شہدائے کارساز ریلی ۔۔ آنکھوں دیکھا حال


\"usman25  کلو میٹر طویل سفر ۔۔ 10 گھنٹے کا دورانیہ اور مسلسل نعرے ، تقریریں اور رقص۔۔

ایسی صورت حال میں ریلی کے اختتام پر شارع فیصل کی فٹ پاتھ بے حال جیالوں سے نہ بھری ہوتیں تو اور کیا ہوتا

اور اس طویل سفر میں چار گھنٹے کا انتظار بھی شامل ہے

چھتوں پر سے پھول نچھاور کیے جا رہے ہوں، اپنی گھروں کی بالکونیوں میں لڑکیاں بالیاں بلاول بھٹو کے آنے کی خوشی میں رقص کررہی ہوں، ان مناظر کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا

شہداء کی یاد میں ریلی نکال کر آپ لوگ اتنا ناچ کیوں رہے ہیں، میں نے بیساکھی کے ذریعے ناچتے دونوں ٹانگوں سے معذور جیالے سے جب یہ سوال کیا تو وہ کہنے لگا کہ رزاق جھرنا نے تو ثابت بھی کر دیا صاحب۔۔ پھانسی گھاٹ تک بھی ہم ناچتے ہوئے جاتے ہیں، یہ کہہ کر وہ بیساکھیاں زمین پر ٹکا کر ناچنا شروع ہو گیا

 شہدائے کارساز ریلی جب لیاری سے شارع فیصل آنے کے لیے بل کھا کر نکلی تو اتفاق سے فضائی مناظر دیکھنے کو ملے، یہ کوئی دریا تھا جو شاید جھوم کے نکلا تھا، جس میں پاکستان کی ہر قومیت کی نمائندگی تھی\"bilawal-informed\"

عموماً ایم کیوایم کے جلسوں میں اکثریت اردو بولنے والوں کی ہوتی ہے، عمران خان کے جلسوں میں اپرمڈل یا مڈل کلاس کی اکثریت ہوتی ہےتاہم پیپلزپارٹی کے جلسوں میں یہ طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہاں کس قومیت کے لوگ زیادہ ہیں

مچھر کالونی کے بنگالی، لیاری کے بلوچ، میمن گوٹھ کے سندھی، بنارس کے پختون اورمحمود آباد کے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ سرائیکیوں، پنجابیوں اور اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد ریلی میں موجود تھی، یہاں مڈل کلاس اور ایلیٹ کلاس کے بھی لوگ تھے اور ننگے پیر، پھٹےکپڑوں والے بھی

یہ ایک رنگارنگ شو تھا، پیپلزپارٹی علماء ونگ اور مینارٹی ونگ کے قافلےایک دوسرے سے بلند نعرے لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ پیپلزپارٹی کی اصل طاقت وہ ہیں

گو بلاول بھٹو کی ریلی کا بے نظیر بھٹو کی 18 اکتوبر 2007 کی ریلی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت پورے پاکستان سے جیالے آئے تھےاورمختصر نوٹس پر ہونے والی شہدائے کارساز ریلی صرف کراچی کے جیالوں پر مشتمل تھی تاہم شہرقائد میں تمام قومیتوں کی \"karsaz-bilawal\"بھرپور نمائندگی کے ساتھ پاورفل سیاسی شو ایک اہم کارنامہ ہے

اردو بولنے والے جیالوں کو شکوہ رہا ہے کہ ان کا کردار ہمیشہ سے نظرانداز ہوا ہے، ریلی پر تبصرہ کرتے ہوئے فہمیدہ ریاض نے لکھا کہ اردو بولنےوالوں کا ایک طبقہ ہمیشہ رہا ہے ، جو دھونس سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا، وہ پی پی سے رشتہ رکھنا چاہتا ہے، شہدائے کارساز ریلی سے اردوبولنے والے جیالوں کو بھی اپنی طاقت دکھانے کا موقع ملا

مختلف مقامات پر ہونے والی بلاول بھٹو کی تقاریر میں تمام ایشوز پر بات کی گئی، انتہاپسندی سے لے کر کرپشن اور بھٹو خاندان کی قربانیوں سے لے کر مستقبل میں پیپلزپارٹی کے امکانات تک بلاول بھٹو نے ہر ایشو کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا، حریف سیاسی جماعتوں پر چوٹ بھی کرتے رہے، اپنی ماں کا ذکر کیا تو آبدیدہ بھی ہوگئے

ایم کیوایم کے بارے میں بلاول بھٹو نے کہا کہ پتنگ کٹ چکی ہے، اب کراچی میں صرف تیر چلے گا جبکہ تحریک انصاف کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کمزور اپوزیشن کرکے نوازشریف کو مزید مضبوط کرنے کے مشن پر ہیں

مستقل وزیرخارجہ کا تقرر اور پانامہ پیپرز پر پیپلزپارٹی کےبل کو منظور کرنے کے مطالبات بھی پیش کیے، بلاول بھٹو نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کو دوبارہ فعال کرنے کا مطالبہ بھی کیا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی پیک کے حوالے سے آصف زرداری نے ایک قرارداد پیش کی \"bilawal-container\"تھی، انہوں نے اس پر عملدرآمد کو بھی اپنے چار مطالبات کی فہرست کا حصہ بنایا اور پورا نہ ہونے کی صورت میں 27 دسمبر کو لانگ مارچ کے اعلان کا عندیہ بھی دیا

بلاول بھٹو خود پر ہونے والے اعتراضات سے بخوبی آگاہ ہیں، یہ خود کو بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں، والد کے نام کوخود سے الگ نہیں کرتے، پیپلزپارٹی کےترانوں میں بھی آصف زرداری کا نام شامل ہےتاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ باپ کو چھوڑ کر صرف نانا سے نسبت جوڑ لی

ریلی کے انتظامات میں بھی ہرممکن کوشش کی گئی کہ مخالفین کے ہاتھ میں تنقید کا کوئی پہلو نہ چلا جائے، متبادل روٹس سے آگاہی کے لیے تین دن پہلے سے اعلانات ہوتے رہے، پیپلزپارٹی کے رہنما شاید اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت ان کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نہیں، ان کا اصل حریف میڈیا ہے جو اسٹبلشمنٹ کی جانب سے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہےاور ان کی مثبت چیزوں کو بھی منفی بنا کر پیش کرتا ہے

اس ریلی سے پہلے جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ پیپلزپارٹی کا خاتمہ ہوچکا ہے، شاید وہ ان لوگوں کے خیال میں کچھ تبدیلی آئی ہو، اب ایک بات تسلسل سے کہی جا رہی ہے کہ پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوچکا ہے اور شاید اسی لیے بلاول بھٹو نے کراچی کی ریلی کو ٹریلر قرار دے کر لاہور میں سیاسی شو کرنے کا اعلان کیا ہے، بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ تو پہلی قسط ہے، پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست

بلاول بھٹو کی تقریر وں کی خاص بات بار بار اس چیز کو باور کرانا تھا کہ انہوں نے حکومتی اور پارٹی کے تمام معاملات ہاتھ میں لے لیے\"bilawal1\" ہیں، وہ سب صحیح کرنے کے مشن پر ہیں اور ان کو یقین ہے کہ وہ صورت حال کو جلد درست کرکے ناراضگی کی تمام وجوہات دور کردیں گے

بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں ایجنسیوں کا بھی ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ ایک طویل عرصے بعد ایجنسیوں نے انہیں سیکیورٹی کلیئرنس دی ہےتو وہ یہ ریلی نکال رہے ہیں، اگر اسٹبلشمنٹ جیالوں کو کراچی میں پہلے ہی چھوٹ دے دیتی تو شاید ایم کیوایم کے مقابلے میں ایک فطری سیاسی قوت سامنے آکر متبادل کا کردار اداکرتی مگر پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیوایم پاکستان جیسی جعلی کوششوں کے نتیجے میں اسٹبلشمنٹ شاید اردو بولنےو الوں کو ضد کی کیفیت میں لے گئی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments