اٹھارہ اکتوبر: دن جو تاریخ بن گیا


\"faisal-sami-dehlavi\"اٹھارہ اکتوبر ایک عام سا دن تھا۔ ہر سال آتا اور گزر جاتا تھا۔ 2007 کے سال میں 17 اکتوبر کی رات کوکچھ جیالوں نے، جاں نثارروں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرایک آخری قہقہہ لگایا اور موت کو شرمندہ کر دیا۔

!!ارے ان کی رگوں میں خون دوڑ رہا تھا کہ پارہ

ان کی آنکھوں میں یہ کیسی مستی تھی جس نے انہیں ہر خوف سے عاری کردیا تھا۔ حالانکہ جہاں موت اپنے بھیا نک پنجے لیکر آن موجود ہو، وہاں سے تو بڑے بڑے شہ زور میدان چھوڑنے میں عافیت جانتے ہیں۔

!!مگر ان جاں نثاروں نے تو بہادری، وفاداری اور استقامت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی

ایک بم کا دھماکہ ہوتا ہے

چلتے ہوئے کارواں کو روکنے کے لئے

جدوجہد کے عزم کو ٹوکنے کے لئے

جیسے گویا ایک تنبیہ سی ہو

موت نے سرگوشی سی کی ہو\"karsaz-tragedy\"

کہ آگے جانے کی بات نہ کرو

جمہور کے چھانے کی بات نہ کرو

وقت ہے گر لوٹ سکتے ہو

تمھاری جوانی پر ترس آتا ہے

دیکھو گھر سے کوئی بلاتا ہے

وقت ہے اب بھی تمھارے لیئے

لوٹ جاؤ، گر لوٹ سکتے ہو

مگر یہ کیا؟ ارے ، ایسا تو چشم فلک نے صدیوں میں ہی دیکھا ہو گا۔

موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کون مسکرایا ہوگا۔

جب بم دھماکے ہوتے ہیں، جب گولیاں چلتی ہیں تو مجمع بکھرنے لگتے ہیں ،

نعرے اور آوازیں تھم سی جاتی ہیں۔ ہر کوئی اپنی جان کو بچانے کو بھاگنے لگتا ہے۔

مگر یہ کیا؟ ارے یہ تو پلٹ رہے ہیں!، یہ ڈر کیوں نہیں رہے!

ان کی آنکھوں میں خوف کی فضا کیوں نہیں؟ یہ کس جذبے کے اسیر ہیں کہ ان کو معلوم

بھی ہے کہ آگے موت ہے اور یہ اسی جانب جیسے لپک لپک کے جاتے ہیں\"benazir\"!!

وہاں ایسا کیا ہے جو ان کو اپنی اور کھینچ رہا ہے؟

کون ہے جس کے لئے  یہ موت سے بھی لڑنے کو تیار ہو گئے ہیں؟

آخر انہیں کون سا سودا زندگی کی قیمت پر بھی پیارا ہے؟

یہ کیسے جاں نثار ہیں خدایا، کہ نہتے ہاتھوں اور ننگے پاؤں،

مست ا لست اپنے انجام کی پرواہ کیئے بغیر جاں نثار کرتے جا رہے ہیں۔

ان کی آنکھوں کی چمک نے تو رات کے اندھیروں کو شکست دے دی اور اجالا کردیا!!

ان کے خون نے تو بارود کی آگ کو دھواں کردیا!!

میں یہ کیسے کروں کہ ان کی بات کو لفظوں میں رقم کروں!

میں کیسے اس منظر کو ورق پہ منتقل کروں!

میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا، چشم فلک بھی حیرانی سے انہیں دیکھتی ہے۔

ان سرفروشوں اور جاں نثاروں کے بدن سے گویا نغمے سے ابل رہے ہیں۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

یہ کس سورج کی کرنیں ہیں اور یہ کس چاند کی چاندنی کی لہریں ہیں۔

دھماکے پہ دھماکہ ہے مگر ان کے قدم رک نہیں پا رہے\"Benazir-Bhutto-making-Victory-Sign-in-Lahore-Rally-10-April-1986\"!

اپنی جاں نذر کروں ،اپنی وفا پیش کروں،

اے میری قائد ترے تحفظ کے لئے  متاع جاں بھی دے دوں۔

ہاں! وہاں جو روشنی تھی کچھ دشمن اس کو بجھانا چاہتے تھے۔ وہ جو مشرق کی بیٹی تھی۔

وہ جو بینظیر تھی،بے نظیر ہے اور بینظیر رہے گی۔ ہاں وہ اس نظیر کو مٹانا چاہتے تھے،

دشمنوں کو پہلے بھی اس سے ڈر لگتا تھا اور اب بھی وہ اس سے خوفزدہ تھے۔

ڈرتے ہیں بندوقوں والے

اک نہتی لڑکی سے

پھیلا ہے ہمت کا اجالا

اک نہتی لڑکی سے

ہاں اسی بے نظیر کو، ہمت کی تصویر کو روکنے کے لئے  پھر اک بار یہ سازش رچی گئی تھی۔

\"Former

ہاں اک بار پھر جمہو ر کو بچہ جمہوررا سمجھنے والے ،پس پردہ رہنے والے عوام دشمن ،

جمہوریت سے نفرت رکھنے والے،طاقت کی راہ داریوں میں خاموشی سے چلنے والے ،

ہاں وہی جو گیت کو خاموش کرنا چاہتے تھے،

ہاں وہی جو رنگوں کے دشمن ہیں،

ہاں وہی جو پھانسی دیکر سمجھتے ہیں کہ صدا خاموش ہوئی۔

ہاں وہی جن کے لئے  زندگی کاروبار ہے اور حکومت تماشا ۔

جن کی نیندیں بے خواب تھیں جب سے انہوں نے اسکی بے نظیر آواز سنی تھی۔

جب سے انہیں پتہ چلا تھا کہ وہ ہمت والی بے نظیر واپس آرہی ہے تو ان کے اعصاب جھنجھنا اٹھے تھے۔

ہاں 16 اکتوبر 2007 کی اک پریس کانفرنس کے لفظ جیسے لفظ نہیں بلکہ برچھے تھے جو جمہوریت کے

دشمنوں کے تن بدن میں اتر سے گئے اور انہوں نے سوچا کہ اگر بے نظیر آگئی تو ان کے لئے  پھر کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

کہ پہلے کتنے جتن اور کاوشوں سے انہوں نے آواز کو قتل کرنا چاہا، گیت کو خاموش کرنا چاہا مگر

بھٹو تو مر کر امر ہو گیا\"benazir02\"،

وہ روشنی بن گیا،

وہ ہوا میں بدل گیا،

اور جئے بھٹو کی صورت، آواز تو ترانہ بن گئی،

اور آواز کہتی تھی کہ

\” اتناگونجوں گا کہ صدیوں سنائی دوں گا\”

وہ جوگونج تھی وہی جمہوریت کے ازلی و ابدی دشمنوں کی جان کھائے جا رہی تھی اوراب ،

اور اب سونے پہ سہاگہ اس بھٹو کو ، جیسے قتل کر دیا گیا ، اس بھٹو کو جسے رات کی تاریکی میں مٹانا چاہا

مگر وہ سورج بن کر نمودار ہو گیا، اس بھٹو کو جو ایک نہیں رہا بلکہ کروڑہا عوام بن گیا،

انہیں خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

صبح اک نیا سورج تراش لاتی ھے

،اس بھٹو سے وہ دشمن بہت تنگ تھے اور اب اسی کی بیٹی وہ پنکی

!!وہ بینظیر جسے روکنے کے لئے  کیا کیا جتن نہیں کیے گئے

!!اسے کیسے روکا جائے، اسے کیسے روکا جائے

ہاں دشمنوں کو، جمہوریت کے، جمہور کے دشمنوں کو یاد تھا کہ تاریک تر ضیاء کے دور میں بھی اسی بینظیر کو ملک سے جلا وطن کیا گیا تھا اور پھر جب وہ لوٹی تھی تو لاہور میں 1986 میں عوام کا گویا سمندر امڈ آیا تھا تو اب پھر 2007 میں اسی بینظیر کو کیسے آنے سے روکا جائے؟

جمہوریت کے اور عوام کے دشمن جانتے تھے کہ وہ عوام اور بھٹو کی تصویر بینظیر کے درمیان رکاوٹ بننے میں کامیاب نہ ہو سکیں گے

اور ہاں یہ وہ بھی جانتے تھے کہ 1986 کی تاریخ 2007 میں اور شدومد سے دہرائی جائے گی تو

\"18

پھر ان سیاہ قلب اور تاریک اذہان والوں نے یہ سازش رچی کہ آواز کو کیسے خاموش کیا جائے۔

اور پھر اکتوبر کی وہ شام آن پہنچی جب کراچی کی سڑکوں پر عوام کا ایک ا ژدھام تھا ہر کوئی اپنی بہن ، اپنی ماں، اپنی رہنما کو دیکھنے کے لئے  بے قرار تھا۔

اور پھر وہ آگئی، جہاز میں اسے کپتان کا پیغام ملا ، وہ کپتان بینظیر کو ، بھٹو کی تصویر کو اوپر فضا سے دکھانا چاہتا تھا کہ بی بی ذرا اوپر سے دیکھیں تو سہی، نیچے سروں کی سیاہی سے سڑکیں اور میدان دور دور تک بھرے ہوئے ہیں۔

آدیکھ کہتی ہے تجھے خلق خدا خوش آمدید

اور جب جہاز کی سیڑھیوں سے قران کے سائے میں بی بی نے اپنی سر زمین پر قدم رکھنے کے لئے  اترنا شروع کیا تو ان کی آنکھوں کے آنسوؤں نے حق کی گواہی دی۔

ہر طرف اک ہی آواز تھی ،ہر طرف اک ہی نعرہ تھا

جئے بھٹو ، صدا جئے

اور پھر سفر شروع ہوا، وہ سفر جسے تاریخ کا ان مٹ حصہ بننا تھا ، ہاں وہ سفر جسے مثال بننا تھا، ہا ں وہ سفر جس نے 18 اکتوبر کی تاریخ کو اک بے بہا عظمت بخشنا تھی، ہاں وہ سفر جس نے نہتے انسانوں نے، بینظیر کے جاں نثاروں نے وفاداری، استقامت اور حوصلے کی عظیم الشان مثال میں بدلنا تھا۔ ہاں وہ سفر جسکے لیئے جمہوریت اور عوام کے دشمنوں نے بارود اور تاریکی کے امتزاج سے ایک سازش رچی تھی۔

منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتا وہ حد نظر تک لوگوں سے بھرا قافلہ چیونٹی کی چال سے چلتے چلتے آخر کار اس مقام تک پہنچ ہی گیا جہاں قدرت نے ان جاں نثاروں کو، ان خوش نصیبوں کو شایدایک عظیم کام کیلیئے چنا تھا۔

ہاں وہی جاں نثار تھے جنہوں نے بلاول ہاؤس میں اک دن پہلے یہ قسم کھائی تھی کہ

جاں چلی جائے مگر قدم نہیں لڑکھڑائیں گے

\"Former

اپنی قائد کے لئے  ہر حدسے گزر جائیں گے

بی بی پر کوئی آنچ بھی نہ آنے پائے

اس قسم کو اپنے خوں سے بنھائیں گے

اور بھر شاہراہ فیصل کے اس حصے پر جہاں کی روشنیوں کو بند کرنے کا پہلے سے انتظام تھا وہاں اک دھماکہ ہوتا ہے اور وہ سارے جاں نثارموت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا وعدہ پورا کرتے ہیں۔ وہ بارود کی بو دھویں کے بادل اور خون کی برسات سے گزر جاتے ہیں۔ مگر اپنا وعدہ وفا کر جاتے ہیں،

دھماکہ اور پھر اک اور دھماکہ

مگر انسانی ہاتھوں کی اپنی زنجیر ٹوٹ نہیں پاتی

ارے یہ کون ہیں جو بارو د و آہن کی بوچھاڑ اپنے جسم پر سہہ جاتے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹتے!

وہ اپنا وعدہ اپنی جان اور خون سے دیکر نبھا گئے ۔

ان جیسے جاں نثاروں کے لئے  فیض نے کہا تھا۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

اور نکلے گے عشاق کے قافلے

ان کی راہ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

اور آج پھر 18 اکتوبر ہے۔ ایک دن جو تاریخ میں رقم ہوا ، اک دن جب سچ اور حق سربلند ہوا ان شہیدوں

نے اپنی جان اک جذبہ اور ایک مقصد کے لئے  دی اور اس سے پہلے کے تمام راہ جمہوریت و حق کے شہیدوں کے قافلے سے جا ملے جن کی قربانی اس لئے تھی کہ اس ملک خداداد میں جمہور کی حقیقی حکمرانی ہو اور یہ ان کا ہی خون تو تھا کہ جس کی چمک نے پھر امریت کے لئے  ہر دروازہ بند کردیا۔

سفر اب بھی جاری ہے

پڑاؤ آتے جاتے رہے ہیں

قافلہ ہے رواں دواں

منزلوں کی جانب نگاہیں

سفر اب بھی جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments