قرارداد مقاصد اور سیکولرازم (1)


پاکستان میں ریاست کی شناخت اور دستور سازی کی پیچیدگیوں میں باہم گہرا تعامل پایا جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست کی بنیاد 1973ءکا آئین ہے اور پاکستان کا ہر وفا دار شہری اس دستور سے وابستگی کا پابند ہے۔ تاہم 1973ءکے آئین میں اساسی طور پر (اور بعد ازاں مختلف آمروں کی چیرہ دستیوں کے باعث) ایسے تناقضات موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے ایک جدید قومی ریاست اور جمہوری معاشرے کے طور پر پاکستان کی شناخت میں چند در چند پیچیدگیاں کا پیدا ہونا ناگزیر امر ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک دانشور نے پاکستان کے آئین کی نصف درجن شقیں گنوا کر پوچھا تھا کہ ”بزعم خود روشن خیال کہلوانے والے“ کیا ان شقوں کو پاکستان کے آئین کا حصہ سمجھتے ہوئے ان کی بالادستی کے خواہاں ہیں۔ خاکسار نے آئینی شقوں کی اس کسی قدر طویل فہرست میں سے آئین کی شق دو (الف) کا انتخاب کیا ۔ پاکستان کے آئین کی شق دو کی ذیلی دفعہ الف پاکستان کے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے خوان آمریت کی دین ہے۔ جنرل ضیا الحق نے 2مارچ 1985 ءکو صدارتی حکم نمبر 14 المعروف بہ آر سی او جاری کیا تھا جو آگے چل کر آٹھویں آئینی ترمیم کی بنیاد بنا۔ اسی فرمان میں 1973ءکے اصل دستور کے دیباچے کو آئین کے متن میں شامل کر کے 12مارچ 1949ءکو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ ’قرار داد مقاصد‘ کو آئین کا مؤثر حصہ قرار دے دیا تھا۔

دانشور موصوف کے استفسار کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری اقدار کے خواہاں شہری 1973ءکے آئین کو پاکستان کے وفاق کی واحد ضمانت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس دستور میں شق دو (الف) سمیت جو کچھ بھی درج ہے، اسے پاکستان کا دستور تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم جمہور ی قانون سازی کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میںپاکستان کا دستور ایک قابل ترمیم دستاویز ہے اور دستور میں ترمیم کا طریقہ کار خود اس دستاویز میں طے کر دیا گیا ہے۔ ہم پاکستان کے دستور کی شق دو (الف) سے اصولی اختلاف رکھتے ہیں۔ ہمارا نصب العین یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی پارلیمنٹ کے لئے دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنا ممکن ہو، آمر کی ایزاد کردہ اس غیر جمہوری شق کو آئین سے حذف کر دینا چاہیے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمیں آئین کی شق دو الف سے کد کیوں ہے؟ وجہ واضح ہے کہ ہم قرار داد مقاصد ہی کو جمہوری اصولوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ قرار داد مقاصد پاکستان کے بانی کی وفات کے ٹھیک چھ ماہ بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کی تھی۔ اس پر اسمبلی میں پانچ روز تک زوردار بحث ہوئی۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حزب اختلاف کے رہنما چٹو پادھیا نے اس کی زور وار مخالفت کی تھی۔ اس قرار داد کا مسودہ لیاقت علی خان اور شبیر احمد عثمانی نے مری کی پر سکون وادی میں بیٹھ کر تیار کیا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کے پہلے اٹھارہ مہینے میں مقننہ یا عوامی حلقوں کی طرف سے اس نوع کی قرار داد کا کوئی مطالبہ منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ بلکہ 14 فروری 1949ءکو شروع ہونے والا دستور ساز اسمبلی کا اجلاس تو سالانہ بجٹ کے ضمن میں بلایا گیا تھا۔ قرار داد مقاصد مداری کی پٹاری سے نکالا جانے والا وہ کبوتر تھا جس کا مقصد جسد اجتماعی کی توجہ اس خوبصورت پرندے سے ہٹانا تھا، جسے جمہوریت کہتے ہیں۔

 جملہ معترضہ سہی لیکن بتاتے چلیں کہ شبیر احمد عثمانی مسلم اقلیتی ریاست حیدر آباد دکن کی جامع مسجد کے پیش امام تھے اور مسلم رجواڑوں میں وراثتی تنازعات پر حسب فرمائش فتاویٰ دینے کی شہرت رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد شبیر احمد عثمانی پاکستان تشریف لے آئے اور شیخ اسلام کا لقب اختیار کر لیا۔ وہ اگست 1947ءہی میں پاکستان چلے آئے تھے۔ حالانکہ میر عثمان علی کی حکومت حیدر آباد میں 12 ستمبر 1948ءتک قائم رہی۔ پاکستان کی مسلم اکثریتی ریاست کو اسلامی مملکت کے خدوخال بخشنے کے علاوہ ان کی ایک اہم مصروفیت ریاست خیر پور (سندھ) ریاست بہاولپور (پنجاب) ریاست قلات و خاران (بلوچستان) کے حکمرانوں کی شرعی مشکلات دور کرنا تھا۔ ہمارے مذہب پسند دوست ہمیں اکثر یاد دلاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کی پرچم کشائی شبیر احمد عثمانی نے کی تھی۔ لیکن وہ یہ نشاندہی کرنا بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس، جس میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی موجود تھے، تلاوت قرآن کے بغیر شروع ہو اتھا۔ پاکستان کے موعودہ سیاسی خدوخال پر لیاقت علی خان اور محمد علی جناح کے نکتہ نظر میں اختلاف اب تاریخ کا حصہ ہے۔ جناح کا نصب العین ایک جدید جمہوری ریاست تھی لیکن لیاقت علی خان کا سیاسی مزاج جمہوری بندشوں سے گریز پا تھا۔

قرارداد مقاصد کے متن پر غور و فکر کر کے اس کے مضمرات کی نشاندہی سے پہلے اس اہم دستاویز پر بھی توجہ دینا ضروری ہے جو مطالبہ پاکستان، تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بنیاد بنی یعنی 24 مارچ 1940ءمیں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں منظور ہونے والی قرار داد لاہور جس کے کل دو نکات ہیں۔ پہلے نکتے میں ہندوستان کے آئینی سوال کو ایک ایسے جغرافیائی بندوبست سے مشروط کیا گیا ہے جس کی مدد سے ہندوستان کے مشرق اور شمال مغرب میں واقع مسلم اکثریتی منطقوں کو علیحدہ ریاستوں کی شکل دی جا سکے۔ قرار داد کے دوسرے حصے میں اس طرح کے جغرافیائی ردو بدل کے نتیجے میں وجود میں آنے والی مذہبی اقلیتوں کے لیے ”مناسب ، مو ¿ثر اور لازمی“ تحفظات کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ امر واضح تھا کہ یہ تحفظات غیر مسلم اکثریتی بھارت کے مسلمانوں اور مسلم اکثریتی پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم باشندوں کے لئے یکساں طور پر مانگے جا رہے تھے۔ قرار داد لاہور میں کہیں پر بھی ’اسلامی حکومت‘ یا ’شرعی نظام ‘ یا ’اسلامی نظام‘ کا لفظ تک استعمال نہیں کیا گیا۔

1946ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ نے قرار داد میں ترمیم کر کے ’ریاستوں‘ کی بجائے ’ریاست ‘ کا لفظ اختیار کیا لیکن تحریک پاکستان کے اس تکمیلی مرحلے میں بھی ’اسلامی نظام‘ یا ملائیت جیسے تصورات کو مسلم لیگ کے اصولی نصب العین میں شریک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ 11اپریل 1946ءکو مسلم لیگ کنونشن دہلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ ”ہم کس چیز کے لڑ رہے ہیں۔ ہمارا مقصد تھیوکریسی نہیں ہے اور نہ ہی ہم تھیو کریٹک سٹیٹ چاہتے ہیں۔ مذہب کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے اور مذہب ہمیں عزیز بھی ہے۔ لیکن اور چیزیں بھی ہیں جو زندگی کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ مثلاً ہماری معاشرتی زندگی، ہماری معاشی زندگی اور بغیر سیاسی اقتدار کے آپ اپنے عقیدے یا معاشی زندگی کی حفاظت کیسے کر سکیں گے۔ “ یہاں واضح طور پر قائد اعظم مذہب اور سیاست میں تفریق کر رہے تھے۔ یہ بات تو سبھی کے علم میں ہے کہ 1938ءمیں مسلم لیگ کے لکھنو سیشن میں قائد اعظم محمد علی جناح نے عورتوں کو سیاسی زندگی اور دوسرے شعبوں میں حصہ لینے کی جو تلقین کی تھی، ملاﺅں کی طرف سے قائد اعظم کے خلاف کفر کے فتوے اسی تقریر کے ردِ عمل میں دیے گئے تھے۔

مسلم لیگ ایک خاص مذہبی شناخت رکھنے والی سیاسی جماعت تھی چنانچہ قائد اعظم کی طرف سے مسلم لیگ کے اجتماعات میں اسلامی عقائد، مسلم ثقافت اور مسلم تاریخ کے روشن پہلوﺅں کا ذکر اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکن قائد اعظم کی کوئی ایسی تقریر ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ جس میں انہوں نے ملاﺅں کو سیاسی اختیار دینے کی بات ہو۔ مثلاً 2نومبر 1941ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ ”آپ ہندوﺅں اور سکھوں کو بتا دیں کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست ہو گی۔ جس میں ان کو کوئی اختیار نہیں ہو گا“۔

ان افکار کی روشنی میں 11اگست 1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے قائد اعظم کی تقریر ان کی طویل سیاسی زندگی کا تسلسل تھا۔ کیونکہ قائد اعظم نے پاکستان کے قیام سے 30برس پہلے تحریکِ خلافت میں شرکت سے انکار اس لیے کیا تھا کہ وہ تحریکِ خلافت کو سیاسی کی بجائے مذہبی تحریک سمجھتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments