت دوائی کوٹ رہے تھے کہ حضرت شہیدِاسلام کی والدہ رحمۃ اللہ علیھا نے فرمایا بیٹا! علم اسی لئے حاصل کیا تھا کہ بیٹھ کر دوائی کوٹو؟ یہ بات دل کو لگی اور درس وتدریس میں مشغول ہوئے اور کچھ عرصہ بعد کراچی کا سفر کیا ۔حضرت شہیدِ اسلام نے حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے مشورہ سے ملیر ٹن کی کی جامع مسجد رشیدیہ میں امامت و خطابت کی ابتدا کی اور کچھ عرصہ بعد مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ ہی کے مشورہ سے تین ہٹی کراچی کی مرکزی جامع مسجد مبارک کی امامت وخطابت شروع کر دی۔اور جب دارالخلافہ اسلام آباد کے مرکزی مسجد کے لئے موزوں اور مناسب امام وخطیب کیلئے حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف عریضہ لکھا گیا تو حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت کا انتخاب کیا اور حضرت شہیدِ اسلام 1966 میں اسلام آباد آ گئے۔ تاحیات اسی مسجد کے امام وخطیب رہے۔ حضرت شہیدِ اسلام زندگی کے ہر موڑ پہ سنت نبویﷺ کا عملی نمونہ تھے ۔ میں چاہتا ہوں حضرت شہیدِاسلام کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پہ لکھوں۔

حضرت شہیدِ اسلام رحمۃ اللہ علیہ سنت کے اتباع کا اندازہ یہاں سے کیا جاسکتا ہے کہ گھر کے کام کرتے ہوئے کھبی عار محسوس نہیں کیا ،اورآپﷺ کے بارے منقول ہے حضرت اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا آپ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ کہا: آپ ﷺ اپنے گھروالوں کے کام کاج میں مشغول ہو جاتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو کھڑے ہوتے اور نماز پڑھنے لگتے تھے (ترمذی حدیث نمبر2489)

حضرت شہیدِ اسلام رحمۃ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ رحمۃ اللہ علیھا جب بیمار ہوتیں تو اپنے ہاتھوں سے کھلاتے جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔اور ایسا حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ آپﷺ کی اس حدیث کی وجہ سے کرتے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپﷺ حجتہ الوداع کےسال(10 ھ میں) میری عیادت کےلیے تشریف لائے اورمیں سخت بیمارتھا۔ اس موقع پہ آپﷺ نے فرمایا:یاد رکھو تم اللہ کی رضا کی نیت سے جو خرچ کرو گےاس پر بھی تمہیں اجرو ثواب ملیگا۔ حتٰی کہ اس لقمہ پربھی اجرو ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو (بخاری شریف حدیث نمبر1295)۔

حضرت شہیدِ اسلام رحمۃ اللہ علیہ کی امانت کے حوالہ سے پروفیسر عبدالرحیم اشرف (حضرت شہیدِ اسلام کے سالہ اور میرے نانا ہیں) سے دریافت کیا تو ایک واقعہ سنایا جسے میں سن کر دنگ رہ گیا انہوں نے فرمایا اس زمانہ میں آبپارہ سے مری سرکاری بس سروس چلتی تھی تو حضرت شہیدِ اسلام رحمۃ اللہ علیہ اپنی فیملی سمیت مری کیلئے بس اڈا پہنچے تو ٹکٹ لینے کیلئے ٹکٹ گھر تشریف لے گئے تو ٹکٹ بیچنے والا حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کو جانتا تھا اس لئے اصرار کیا کہ چاربچوں کیلئے 2 ٹکٹ لے لیں حضرت نے فرمایا چار ٹکٹ دے دو یہ بچے اگرچہ دکھنے میں کم عمر ہیں لیکن ان کی ٹکٹ پوری بنتی ہے اسکے بار بار اصرارکرنے پہ حضرت نے اسوقت تو 2 ٹکٹ لے لیئے لیکن واپسی پہ حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے 2 ٹکٹ خریدے اور اس بار ٹکٹ بیچنے والا وہ تھا جو حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کو نہیں جانتا تھا اس لیئے 2 ٹکٹ دے دئیے اور حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اُن ٹکٹوں کو پھاڑ دیا اور یوں حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اوپرسرکار کا حق رہنے نہیں دیا۔

حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی اس عادت کا اکثر مشاہدہ کیا گیا کہ کھبی کسی سے گلاس پانی تک نہیں مانگا یہاں تک کہ اپنی اولاد سےبھی ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ سواری پہ ہوتے اور چابک گر جاتا تو خود اتر کر اسے اٹھا لیتے تھے اور اسے کھبی عار نہیں سمجھا ۔ جبکہ ہمارے ہاں کسی کو تھوڑا سا مرتبہ مل جائے تو وہ اور کچھ بنے یا نہ بنے وہ سب سے پہلے مخدوم ضرور بن جاتا ہے۔

حضرت شہیدِ اسلام کے نواسے اور مرکزی جامع مسجد کے نائب خطیب مولانا عامرصدیق مدظلہ نے ایک عجیب مشاہدہ بیان کیا کہ اس زمانہ میں مسجد کے متصل اتوار بازار جمعہ کے دن لگتا تھا اور لوگوں کی سہولت کیلئے ایک بیت الخلاء کا انتظام حضرت نے اپنے پیسوں سے کیا حضرت شہیدِاسلام کو کئی بار دیکھا کہ وہ جمعہ کیلئے مسنون غسل سے پہلے اسے صاف کرتے پھر مسنون غسل کر کے جمعہ کے خطبہ کیلئے مسجد تشریف لاتے۔

عاجزی کے بارے حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے ڈرائیور منظور احمد جو ابھی بھی حیات ہیں بتاتے ہیں کے جب گاڑی تک آتے تو سلام میں پہل کرتے اور جب میں دروازہ کھولنے کیلئے آگے بڑھتا تو منع کردیتے اور فرماتے میں ایک بندہ ہوں میرے لئے یہ مشقت نہ کیا کرو۔

 حق گوئی کو وہ اپنا فرض سمجھتے تھے جسکی وجہ سے حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کو کئی بار جیل جانا پڑا ایک بار بھٹو کے دورِ حکومت میں بھٹو نے اغوا کرایا اور جو اہلکار لے گئے وہ ڈرانے کیلئے بجلی کی ننگی تاریں لیکر کھڑے ہو جاتے حضرت شہیدِ اسلام رحمہ اللہ کودھمکاتے ہوئے کہتے تم مرنے کی تیاری کرو بس تمہارے موت کا حکم نامہ آنے والا ہے۔ حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے وقتا فوقتا نیند آجاتی وہ لوگ آکر جگاتےاور تعجب کا اظہار بھی کرتے اور جب مجھے بتایا گیا کہ آپ کو ایک آدھ دن تک رہا کر دیا جائے گا تو یہ سننے کے بعد نیند آنکھوں سے چلی گئی ۔

ہمدردی تو گویا حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی رگ رگ میں رچی بسی تھی حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی نبیلہ غازی صاحبہ نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک پریشان حال بچہ گھر لے آئے جس نے رات مسجد میں گزاری اس کے کپڑے پھٹے ہوئے اس کے پاس ایک بیگ تھا جس میں اس نے بوٹ پالِش کرنے کا سامان رکھا ہوا تھا اور پوچھنے پہ اس نے بتایا میں بوٹ پالش کرتا ہوں لیکن چون کہ بوٹ پالش کرنے کا سامان لوگوں کو نظر نہیں آتا اس لئے گاہک بہت کم آتے ہیں اسے تھڑا خرید کے دیا تاکہ اس پہ بوٹ پالِش کا سامان رکھے تو گاہکوں کو نظر آئے اور اس کا کاروبار ٹھیک طرح سے چلے۔

ایک دوسرا واقعہ جس سے حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی بےحد ہمدردی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہندو آدھی رات کو حضرت شہیدِاسلام کے گھر دستک دیتا ہے اور شکایت کرتے ہوئے کہتا ہے آپ کے ملک میں میری جیب کٹ گئی ہے اور مجھےرقم چاہئے پوری رات اسکی خاطر داری کی اور رقم دے کررخصت کیا کچھ عرصہ بعد اس ہندو نےاپنے ملک واپس پہنچ کر شکریہ کا خط لکھا اور رقم بھی واپس بھیج کردی، یقینا حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اس غرض سے وہ رقم نہ دی تھی کہ اسے اس نیکی کا بدلہ دنیا میں ملے ۔

حضرت مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کبھی خاندان والے اصرار کرتے کہ حضرت اب تو اپنے لئیے کوئی پلاٹ یا مکان خرید لو! تو حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کا جواب ہوتا آخرت کے پلاٹوں کی فکر کرو ۔ اور زندگی بھر ذاتی مکان نہیں خریدا ۔ یہ واقعہ قابل تقلید ہے اہل علم کیلئے جو دنیا کی پلاٹوں اور مکانوں کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں ۔

حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ کو ہمیشہ سچ بولتے دیکھا گیا حضرت کی صاحبزادی جمیلہ غازی صاحبہ فرماتی ہیں ابا جان بعض دفعہ امی کیلئے کچھ لے آتے تو میں اور علامہ عبد الرشید غازی رحمۃ اللہ علیہ پوچھ لیتے اس میں کیا لائے تو جھوٹ سے بچنے کیلئے جواب دیتے (واللہ اعلم) اللہ سب سے بہتر جاننے والا ہے ۔

حضرت کی صاحبزادی جمیلہ غازی صاحبہ فرماتی ہیں ابا جان کو مچھلی بہت مرغوب تھی اور والدۃ صاحبہ رحمۃ اللہ علیھا معدے کا عارضہ تھا اس لیئے مچھلی بنادیتی تھی اور ابا جان کو پیش کرتی تو ابا جان کھبی کھا لیتے اور کھبی کہدیتے فریزر میں رکھدوبعد میں کھالوں گا آخری بار جمعرات کو مچھلی بنائی اور پیش کیا تو فرمایا: فریزر میں رکھدو جس کی قسمت میں ہوگا کھا لیگا اور مچھلی ابا جان نے نہ کھائی اور ہفتہ کو شہید ہوگئے ۔

حضرت کی صاحبزادی جمیلہ غازی صاحبہ فرماتی ہیں ابا جان اپنے ہاتھوں سے قہوہ بنا رہے تھے اسی اثناء میں میری بڑی بہن عائشہ غازی صاحبہ نے کہا ابا جان میرے بیٹے کی ملازمت کا آپ نے وعدہ کیا تھا ان کے لئیے کیا کیا؟ تو حضرت شہیدِاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : بیٹی اللہ کردیگا ! اسپر بڑی بہن نے کہا اسکا مطلب ہے آپ نے میرے بیٹے کی ملازمت کیلئے کچھ نہیں کرنا تو ابا جان نے باربار یہی فرمایا: اللہ کردیگا ،تیرے بیٹے کا کام ہوجائےگا اس سے اگلے دن ابا جان شہید ہوگئے۔

17 اکتوبر 1998 بمطابق 25 جمادی الثانی 1419ھ کو حضرت شہیدِ اسلام مولانا عبداللہ غازی رحمہ اللہ پہ مرکزی جامع مسجد اسلام آباد کے احاطہ میں قاتلانہ حملہ کیا گیا اور حضرت شہیدِ اسلام زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments